ہماری سیاست ‘کیا بدستور اُسی پامال راستے کی مسافر رہے گی جس کا ہر سنگِ میل ‘ہماری ناکامیوں کی یاد گارہے؟
ایاز صادق صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے مجلسی تبسم کو ان کا ترجمان سمجھنا چاہیے۔ شہباز شریف صاحب کا فرمان ہے کہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ تبسم کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ وہ خلعتِ فاخرہ‘ جو اِن کے سیاسی وجود سے اتاری گئی تھی‘ پھر پہنا دی جائے گی؟ آرائشِ جمال کی یہ خدمت وہی سر انجام دیں گے جنہوں نے کل انہیں شاہی پوشاک سے محروم کر کے‘ لباسِ فطرت میں سرِ بازار کھڑا کر دیا تھا؟ شہباز شریف صاحب پہلے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کیا کرتے تھے‘ آج ان کی نظر مخالفین کے گریبان پر ہے۔ کیا مان لیا جا ئے کہ اہلِ سیاست نے حالات سے کچھ نہیں سیکھا؟
ایک سعد رفیق صاحب کی آواز میں اُس سیاسی بالغ نظری کی جھلک ہے‘جس کی توقع تمام سیاسی قیادت سے کی جانی چاہیے۔شہباز شریف صاحب نے جنہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی‘ان کا خاندان ‘انہی کو خراجِ تحسین پیش کرتا اور بھٹو صاحب کے 'یومِ شہادت‘ پر مرثیہ پڑھتا دیکھا گیا۔گڑھی خدا بخش اور کراچی میں مریم نواز صاحبہ کی تقاریر ابھی عوام کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ شہباز شریف صاحب کے جملوں نے اس سیاسی مفاہمت کی سیاست کا جس طرح پیچھا کیا‘اس کے بعد یہ امکان پیدا ہو چلا تھا کہ اب اہلِ سیاست پہلے تولیں اور پھر بولیں گے۔سیاست میں کوئی مستقل حریف ہوتا ہے نہ حلیف۔ آپ کا کہا مگر عمر بھر آپ کا پیچھا کرتا ہے۔دکھائی یہ دیا کہ امید کی ایک کونپل پھوٹی تو شہباز صاحب سب بھول گئے۔
اہلِ سیاست کا اصل المیہ کیاہے؟ یہی کہ انہوں نے اہلِ سیاست کے بجائے اہلِ ریاست کو اپنا حلیف جانا۔سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے کے لیے ریاستی اداروں سے تعاون کے خواست گار ہوئے۔یہی وہ چور دروازہ تھا جہاں سے ڈیل‘سودا بازی اورساز باز جیسے جمہوریت کش رویے سیاسی کلچرمیں آ گھسے۔ایک سیاسی جماعت نے دوسری سیاسی جماعت کو برباد کرنے کے لیے غیر سیاسی قوتوں سے گٹھ جوڑ کیا۔یوں سیاسی جماعتوں کی بربادی کا آغاز ہوگیا۔غیر سیاسی مرکزِ اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا اور سیاسی جماعتیں نحیف سے نحیف تر۔
امورِ جہاں بانی میں غیر سیاسی مداخلت کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے: سیاسی قوتوں کے مابین ایک وسیع تراتفاقِ رائے۔ ایک عہد کہ سیاست کی جنگ میدانِ سیاست میں لڑی جائے گی۔غیر سیاسی اداروں اور افراد کو مدد کے لیے نہیں پکارا جا ئے گا۔فاتح تو کسی ایک کو ہونا ہے۔اس کا فیصلہ کوئی اور کیوں کرے ؟عوام اور اہلِ سیاست مل کر کیوں نہ کریں؟ اسی میں اہلِ سیاست اور اہلِ ریاست کے لیے عافیت ہے۔سب کا احترام بھی ہے اور ملک و قوم کی بہتری بھی۔
سعد رفیق صاحب نے درست کہا کہ 'میثاقِ جمہوریت‘ اس سمت میں ایک اہم پیش رفت تھی جس کا دائرہ مزید وسیع ہو نا چاہیے۔کیا اچھا ہو کہ اس میں تحریکِ انصاف بھی شامل ہو جا ئے۔جمعیت علمائے اسلام بھی۔جماعت اسلامی بھی۔اصولاً تو آئین کی موجودگی میں مزید کسی میثاق کی ضرورت نہیں مگرتجدیدِ عہد یا یاد دہانی کے لیے اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔سب مل کر وعدہ کریں کہ سیاسی قضیوں کے فیصلے سیاسی میدانوں میں ہوں گے۔
یہ ایازصادق صاحب کا مجلسی تبسم ہو یا آصف زرداری صاحب کی اسلام آباد یاترا‘عین اس وقت‘جب بے نظیر صاحبہ کی برسی تھی‘کچھ اور خبر دے رہے ہیں۔اس سے یہی معلوم ہو تا ہے کہ اہلِ سیاست کا چلن نہیں بدلا۔اب بھی وہ فیض کے حصول کے لیے کہیں اور دیکھ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 'وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ‘دکان اپنی بڑھا گئے۔‘سوال یہ ہے کہ جب دکان ہی نہیں تو یہ خریدار کہاں جا رہے ہیں؟ یہ مسکراہٹیں کیوں ہیں؟ معلوم ہوا کہ جب تک خریدار موجود ہوں‘دکانیں کھلی رہتی ہیں۔
میرا تجزیہ اب بھی یہی ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اگر پرانی صورت میں باقی رہتا ہے اوراس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی تواس میں شریف خاندان کے لیے کچھ نہیں ہے۔شہباز شریف صاحب کے لیے بھی نہیں۔اس نظام سے نجات کی واحد صورت ایک ہی ہے۔وہ جو جنرل ضیا الحق صاحب نے اختیار کی یا پرویز مشرف صاحب نے۔ دونوں نے پارلیمنٹ سے اپنی دورِ اقتدار کو آئینی تحفظ دلوایا۔اب اس طرح کی کوئی آئینی ضرورت تو نہیں مگرسیاسی ضرورت ضرور موجود ہے۔ سادہ لفظوں میں ایک این آر او جو گزشتہ سات سال کے سیاسی عمل کو احتساب سے ماورا کر دے۔شریف خاندان اس کے لیے آمادہ ہو جائے تو ایاز صادق صاحب کی مسکراہٹ بامعنی ہو سکتی ہے۔
تحریکِ انصاف کے پاس بھی ایک موقع ہے کہ وہ‘ایک ایساوقت آنے سے پہلے‘جب ایک پیج کی سیاست کسی تلخی پر تمام ہو‘ اوراس پیج کی دھجیاں‘طفلانِ سیاست کے ہاتھ لگ جائیں اور وہ گلی بازار میں اس کا عَلم بنا لیں‘کوئی بڑا سیاسی فیصلہ کر لے۔اگر عمران خان پارٹی میں سیاسی مزاج رکھنے والوں پر انحصار کریں اوران کی مشاورت سے ایک سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دیں تو وہ آئندہ انتخابات میں اپنے لیے امکانات کو وسیع کر لیں گے۔اگر وہ اپنی سیاست کو حکمت کے ساتھ اہلِ ریاست سے آزاد کرلیں اور تلخی کی نوبت نہ آنے دیں تو نئے انتخابات کے بعد کا سیاسی بندو بست انہیں ایک بار پھر قبول کر سکتا ہے۔اگرتلخی بڑھتی گئی جس کا امکان ہے تو وہ وقت بھی آ سکتاہے جب فریقین ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روا دار نہ رہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاصر اہلِ سیاست کے بارے میں اپنا دل کھلا کریں اور انہیں حقیقی حریف نہ جانیں۔
آثار یہی ہیں کہ سیاست ایک بار پھر کروٹ لینے کو ہے۔اہلِ سیاست چاہیں تو یہ کروٹ کسی خارجی مددکے بغیر بھی لی جا سکتی ہے۔اگر وہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے‘یہ طے کرلیں کہ سیاست کے فیصلے میدانِ سیاست ہی میں ہوں گے توملک کسی بڑے بحران سے بچ سکتاہے۔ بصورتِ دیگر موجودہ پارلیمانی نظام کا مستقبل خطرے میں ہے۔اہلِ سیاست کے مابین کسی نوعیت کا تصادم ہوا تو اس سے یہ مقدمہ مضبوط ہوگا یا اس سے یہ نتیجہ برآمد کیا جا ئے گا کہ پارلیمانی نظام ہمارے لیے سازگار نہیں ہے۔ہمیں صدارتی نظام کی طرف بڑھنا چاہیے۔ناکامی کی یہ مہر‘ظاہر ہے کہ تحریکِ انصاف سمیت سب جماعتوں کی پیٹھ پر لگا دی جا ئے گی۔
اہلِ سیاست اگر کسی فارمولے پر اتفاق کر لیں گے توفاتح جو بھی ہو گا‘ اہلِ سیاست میں سے ہو گا۔فتح و شکست ‘دونوں اگر اہلِ سیاست کا مقدر بنتے ہیں تو یہ ملک و قوم کے لیے نیک شگون ہوگا۔ اس کامطلب ہو گاکہ سیاست اپنے فطری ڈگر پر لوٹ آئی ہے۔اس میں ریاستی اداروں کے لیے بھی سکون اور اطمینان کا بہت سامان ہوگا۔سیاسی عمل میں ان کی شمولیت سے ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جس کو محفوظ بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔اداروں کی بھی اور سیاست دانوں کی بھی۔
اگر یہ نہیں توپھر وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔اہلِ سیاست اگر ایک دوسرے کو گلیوں میں گھسیٹنے اور گریبان چاک کرنے کی باتیں کریں گے۔ مجلسی تبسم سے اگر وہ یہ تاثر دیں گے کہ 'بات ہوگئی ہے‘ تو پھرسیاست انہی پامال راستوں کی مسافر رہے گی۔وہی راستہ جس کا ہر سنگِ میل ایک نئی ناکامی کی یادگار ہے۔