جنگ کا فیصلہ ہمیشہ مقتل میں ہوتا ہے۔
مقتل وہ جگہ ہے جہاں انسان قتل ہوتے ہیں۔ وہ دور گیا جب جنگیں کسی رزم گاہ میں لڑی جاتی تھیں۔ دورِ جدید کی اکثر جنگیں شہروں اور دیہات میں لڑی گئیں۔ جنگِ عظیم سے جنگِ افغانستان تک، تمام جنگیں انسانی بستیوں میں برپا ہوئیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی سے لے کر بغداد اور کابل تک، یہ شہر اور گاؤں تھے جنہیں میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔ کیا اس سے نجات کی کوئی صورت ہے؟
'جنگ‘ سے نجات تو ممکن نہیں۔ غلبے کی خواہش سے انسان خود کو آزاد نہیں کرسکا۔ یہ خواہش، بھوک اور جنس کی طرح، اس کے وجود میں پرورش پاتی اور ان دو جبلتوں کی طرح اکثر حدود سے بے نیازکر دیتی ہے۔ مذہبی اور غیرمذہبی نظام ہائے اخلاق نے بہت کوشش کی کہ جنگ کو مہذب بنایا جا سکے۔ ان کی کامیابی مگر جزوی ہی رہی۔ ابنِ آدم نے خدا اور انسان ساختہ ضوابط کی پابندی سے بالفعل انکار کیا اور یوں زمین فساد سے بھرگئی۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔
کیا انسان کا مقدر یہی ہے؟ کیا وہ اسی طرح طاقتور کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہے گا؟ دکھائی تو یہی دیتا ہے۔ الہامی ہدایت کی روشنی میں دیکھیے تو یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جسمانی اور ذہنی قوتیں عطا کی گئی ہیں اوراسے ان کے استعمال کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اسے ساتھ ہی یہ بتا دیا گیاکہ ان قوتوں کے سوئے استعمال پہ، اسے اپنے پروردگار کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ یہ مگر اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی اور یومِ حساب آئے گا۔
اقوام کے باب میں البتہ الہامی ہدایت یہ کہتی ہے کہ اگر وہ ظلم و عدوان میں حدود سے تجاوز کریں گے تواسی دنیا میں ان کے بارے میں فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ ہرامت کیلئے ایک مہلتِ عمل ہے۔ جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو اس کے قدموں میں زنجیر ڈال دی جاتی ہے۔ خدا کی اس سنت کے مظاہر سے انسان کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اس سنت کا ظہور دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک اللہ کے عذاب کی صورت میں، جب کوئی قوم رسول کا انکار کردیتی ہے۔ جیسے عادوثمود کے ساتھ ہوا یا مشرکینِ مکہ کے ساتھ۔ عذاب کی یہ صورت اللہ کے آخری پیغمبرﷺ کی تشریف آوری کے بعد ختم ہوگئی۔ دوسرا یہ کہ کوئی قوم علم و اخلاق کے باب میں زوال کی آخری حد کو چھولیتی ہے تواسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ یہ سنت جاری رہے گی، یہاں تک کہ یہ سلسلۂ حیات تمام ہوجائے۔
الہامی ہدایت، دو صورتوں میں جنگ کو روا رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ جنگ دفاع کیلئے لڑی جائے جب ایک ملک یا قوم کو کسی جارح کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، الہامی قانون انسانوں کواس کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی قوم ظلم میں حد سے بڑھ جائے اور زمین کو فساد سے بھردے تووہ اسے طاقت سے روک دیں؛ تاہم یہ اسی صورت میں ہوگا جب انسانی بصیرت کی حد تک یہ جان لیا جائے گاکہ اقدام کے نتیجے میں ظلم کا استیصال ہوجائے گا اور اللہ کے بندوں کو ظلم سے نجات مل جائے گی۔ اسی کو جہاد کہا گیا ہے۔ جہاد ہمیشہ ظلم کے خاتمے کیلئے ہوتا ہے، ظلم کیلئے نہیں۔ اللہ کا قانون یہ بھی بتاتا ہے کہ جنگ ناگزیر ہوجائے تو کیسے اسے ان لوگوں تک محدود رکھنا ہے جو محارب ہیں اور غیر محارب یا عام شہریوں کواس کی ہولناکی سے بچانا ہے۔
یہ لائقِ تحسین ہے کہ جو لوگ الہامی ہدایت کو نہیں مانتے، انہوں نے بھی اس کی کوشش کی کہ انسانوں کو جنگ سے محفوظ رکھا جائے اوراگر کبھی جنگ ناگزیر ہوجائے توایسے اقدام کو اقوامِ عالم کی تائید حاصل ہو اور ساتھ ہی اسے ضوابط کا پابند بنایا جائے۔ جنگ کی صورت میں بھی محارب اور غیرمحارب کے فرق کو ملحوظ اوراسے انسانی بستیوں سے دور رکھا جائے۔ اسی طرح قیدیوں کے بھی حقوق ہیں جن کا لحاظ لازم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قوانین اور جنیوا کنونشنز میں اس کی تفصیلات موجود ہیں؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ممالک، بالخصوص بڑی قوتوں نے ان ضوابط کا کم ہی احترام کیا ہے۔
دو امور میں انسان کی تہذیبی پیشرفت قابلِ تحسین ہے‘ جنہیں ماضی میں انسانی لہو سے سینچا گیا۔ ایک انتقالِ اقتدار اور دوسرے جنگ۔ انتقالِ اقتدار کا فیصلہ ہمیشہ تلوار سے ہوا۔ جمہوریت نے اس خونریزی کا راستہ بند کردیا۔ اب یہ فیصلہ ووٹ سے ہوتا ہے۔ جنگ کے معاملے میں انسان نے کم ازکم قانون اور ضابطے کی حد تک کوشش کی ہے کہ اس عمل کو اخلاقیات کے تابع کیا جائے۔
مذہب کا تو پیغام ہی یہی ہے کہ انسان کا ہر انفرادی اور اجتماعی اقدام اخلاقیات کے دائرے میں اٹھے۔ اس نے انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو اولیت دی ہے اور جنگ میں بھی ممکن حد تک ان کی حرمت قائم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ غیرمذہبی روایت نے بھی اس باب میں انسان دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اقوام کو عملاً ان ضوابط کا پابند کیسے بنایا جائے؟
آج تک یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں اس کا پابند بنایا جا سکا ہے اورنہ روس کو یوکرین میں۔ صدام حسین کے عراق نے کویت پر حملہ کیا تواس کی تباہی کے مناظربھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ آج بھی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ دنیا کو جنگ اوراس کے ہولناک نتائج سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔
اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ زمین کو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ ان تحریکوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جو ایسے ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اس تحریک کو ہر مہذب آدمی کی تائید حاصل ہونی چاہیے کہ کسی ملک کے پاس اس طرح کے ہتھیار نہ ہوں اور عالمی سطح پر ان کے بنانے پر پابندی ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اثر ایک عالمی فوج ہونی چاہیے جس میں سب ملکوں کی نمائندگی ہو۔ تیسرا یہ کہ باہمی تنازعات کو اقوامِ متحدہ کے فورم سے حل کیا جائے اور اس میں کسی کے پاس ویٹو کا حق نہ ہو۔ جہاں فوجی اقدام ضروری ہو، وہاں یہ اقوامِ عالم کی تائید اور اقوامِ متحدہ کی فوج کے ذریعے ہو۔
یوکرین پر روس کے حملے سے ایک نتیجہ یہ برآمد کیا جارہا ہے کہ اگر یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو وہ اس ہزیمت سے بچ سکتا تھا۔ یہ ایک خطرناک نتیجہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ہر ملک، خود کوجارحیت سے محفوظ رکھنے کے لیے جدید سے جدید ہتھیار بنائے۔ گویا زمین کو ہتھیاروں سے بھردیا جائے۔ جارحیت سے بچنے کے لیے جارح سے ہتھیار چھیننے کی ضرورت ہے نہ کہ مزید ہتھیار پھیلانے کی۔
اس کا آغاز ظاہر ہے کہ امریکہ اور روس جیسے عالمی قوتیں ہی کر سکتی ہیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا لازم ہے کہ ہتھیاروں اور جنگ کے خلاف عالمگیر عوامی تحریک اٹھائی جائے تاکہ انسان کے مستقبل کو تباہی سے محفوظ رکھا جاسکے۔ یہ صرف انسان کی اخلاقی حس بیدار کرنے ہی سے ہوگا۔ اس کے ساتھ جمہوریت سے کیونکہ جمہوریت ہی حکومتوں کو رائے عامہ کا پابند بناتی ہے۔