کالم کا عنوان پڑھ کر ممکن ہے آپ میری ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی شک و شبہے میں مبتلا ہو گئے ہوں۔ میری درخواست ہوگی کہ میرے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے‘ پورا کالم پڑھ لیجیے۔
اگر کوئی مجھ سے سو ایسے افراد کی فہرست مرتب کرنے کے لیے کہے جن کی دیانت اور علم و فضل پر میں پورے اعتماد کا اظہار کر سکتا ہوں تو اُن میں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا نام یقیناً شامل ہو گا۔ سماجی علوم کے ماہر اورگیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کے بانی۔ یہ ادارہ گیلپ انٹرنیشنل سے وابستہ ہے اور پاکستان کے حوالے سے جو گیلپ سروے رپورٹس آتی ہیں‘ وہ یہی ادارہ جاری کرتا ہے۔ 2021ء کی گیلپ رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں 65 فیصد افراد اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہیں۔
28 دسمبر کو گیلپ نے ایک اور سروے جاری کیا تھا جو بتاتا ہے کہ 43 فیصد پاکستانی 2022ء کے بارے میں پُر امید ہیں۔ جس ملک میں 65 فیصد لوگ خوش ہوں‘ 43 فیصد آنے والے دنوں کے بارے میں پُر امید ہوں‘ کیا وہاں کے مکینوں کو مبارک باد نہیں دینی چاہیے؟ یہ اعداد و شمار مجھ جیسے عامی کی اختراع نہیں‘ ایک ایسے ادارے کے فراہم کردہ ہیں جس سے ڈاکٹر اعجاز گیلانی جیسا معتبر اور قابلِ بھروسا نام وابستہ ہے۔
میری بدقسمتی دیکھیے کہ میں ایک ایسے علاقے میں رہتا ہوں یا اُن لوگوں سے ملتا ہوں جن میں کوئی ایک ایسا نہیں جو اس 65 فیصد یا 43 فیصد آبادی سے تعلق رکھتا ہو۔ میں جس سے ملتا ہوں‘ منہ لٹکائے ہوئے ہے اور اندیشوں میں گھراہوا۔ ہر وقت مہنگائی کا رونا رونے والا۔ بات بات پر طیش میں آ جانے والا۔ مستقبل سے مایوس اور خوشی سے دور۔ شاید یہ اُن کی صحبت کا اثر ہے کہ مجھے بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔
میں دو دن سے اس سوچ میں ہوں کہ اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے؟ پھر مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملا جائے۔ فوری فائدہ تو ہوگا ہی کہ اُن جیسے خوشگوار اور صاحبِ علم کی صحبت اپنی جگہ مایوسی کا علاج ہے۔ جتنی دیر اُن کے پاس رہوں گا‘ اس مہنگائی کے خیال اور مایوسی سے تو جان چھوٹے گی۔ ایک اور فائدہ بھی متوقع ہے جو دوررس اوردیرپا ہے۔ میں ڈاکٹرصاحب سے اُن بستیوں کا اتاپتا پوچھوں گاجہاں یہ 65 فیصد لوگ بستے ہیں۔ وہاں کرائے کا کوئی مکان ڈھونڈوں گا اور اس میں جا رہوں گا۔ میرا کیا ہے‘ پہلے ہی کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔ یہ نہ سہی‘ وہ سہی۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ جب چاروں طرف ہنستے کھیلتے‘ خوشیاں مناتے لوگ دکھائی دیں گے تو میں بھی خوش ہو جاؤں گا۔ ساتھ ہی اس ماحول سے جان چھوٹے گی جہاں مایوسی اور مہنگائی کے اثرات کے سوا کچھ نہیں۔ پژمردہ‘ نحیف اور مرجھائے ہوئے چہرے دیکھ دیکھ کر مایوسی کے سوا کیا مل سکتا ہے؟ مزید ان کا ناشکرا پن: 'پاکستان نے ہم کو کیا دیا؟‘ کوئی اُن سے پوچھے: 'پہلے تم بتاؤ‘ تم نے پاکستان کو کیا دیا‘؟
مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے تعاون سے ہم اس تعداد کو سو فیصد تک لے جا سکتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان خوش اور پُرامید پاکستانیوں پر دستاویزی فلمیں بنائی جائیں اور انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ان علاقوں میں پھیلا دیا جائے جہاں مجھ جیسے مایوس لوگ بستے ہیں۔ ممکن ہے اس سے ایک سماجی انقلاب برپا ہو‘ لوگوں کے خیالات بدلیں اور ان میں کچھ شعور پیدا ہو۔
ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے۔ ان 65 فیصد لوگوں سے پوچھا جائے کہ ان کے نزدیک خوشی کا مفہوم کیا ہے؟ ایک آدمی جس کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو‘ رہنے کو چھت نہ ہو‘ سردی گرمی سے بچنے کاکوئی بندوبست نہ ہو‘ وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے بغیر خوش رہنا ایک روحانی عمل ہے۔ کیا یہ 65 فیصد لوگ راہِ سلوک کے مسافر ہیں؟ کوئی وظیفہ کرتے ہیں؟ کوئی چلہ وغیرہ؟
صوفیوں کے احوال میں یہ پڑھا ہے کہ وہ کئی کئی دن بغیر کھائے پیے‘ نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ خوش بھی۔ یہ میرے مشاہدے یا روحانیت کی کمی ہے کہ میں اپنی گناہ گار آنکھوں سے اُن احوال کا کوئی مظہر نہیں دیکھ سکا جو تذکروں میں پڑھے۔ یہ تو بھلا ہو گیلپ سروے کا جس نے بتایا کہ اس دور میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کچھ نہ ہونے کے باوجود خوش رہتے ہیں۔ نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ اکثریت میں ہیں‘ 65 فیصد۔
ڈاکٹر صاحب کی معرفت اگر ایسے لوگوں تک میری رسائی ہو گئی تو میں ان سے جانوں گا کہ وہ کس آستانے سے وابستہ ہیں؟ بے سروسامانی میں خوش رہنے کا گُر انہوں نے کہاں سے سیکھا؟ اس کو کیسے عام کیا جا سکتا ہے؟ ہماری حکومتیں لوگوں کو خوش رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کر تی ہیں مگر پھر بھی ناکام رہتی ہیں۔ ان لوگوں کی خوشی کا ماخذ کیا ہے؟ اگر یہ کوئی فارمولا ہے تو اسے برآمد کر کے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے کہ دنیا کو خوشی کی تلاش میں ہے اور در بدر بھٹک رہی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی سماجی علوم کے استاد ہیں‘ بطورِ خاص سیاسیات کے۔ ان سے مل کر میں یہ بھی سمجھوں گا کہ اس سروے کے بعد‘ کیا یہ علوم تفہیمِ نو کے متقاضی نہیں؟ پاکستان جیسے ملک میں ‘جو شنید ہے کہ مدتوں کرپٹ سیاست دانوں کی چرا گاہ بنا رہا‘ وہاں اگر 65 فیصد لوگ خوش اور پُر امید ہیں تو سماج کی خوشی کا نیا پیمانہ وضع کرنا ہو گا۔ ایسا انڈکس جس کا بنیادی ضروریاتِ زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو۔
سماجی علوم میں اب تک معاشروں کی ترقی کے جو پیمانے مستعمل رہے ہیں‘وہ زیادہ تر مادی ہیں۔اب ایک ا یسا نسخہ دریافت ہو گیا ہے جو بتاتا ہے کہ خوش رہنے کی ماورائے اسباب صورتیں بھی پائی جاتی ہیں۔میں اس نقطہ نظر سے واقف ہوں کہ خوشی مادی اسباب سے وابستہ نہیں ہے۔ایسا ہوتا تو تمام ترقی یافتہ ممالک میں خوش رہنے والوں کی شرح 90 فیصد تک ہوتی۔یہاں سوال اسباب کی ریل پیل کا نہیں‘ بنیادی ضروریاتِ زندگی کا ہے۔ کیا اُن کے بغیر بھی خوش رہاجا سکتا ہے؟سر وے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اس سوال کا جواب دریافت کر لیا ہے جو اثبات میں ہے۔
یہ عقدے تو ملاقات پرکھلیں گے مگرخبر چونکہ پکی اور مصدقہ ہے‘اس لیے اس سے انکار محال ہے۔ادارے سے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا نام وابستہ ہے اور طریقہ کار سائنسی ہے جس پر ساری دنیا میں اعتبار کیا جا تا ہے۔مجھ جیسے عامی کے پاس ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔بس اب ایک چھوٹا سا کام باقی ہے اور وہ ان بستیوں کا کھوج لگانا ہے جہاں ان خوش بختوں کا بسیرا ہے۔ 22‘ 23 کروڑ کے 65 فیصد کا مطلب ہے 14 کروڑ 95 لاکھ افراد۔اب ظاہر ہے یہ ایک بستی میں سمانے سے تو رہے۔اتنی بڑی تعداد کو ڈھونڈنا کون سا مشکل کام ہے۔امید ہے جلد ہی ہو جائے گا۔جیسے ہی یہ کام مکمل ہوا‘ان بستیوں کے ناموں کاا علان اس کالم میں کر دیا جائے گا۔
آپ نے پوراکالم پڑھ لیا۔اب آپ میری ذہنی کیفیت کے بارے میں بہ آسانی رائے قائم کر سکتے۔برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ایک سروے کچھ عرصہ پہلے بھی ہوا تھا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان میں ذہنی مریضوں کی تعداد کتنی ہے ؟اس سوال کا جواب بھی 65 فیصد تھا۔