پیپلزپارٹی پھیلتی اور نون لیگ سکڑتی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی سندھ کی سرحدوں سے نکلی ہے اور اب پنجاب میں عظمت ِ رفتہ کا سراغ‘ اس کا ہدف ہے۔ دوسری طرف نون لیگ پنجاب کی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا قومی سطح پر متحرک ہونا ایک اچھی خبر ہے۔نون لیگ کا اپنے ہی وجود میں سمٹنا کوئی اچھی خبر نہیں۔ ریاست کی وحدت کے لیے ایسی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ملک کے تمام حصوں میں نمائندگی رکھتی ہوں۔
ہر پارٹی کی قوت کا ایک مرکز ہو تا ہے۔ اگر وہ مرکز تک محدود رہے تو قوم کی نمائندہ نہیں بن سکتی۔کراچی کسی دور میں ایم کیو ایم کا مرکز تھا۔ نام تبدیل کرنے کے باوجود‘ وہ قومی جماعت نہ بن سکی۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ کراچی یا حیدر آباد سے باہر اسے پذیرائی نہ مل سکی۔پیپلزپارٹی کی قوت کا مرکز دیہی سندھ ہے۔تاریخ مگر یہ ہے کہ اس کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی اور پنجاب نے اسے قومی جماعت کی پہچان دی۔یہ پہچان ملکی وحدت کے کام آئی‘ جب مرکز سے ذوالفقار علی بھٹو کی موت کا پروانہ جاری ہوا اور بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کا مقتل نگل گیا۔
زرداری صاحب نے مگر پیپلزپارٹی کو سندھ کی جماعت بنا دیا۔2013ء اور 2018ء کے انتخابات نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ وہ اب سندھ کی جماعت ہے۔ پنجاب کی پیپلزپارٹی‘ تحریکِ انصاف بن گئی۔جو باقی رہ گئے انہوں نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔ زرداری صاحب ہی نے اب یہ چادر اتار نے کا فیصلہ کیا ہے۔پیپلزپارٹی کے پی اور پنجاب میں متحرک ہوئی ہے۔بلاو ل بھٹو نے پشاور میں ایک متاثر کن جلسہ کیا۔اب انہوں نے پنجاب میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس راکھ میں چنگاری باقی ہے۔زرداری صاحب اب اسے شعلہ بنا دینا چاہتے ہیں۔
نون لیگ پنجاب کے ساتھ کے پی میں بھی مقبول رہی ہے۔ہزارہ کا علاقہ تو اس کا گڑھ تھا۔پشاورا ور مردان میں بھی اس کا وجود محسوس کیا جاتا تھا۔ نوا زشریف صاحب کے بیانیے نے بلوچستان اور سندھ میں بھی نون لیگ کے لیے مقبولیت کے دروازے کھولے، لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ جماعت اس مقبولیت کو اپنی جماعت کی سیاسی قوت نہ بنا سکی اور آہستہ آہستہ پنجاب تک محدود ہوتی چلی گئی۔
ہزارہ میں آج اس کا کوئی تنظیمی کام نہیں ہے۔ نون لیگ کے رہنما ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے ہیں۔مہتاب عباسی غیر متحرک ہیں۔ صابر شاہ کا معاملہ یہ ہے کہ 'حرکت تیز ترہے اور سفر آہستہ آہستہ‘۔لے دے کر ایک امیر مقام ہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔کراچی میں بھی نون لیگ کو ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔2018ء میں شہباز شریف صاحب چند سو ووٹوں سے ہارے۔ حال ہی میں مفتاح اسماعیل نے بھی بہت اچھے ووٹ لیے۔کے پی اور سندھ میں لیکن نون لیگ بحیثیت جماعت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
نواز شریف صاحب کی غیر موجودگی میں شہباز شریف نون لیگ کو ایک قومی جماعت نہ بنا سکے۔انہوں نے اُس میراث کو بھی کھو دیا جو بڑے بھائی سے انہیں ملی تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ماتحت میسر ہوں جو ہر حکم کو بجا لائیں تو وہ ایک اچھے منتظم ہو سکتے ہیں۔رہی ایک پارٹی کی تنظیم تو یہ ان کے بس کا کام نہیں۔انہوں نے ایک ابھرتی ہوئی قومی جماعت کو تین سال میں ایک صوبے کی پارٹی بنا دیا۔
نواز شریف صاحب کا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ وہ خاندان کے محدود دائرے سے باہرکبھی نہ دیکھ سکے۔انہوں نے نون لیگ کو مسلم لیگ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے خاندان میں مریم نواز موجود تھیں جنہیں ان کی عصبیت منتقل ہو گئی۔اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کی پارٹی وفات پا چکی ہوتی۔حالات لیکن ایسے ہوئے کہ مریم نواز سیاست میں اُس طرح متحرک نہیں ہیں جس طرح انہیں ہونا چاہیے۔اس کے اسباب میں نہیں جانتا۔ جب یہ نہیں ہوسکا تو نواز شریف صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی کی قیادت کسی ایسی شخصیت کو سونپتے جو بیانیے کی سیاست کرتی اور نون لیگ کو مزاحمتی سیاست کی علامت بنائے رکھتی۔انہوں نے مگر مریم کا متبادل تلاش کیا تو شہباز شریف صاحب کو۔بڑے عزم کو اتنی محدود سوچ کے ساتھ نبھانا مشکل ہو تا ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ اگر نون لیگ نے مفاہمت کی سیاست کرنی ہے تو پھر پارٹی قیادت کے لیے شہباز شریف ہی موزوں تھے۔اور اگر مزاحمت کر نی ہے تووہ اتنے ہی غیر موزوں۔شہباز شریف صاحب اگر یہ چاہتے تھے کہ انہیں مفاہمت کی سیاست کا موقع دیا جائے تا کہ ان کے لیے راستہ نکلے تو اس کا طریقہ یہ تھی کہ وہ نواز شریف صاحب کا متبادل بن کر سامنے آتے۔پارٹی کو چاروں صوبوں میں منظم کرتے اورا سے ایک قومی جماعت بناتے۔ یوں ان کے سیاسی موقف کو خود پارٹی کے اندر تائید میسر آتی۔
شہباز شریف صاحب ایسا کچھ نہیں کر سکے۔میرے علم میں نہیں کہ انہوں نے گزشتہ تین سال میں کے پی‘سندھ یا بلوچستان کاکوئی تنظیمی دورہ کیا ہو۔ انہیں اس بات کااندازہ ہو نا چاہیے تھا کہ مفاہمت بھی لوگ انہی سے کرتے ہیں جن کے پاس عوامی سیاسی قوت ہوتی ہے۔آج نہ مفاہمت ان کے کام آ رہی ہے اور نہ وہ اپنی تنظیمی قوت ہی میں اضافہ کر سکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نون لیگ اب عملاًپنجاب کی جماعت بن چکی ہے۔رہی مفاہمت تو اس کا انجام وہی ہے جو شیخ رشید بتا رہے ہیں۔میں برسوں سے لکھ رہا ہوں کہ اس نظام میں شریف خاندان کے لیے کوئی جگہ نہیں الّا یہ کہ وہ عوامی قوت سے خود کو منوا لیں۔
نون لیگ کا صوبائی جماعت بن کے رہ جانا‘ایک قومی المیہ ہو گا۔پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو ملک کے چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھتی ہوں۔تحریکِ انصاف اس وقت ملک بھر میں موجود ہے۔ اگر اقتدار کے بغیر بھی وہ اپنی یہ حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو وہ قومی یک جہتی کے لیے اہم رہے گی۔سیاسی جماعتیں صرف اقتدار میں رہ کر نہیں‘اس کے بغیر بھی قومی سلامتی میں اپنا کردار اداکر تی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پیپلزپارٹی نے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں مضبوط ہوگی تو یہ سندھ اور پنجاب کو قریب لائے گی۔اگر نون لیگ بلوچستان کی آواز بنے گی تو بلوچستان اور پنجاب قریب آئیں گے۔ میں یہ بات تکرار کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ کوئی تصور اور کوئی ریاستی ادارہ ملک کو متحد نہیں رکھ سکتا۔اس پر تاریخ کی گواہی ثبت ہے۔ صرف سیاسی جماعتیں ہی پاکستان کومتحد رکھ سکتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کوبھی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ ان کا تنظیمی وجود جمہوری روایات کا مظہرہو۔قیادت کو خاندان تک محدود نہ رکھا جائے۔پارٹی میں فکری اور سیاسی بلوغت ہو۔ان لوگوں کو قیادت سونپی جائے جو اعلیٰ سیاسی روایات کے نمائندہ ہوں۔ جو اپنی بات سلیقے اور دلیل کے ساتھ کہہ سکیں۔
سیاسی جماعتوں کو ان سب باتوں کی ضرورت ہے اورملک کو قومی سیاسی جماعتوں کی۔ اسی لیے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا خیرمقدم ہوناچاہیے اور نون لیگ کو بھی پنجاب سے نکلنا چاہیے۔