معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے‘جتنا خیال کیا جا رہا ہے۔
اختلاف اس میں نہیں ہے کہ نعرہ بلند کرتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتی گئی۔'میراجسم‘میری مرضی‘در حقیقت ایک مکمل فلسفۂ حیات کی ترجمانی ہے۔اسے 'لبر ل ازم‘ کہتے ہیں۔اعتراض نعرے کے الفاظ پر نہیں‘اس تصورِ زندگی پر ہے جسے اس نعرے میں بیان کیا گیا ہے۔اہلِ مذہب کا اعتراض عورت کے حقوق پر نہیں‘اس تصورِ حیات پر ہے۔
'میرا جسم‘میری مرضی‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک آزاد عورت ہوں۔ میرے جسم پر صرف میری مرضی چلے گی۔کوئی مذہبی حکم‘کوئی تہذیبی قدر یاریاست کا کوئی قانون اس پر حاکم نہیں ہے۔مجھے کون سا لباس پہننا ہے اورکون سا نہیں‘مجھے کس سے ملنا ہے اور کس سے نہیں‘کس سے جنسی تعلق قائم کرنا ہے اور کس سے نہیں‘یہ سب فیصلے مجھے خود کرنا ہیں۔کسی مذہب‘تہذیب یا ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ ان معاملات میں مداخلت کرے۔سماج یا ریاست مجھے کسی ایسی بات کا پابند بنا سکتے ہیں‘جس سے سماج یا ریاست کے مفاد کو کوئی خطرہ ہو۔یہ بات کہ میرے کس رویے سے سماج یا ریاست کو خطرہ ہو سکتاہے‘اس کا تعین بھی میں خود کروں گی۔
اس کے برخلاف ایک دوسرا تصورِ زندگی ہے جو مذہب پیش کرتا ہے۔وہ یہ کہتا ہے کہ مرد ہو یا عورت‘ دونوں آزاد نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے بندے ہیں‘'مسلم‘ کے معانی ہی مطیع اور فرماں بردار کے ہیں۔فرد جب بندگی کو قبول کر لیتا ہے تو پھر اس کے جسم پر اس کی نہیں‘اس کے پروردگار کی مرضی چلے گی۔وہ‘وہی پہنے گا جس کی اجازت اس کا رب دے گا۔وہی کھائے گا‘جس کاحکم آسمان سے اترے گا۔جنسی تعلق اسی کے ساتھ قائم کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ نے ایسا تعلق رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ 'میرا جسم‘میری مرضی‘ کا نعرہ‘ مقامی نہیں ہے۔فلسفہ ہائے حیات عام طور پر عالمگیر ہوتے ہیں۔ لبرل ازم بھی ایک عالمگیر تصور ہے۔یہ نعرہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے اور اس کامفہوم میں نے بیان کر دیا ہے۔جو لوگ عورت مارچ اور اس کے نعروں پر معترض ہیں‘ا ن کا خیال ہے کہ یہ نعرے‘عورت کے حقوق کے لیے نہیں بلند ہو رہے‘بلکہ ا ن کا مقصود ایک لبرل اور آزاد معاشرے کا قیام ہے۔یہ لوگ دراصل ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں شہری‘ مذہب‘ تہذیب اور ریاست کی اُن پابندیوں سے آزاد ہو جائیں جو شخصی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔کوئی اگر ان پابندیوں کو قبول کرنا چاہے تو اپنی مرضی سے کرے نہ کہ کسی خارجی دباؤسے۔
کیایہ پاکستان کے لبرلز کی درست ترجمانی ہے؟کیا وہ پاکستان میں ایک ایسے معاشرے کا قیام چاہتے ہیں جس میں شخصی احوال پر کسی مذہب‘تہذیب یا ریاست کی حکومت نہ ہو؟ یا اس کے برخلاف‘وہ عورتوں کے حقوق کی بات کررہے ہیں۔وہ حقوق ان کو ملنے چاہئیں جوایک مردکوحاصل ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی مرد ہی کی طرح تکریم اور آزادی کی مستحق ہیں۔مجھ پرپوری طرح واضح نہیں کہ عورت مارچ کے منتظمین‘ دونوں میں سے کس بات کے قائل ہیں؟
وہ مطلق آزادی‘جس کی بات لبرل ازم کرتا ہے‘مذہب‘عورت تو کیا مرد کو بھی نہیں دیتا۔ اسلام میں مرد کو بھی اپنے جسم پر پورا اختیار حاصل نہیں۔اس کے جنسی رویوں پر مذہب وہی پابندیاں عائدکرتا ہیں جو عورت پر کرتاہے۔اگر کوئی یہاں تعددِ ِازدواج کی مثال دینا چاہتا ہے تو وہ خلطِ مبحث کا ارتکاب کرے گا۔اس کی اجازت اسے مذہب نے خاص سماجی حالات میں دے رکھی ہے۔مرداس وجہ سے ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کرتا کہ وہ اپنے جسم کا خود مالک ہے۔یہ مرد ہو یا عورت‘اسلام کی نظر میں دونوں اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ان کے جسم پر ان کے رب کا حکم چلتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کے لبرلز کو اس باب میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہیے۔'میرا جسم‘میری مرضی‘ سے ا ن کی مراد کیا ہے؟ مطلق آزادی یا عورت کے لیے وہ آزادی جو مرد کو میسر ہے؟اگر پہلی بات ہے تو میں عرض کر چکا کہ یہ صرف عورت کا مسئلہ نہیں‘ مذہب یہ آزادی مرد کو بھی نہیں دیتا۔اگر دوسری بات ہے توظاہر ہے کہ کوئی معقول آدمی اس سے اختلاف نہیں کرے گا۔اس وقت سارا مسئلہ‘ میرا خیال ہے‘ابہام سے پیدا ہو رہا ہے۔
ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ بعض لوگ فی الواقع لبرل ازم کے قائل ہیں۔وہ فرد کی مطلق آزادی چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا مذہب یاریاست انہیں بالجبر کسی خاص سماجی رویے کا پابند بنا سکتے ہیں؟کیا انہیں زبردستی کوئی خاص لباس پہنا یا جا سکتا ہے؟ کسی خاص تہذیب کی پیروی پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ میرے نزدیک ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔
اسلام‘اس میں کیا شبہ ہے کہ پروردگار کے سامنے سرافگندگی کا نام ہے۔یہ مگر جبر کا معاملہ نہیں۔کوئی چاہے تو اس کی موجودگی ہی کا انکار کر دے۔یہ اختیار خود عالم کے پروردگار نے اسے دے رکھا ہے۔اس کے لیے وہ اس دنیا میں کوئی بازپرس نہیں کرتا۔ ہاں!آخرت میں کرے گا اور اُس وقت پرکھے گا کہ انکار کا عذر کیا تھا۔جو پروردگار‘ انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ چاہے تو اس کو مانے اور چاہے تو انکار کر دے‘وہ انسان پر لباس اور رویوں کے بارے میں‘ کوئی پابندی کیسے لگا سکتا ہے؟اور اگر وہ نہیں لگاتا تو اس کے نام پر ایک انسان دوسرے انسان پر ایسی پابندی کیوں کر لگا سکتا ہے؟
جو اختیار ہمیں حاصل ہے‘وہ وعظ و نصیحت کا ہے۔اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ہم لوگوں کو خدا کی بندگی کی دعوت دے سکتے ہیں۔اس سے زیادہ کا کوئی اختیار ہمیں حاصل نہیں۔دنیا میں انسان کے سامنے دونوں راستے کھلے رہیں گے۔ایک طرف حجاب مارچ ہوگا اور دوسری طرف عورت۔کسی ایک پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی؛ تاہم اس باب میں عورت مارچ کے منتظمین کو واضح کر نا چاہیے کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہے ہیں یا مطلق آزادی کی؟ پھر یہ کہ حقوق کا کون سا تصور ہماری تہذیبی و مذہبی اقدار سے اٹھا یالبرل ازم کا بیان کردہ؟
عورت مارچ کا معاملہ‘ہمارے ہاں تصوف کی طرح ہے۔ہر کوئی اس کی ایک تعریف کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ تصوف کی تعریف کا حق امام غزالیؒ‘شہاب الدین سہروردیؒ اور سید علی ہجویریؒ کو ہے یاہر ہما شما کو؟ عورت مارچ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالوں کا وہی جواب معتبر ہوگا جو عورت مارچ کے محرک دیں گے۔یہ اسی لیے ضروری ہے کہ اختلاف کی نوعیت واضح ہو اور اسی دائرہ میں مکالمہ ہو سکے۔
معاشرہ متنوع آوازوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس تنوع کو برقررار رکھنے ہی سے سماج‘ الٰہی سکیم سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔یہ سکیم مظاہرِ فطرت سے واضح ہو رہی ہے جو رنگا رنگی سے عبارت ہے۔اللہ تعالیٰ انسان سے جو چاہتا ہے‘اس نے اپنے پیغمبروں کی معرفت واضح کر دیا۔اس نے قرآنِ مجید میں بتا دیا کہ تنوع اس کی سکیم ہے۔وہ کسی کو دنیا میں اتنی طاقت نہیں دیتا کہ دوسروں کے وجود ہی کوختم کر دے؛ تاہم ہر معاشرے کی اپنی تہذیبی اقدار ہوتی ہیں جن کا لحاظ لازم ہے۔اگر کوئی اس سے تجاوز کرتا ہے تو اسے شائستگی سے توجہ دلائی جا سکتی ہے۔اس سے زیادہ‘ کوئی حق کسی کو حاصل نہیں۔