ہیجان اب سیاسی کلچر بنتا جارہا ہے۔ تدبر، بصیرت، صبر، سیاسی مخالف کا احترام... یہ سب الفاظ قصۂ پارینہ ہوئے۔ کیا اب سیاسی جماعتوں کی جگہ ڈنڈا بردار گروہ، اہلِ سیاست کی نمائندگی کریں گے؟
سیاست روایتی طور پر معاملہ فہمی کا نام ہے۔ وہ مسائل جو لاینحل سمجھے جاتے ہیں، سیاست انہیں اچھی طرح سلجھانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اجتماعی مفاد اور گروہی و شخصی ترجیحات میں فرق کیا جاتاہے۔ شخصی اناکا قومی امور میں زیادہ کردار نہیں ہوتا۔ یہ بات کئی بار لکھی جا چکی۔ دہرائی ہوئی باتیں، مگرلازم ہے کہ تذکیر کیلئے دہرائی جاتی رہیں۔ یہ اُن کیلئے خاص طور پر لازم ہے جنہوں نے ہیجان کے ماحول میں سیاسی آنکھ کھولی اور جنہیں تاریخ کی کچھ خبر نہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس نے مسلم لیگ کی قیادت کواس جانب متوجہ کیا اور اس کے عوامی وعدے یاد دلائے تو جماعت کی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسی دوران میں اسمبلی میں قرارداد مقاصد زیرِ بحث آئی۔ حکمران جماعت کو اس کے لیے مولانا مودودی کی حمایت اور علمی تعاون کی ضرورت پڑی۔ مولانا نے خیال کیا کہ یہ قرارداد ان کے مقصدِ سیاست کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے توانہوں نے حکومت کو اپنا تعاون فراہم کیا۔ حکومت سے یہ نہیں کہا کہ پہلے انہیں رہا کیا جائے۔ ان کیلئے ذاتی رہائی سے زیادہ ان کا مقصد اہم تھا۔
1973ء کا آئین بنا تو سیاسی جماعتوں میں نظری بُعد تھا اور سیاسی بھی۔ اس وقت بھی کچھ لوگ جیل میں تھے اور بھٹو صاحب سے خوش نہیں تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے متفقہ آئین کی اہمیت کو سمجھا اور حکومت سے تعاون کیا۔ اس کے نتیجے میں قوم کو ایک ایسی دستاویز ملی جو آج بھی ملک کو متحد رکھنے کی واحد اساس ہے۔ اہلِ سیاست اتنے بالغ نظر تھے کہ انہوں نے سیاست، سیاست کی طرح کی اوراسے معاملہ فہمی کا ایک وسیلہ جانا۔ واقعات کی یہ فہرست طویل ہوسکتی ہے، نوواردانِ سیاست کوجس کی کچھ خبر نہیں۔
پھر ہماری سیاست نے ایک کروٹ لی اور اس میں ہیجان کو داخل کیا گیا۔ موجود نظام اور اہلِ سیاست سے نفرت پیدا کرتے ہوئے، ایک انقلاب کی نوید سنائی گئی۔ اس سوچ نے ایک ایسی نسل کو سیاست میں سرگرم کر دیا جو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی اور اس کے ابجد سے بھی واقف نہیں تھی۔ ابلاغ کے جدید طریقوں کے ماہرانہ اور کامیاب استعمال سے نئی نسل کے ذہن اور دل پر دستک دی گئی۔ اس نسل کو باور کرایا گیا کہ مہذب انسان کی تاریخ کا ابھی آغاز ہورہا ہے۔ اس سے پہلے کوئی سیاست تھی اورنہ کوئی رہنما۔ کچھ چور ڈاکو تھے جنہوں نے سیاست کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
ہیجان کا پہلا حملہ سوچنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اس سے فکری صلاحیت ایک خاص وقت کیلئے سلب ہوجاتی ہے۔ جب ایک آدمی ہیجان کی کیفیت میں ہوتا ہے توپھر وہ سوچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اسے بطور حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام پر مسلسل ایک ہیجانی کیفیت طاری رہے۔ یہ کیفیت بے انتہا محبت وانتہائی نفرت سے جنم لیتی ہے۔ محبت کیلئے لازم ہے کہ کسی فرد یامقصدکے ساتھ رومانوی تعلق قائم رہے۔ نفرت کیلئے بھی لازم ہے کسی فرد یا نظام کوبرائی کا پیکراور ماخذ ثابت کردیا جائے۔
کسی نظام کے ساتھ محبت اور نفرت کا فروغ انقلابی تحریکوں کی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ انیس سوساٹھ‘ ستر کے عشروں میں جب نوجوان 'ایشیا سرخ ہے‘ یا 'ایشیا سبز ہے‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے تو ان پر ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی جو مطلوب ہوتی تھی۔ یہ بات ہمیں قوم پرستوں میں بھی نظرآتی تھی جس کی جھلکیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
پاپولسٹ سیاست کے علم بردار انہی جذبات کو فرد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ابلاغ کے موجود ذرائع کے استعمال سے ایک شخصیت کا رومانوی پیکر تراشا جا تا ہے اور پھرلوگوں اس کے ساتھ ایک رومانوی تعلق قائم کرلیتے ہیں۔ انہی ذرائع کے استعمال سے اس تعلق اور کیفیت کو برقرار بھی رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وقت اپنا فیصلہ سنائے اور انسان کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم بے فیض ثابت ہوجائیں اور لوگ ان سے مایوس ہونے لگیں۔
یہ سیاست ہو یا کوئی اور میدان، کسی فرد یا گروہ کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ امکانات کو اپنی ذات کیلئے محدود کردے۔ جو امکان آپ کیلئے موجود ہے، آپ کا مخالف بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر آپ ایک نظریے کیلئے ہیجان پیدا کرتے ہیں تو دوسرا گروہ کسی دوسرے نظریے کے نام پر یہی کام کر سکتا ہے۔ آج یہی ہورہا ہے۔ وہ ہیجان جو چند سال پہلے ایک فرد تک محدود تھا، اب پھیل چکا ہے۔ اب اسے قابو میں رکھنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
انقلابی گروہوں کیلئے قانون اور نظام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ان کیلئے قانون توڑنا عزیمت کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کی نگاہ میں قانون شکن ہیرو ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی کی اکثر انقلابی تحریکوں نے مسلح دستے تشکیل دیے اوران لوگوں کے خلاف استعمال کئے جنہیں وہ 'سٹیٹس کو‘ کا نمائندہ سمجھتے تھے۔ اس سے سیاست میں تشدد درآیا۔ ایک دور میں یہ کام طالب علموں کے جھتے بناکر کیا جاتاتھا۔ پھرانقلابی سیاسی جماعتوں نے پارٹی کی نظم میں ایسے گروہ بنانا شروع کر دیے۔
دورِ جدید میں اس کو جماعت اسلامی نے ایک باضابطہ شکل دی جب پاسبان کی بنیاد رکھی گئی۔ اس عنوان سے نوجوانوں کا گروہ منظم کیا گیا جو ہجوم کے دباؤ سے تھانوں وغیرہ پر اثر انداز ہوتا۔ 'پاسبان‘ نے بغاوت کی تو 'شبابِ ملی‘ کے نام سے نئی تنظیم کھڑی کر دی گئی۔ تحریکِ انصاف نے ٹائگر فورس بنائی اور اب جمعیت علمائے اسلام کی انصارالاسلام کا چرچا ہے۔ یہ تنظیم ڈنڈوں کے ساتھ اپنے اراکینِ پارلیمان کی حفاظت پر مامور کی گئی تھی۔ میں سیاست میں ایسے ڈنڈا بردار گروہ کاکوئی جواز تلاش نہیں کر سکا۔
یہ ہیجان اب سیاست کا چلن بنتا جارہا ہے۔ نون لیگ یا پیپلزپارٹی نے ابھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ شاید ان کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کی موجودگی میں ان کیلئے یہ خدمت انصارالاسلام ہی سر انجام دے گی۔ اگر یہ اتحاد نہ ہوتا تو کچھ بعید نہیں تھاکہ یہ جماعتیں بھی ایسے ہی گروہ بناتیں۔ ہیجانی سیاست میں ایسے گروہوں کا کردار اہم جاتا ہے۔ اس سے سیاست تشددآلود ہو جاتی ہے۔
مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہیجان مزید بڑھے گا۔ تشدد میں اضافہ ہوگا۔ بصیرت اور معاملہ فہمی کیلئے گنجائش کم ہوجائے گی۔ لیڈر اپنے کارکنوں کو ابھاریں گے۔ ان کے جذباتِ نفرت و محبت کو انگیخت کریں گے۔ سیاستدان اپنے مخالفین کو جن القاب اور لب ولہجے کے ساتھ مخاطب کررہے ہیں، اس کے اثرات ان کے متاثرین پر مرتب ہورہے ہیں اوران کا ظہور ان کے سیاسی رویوں میں ہوگا۔
یہ تبدیلی ملک کیلئے نیک شگون نہیں۔ اس سے عدم استحکام پیدا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس سے غربت و افلاس میں اضافہ ہوگا اور یہ اضافہ اسے ایک سماجی بحران میں بدل دے گا۔ میراخیال ہے کہ اب معاملات ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ جب کسی ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ حکومت اور اپوزیشن ہیجان کے حوالے سے ایک پیج پر ہوں تو پھروقت کی باگ کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتی۔ اس عالم میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔