پاکستان اور افغانستان کا رشتہ کیا ہے؟
میں جب بھی اس پُرپیچ سوال پر غور کرتا ہوں‘مجھے فیض صاحب کی ایک نظم یاد آتی ہے: ''جو میرا تمہارا رشتہ ہے‘‘۔یہ نظم آپ بھی سنیں:
میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے
وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں
لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل ودردِ فراق
مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں
یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال
یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہم دمِ مہ و سال
اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے
''گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے‘‘
میں نے جب بھی پاکستان اور افغانستان کے اس ''عشقِ خاص‘‘ کو سمجھنے کی سعی کی‘اندازہ ہوا کہ ایک طلسم کدے میں آ نکلاہوں۔ہردیوارآئینہ ہے اورہر آئینے میں اپنا چہرے الگ دکھائی دیتا ہے۔میں نہیں جانتا کہ یہ طلسم آئینے میں ہے‘چہرے میں ہے یا میری نگاہ میں ہے کہ اپنا ہی چہرہ ایک نہیں رہتا؟علامہ اقبال کی شاعری سے لے کر نجیب اللہ کی پھانسی تک۔گل بدین حکمت یار سے لے کر ملا عمر تک۔مجاہدین سے طالبان تک...ہر دیوار آئینہ ہے اور ہر آئینے میں میرے نقش و نگار ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
تاریخ اس عشقِ خاص کو سمجھنے میں کوئی معاونت کرتی ہے نہ دورِ حاضر۔آج ہم نے عالمی برادری سے جو مطالبہ کیا ہے‘اس نے اس رشتے کو میرے لیے مزید الجھا دیا ہے۔ہمارا کہنا ہے کہ دنیا افغان طالبان اور افغان عوام میں فرق کرے۔سوال یہ ہے کہ ہم دنیا سے جو مطالبہ کر رہے ہیں‘کیا ہم خود اس پر عمل کر سکتے ہیں؟کیا ہم افغان عوام اور افغان طالبان میں فرق کر سکتے ہیں؟جب تک ہمارایہ 'عشقِ خاص‘ سمجھ میں نہیں آئے گا‘اس سوال کا جواب بھی نہیں ملے گا۔
اگر طالبان کی حکومت عوام کی نمائندہ ہے تو دونوں میں فرق کیوں کیا جائے؟ اگر نمائندہ نہیں تو اس حکومت کی تائید کیوں کی جائے؟ حکومت اور عوام میں فرق سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بات جس احساس کے تحت کہی گئی ہے‘وہ واضح ہے۔دراصل کہایہ جا رہا ہے کہ اگر کسی کو طالبان سے اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغان عوام کو بھوک اور موسم کی شدت کے حوالے کر دیاجائے۔انسانی رشتے کا تقاضا ہے کہ افغان عوام کی دکھوں کا درماں تلاش کیاجائے۔انہیں درپیش بحران سے نکالا جا ئے۔
یہ جذبہ قابلِ فہم ہے مگر اس کوایک قابلِ عمل منصوبہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی ملک افغان عوام کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہاں کی حکومت کو نظر انداز کر کے‘ کیسے کر سکتا ہے؟دنیا جو مدد دے گی‘وہ کسی نظام کے تحت ہی دے گی۔اقوامِ متحدہ اگر اس کی نگرانی کرے گی تو مقامی حکومت سے صرفِ نظرکر کے نہیں کر سکتی۔اگر کرے گی تو کیا وہاں کی حکومت اس کی اجازت دے گی؟کوئی عالمی این جی او‘فرض کیجیے‘ افغانستان میں خوراک پہنچانا چاہتی ہے۔اس کے افراد کو افغانستان میں داخل ہونا ہے۔وہ اس کے لیے کس سے اجازت لیں گے؟ طالبان سے‘جن کی حکومت بالفعل قائم ہے؟اگر یہ ان کی اجازت سے ہوگا تو کیا یہ اس کو تسلیم کر نا نہیں ہے؟
سنیچر کوشاہ محمود قریشی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ او آئی سی کے اجلاس میں کیا طالبان حکومت کو تسلیم کر نے پر بات ہوگی تو ان کا جواب تھا کہ اس میںصرف انسانی بحران پر بات ہوگی۔ہوا بھی یہی! او آئی سی کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کر نے کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔میں نہیں جان سکا کہ اس بنیادی سوال کو موضوع بنائے بغیر افغان عوام کے حالات میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟وہی بات کہ عشقِ خاص کو واضح کیے بغیربات آگے کیسے بڑھے گی؟
افغانستان کوتعمیرِ نو کے لیے ایک 'مارشل پلان‘ کی ضرورت ہے۔یہ بحران ایسا نہیں کہ چند دن کی امداد اس کا مداوا کر سکے۔ملک مہاجرین کے کیمپ نہیں ہوتے کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کر دی جائے۔ زندگی کے ہمہ جہتی مطالبات ہیں۔انہیں اگر مخاطب نہ بنایا جائے تو انسانی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جاتا ہے۔المیہ در المیہ! اگر پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دنیا افغانستان کے مسئلے کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھے تواس کا یہ حل نہیں کہ افغان طالبان اور افغان عوام میں فرق کیا جائے۔اس کے لیے پاکستان کو پہلے اپنے رشتے کے گرد تنے ہوئے ابہام کے جالے کواتار پھینکنا ہوگا۔وہی عشقِ خاص کا سوال۔
میرا خیال ہے ہمیں افغانستان کے بارے میں یکسوئی چاہیے۔لطفِ وصل یا دردِ فراق؟ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔برسوں پر محیط ابہام نے اگرچہ اس انتخاب کو مشکل بنا دیا ہے۔یہی ابہام اب سرحد کی دوسری طرف بھی غالب ہے۔افغان بھی ہمارے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ لطفِ وصل وہ اٹھا نہیں سکے اور دردِ فراق سہہ نہیں سکتے۔طالبان سمیت سب افغان گروہ اسی مخمصے شکار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاک افغان تعلقات ان کے لیے بھی ایک طلسم کدہ ہیں۔ ہر دیوار آئینہ ہے اورہر آئینے میں انہیں مختلف چہرہ دکھائی دیتا ہے۔کبھی میجر جنرل نصیراللہ بابر‘کبھی جنرل پرویز مشرف۔کبھی کوئی اور۔
پاکستان کو آج افغانستان کے بارے میں ایک واضح پالیسی کے ساتھ دنیا سے رجوع کرنا چاہیے۔طالبان کو تخت پر بٹھانے میں امریکہ برا بر کا شریک ہے۔پاکستان کو امریکہ سمیت ساری دنیا سے یہی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر ے۔بہتر ہوتا کہ او آئی سی کے فورم سے یہ مطالبہ کیا جا تا۔طالبان کے پہلے دور میں امریکہ کی تائید سے پاکستان‘سعودی عرب اور عرب امارات نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔اب بھی پالیسی واضح ہونا چاہیے۔ شترگربگی عاشقی میں چل سکتی ہے نہ سفارت کاری میں۔ دوسرا یہ کہ مسلم ممالک افغانستان کے لیے ایک مارشل پلان بناتے‘اس میں اپنا حصہ ڈالتے اور پھر دنیا سے مطالبہ کرتے کہ وہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالے۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی ملک کے عوام سے براہ راست معاملہ ممکن نہیں ہوتا۔ایران کی حکومت امریکہ کو پسند نہیں لیکن ایران کے ساتھ تعلقات کی کوئی کھڑکی کھلے گی تواسی حکومت کی مدد سے۔اسی لیے ناپسندیدگی کے باوصف‘امریکہ نے اس کھڑکی کو بند نہیں کیا۔افغانستان کے ساتھ بھی ایک روزن کھلا تھا جس کے باعث قطر معاہدہ ہوا۔اگر اس وقت طالبان کے وجود کو تسلیم کیا گیا تھا تواب کیوں نہیں جب کہ وہ بالفعل حکومت قائم کر چکے؟امریکہ اگرطالبان کو سزادینا چاہتا ہے تو یہ بالواسطہ افغان عوام کوسزا دیناہے۔ طالبان کو سزا دینے کا وقت گزر چکا۔امریکہ کو صدام حسین کے عراق سے عبرت پکڑنی چاہیے جب اس نے حکومت اور عوام کو الگ کرنے کی کوشش کی اور اس میں ناکام ہوا۔
آج پاکستان کو پہلے خود یہ بات سمجھنا ہوگی کہ افغان عوام اور افغان حکومت کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔اس کے بعد دنیا کو بھی یہی باور کرانا ہو گا۔کابل کے فائیو سٹار ہوٹل میں چائے کے کپ کو ہاتھ میں لے کر جس عشق کااظہار کیا گیا‘اس کے بعد یہ مانناسادہ لوحی ہے کہ اس عشق کو دنیا سے چھپا لیا گیا ہے۔یہ عشق اب علانیہ اظہار چاہتا ہے۔اس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔