"KNC" (space) message & send to 7575

مولاناطارق جمیل کہاں ہیں؟

وہ اِنذار کرنے والے مولانا طارق جمیل کہاں ہیں؟
اخلاق سیاست سے رخصت ہو رہا ہے۔ نام رکھے جا رہے ہیں اور القاب کے ساتھ ایک دوسرے کو پکارا جا رہا ہے‘ مگر کوئی نہیں جو اہلِ سیاست کو خبردار کرے۔ حکمرانوں کی خیر خواہی میں آنسو بہانے اور دستِ دعا دراز کرنے والے ہمارے مولانا کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ وہ کیوں نہیں بتاتے کہ ریاستِ مدینہ کے حکمران اور سیاسی راہ نما کیسے تھے؟ ان کی زبان کیسی تھی؟ عیش اور طیش میں‘ ان کا رویہ کیا ہوتا تھا؟ جب تذکیر کا وقت آتا ہے تو ہمارے 'نذیر‘ کہاں چلے جاتے ہیں؟ ردۃ ولا ابا بکر لھا... ارتداد ہے مگر ابوبکرؓ کوئی نہیں۔
مولانا طارق جمیل دعوت کے آدمی ہیں۔ وہی دعوت‘ جسے قرآنِ مجید 'تذکیر‘ کہتا ہے اور جوکتاب اللہ کی نظر میں علما کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید نے اس فطری اصول کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کسی قوم میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ سب عالم ہوں ہاں! مگر یہ ضرور ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ اٹھیں‘ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کو تذکیر کریں کہ وہ خدا کی گرفت سے محفوظ ہو جائیں۔ (سورہ التوبہ: 122)۔
عالمِ دین کا اصل وظیفہ دعوت ہی ہے۔ اس کے لیے سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں مگر یہ اس کا فطری میدان نہیں۔ عالم خود کو اقتدار کی کشمکش سے دور رکھتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ داعی ہے اور سب یکساں سطح پر اس کے مدعو۔ عوام ہوں یا خواص‘حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف‘ مرد ہو یا عورت‘ وہ سب کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے تاکہ سب اُس دن سے باخبر رہیں جب انہیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے ا عمال کا حساب دینا ہے۔ داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو۔ نیوٹرل ہو۔ سیاست میں آپ فریق ہوتے ہیں‘ یوں منصبِ دعوت کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ مولانا فضل الرحمن سیاستدان ہیں‘ داعی نہیں۔ مولانا طارق جمیل کا معاملہ مگر یہ نہیں۔ وہ سیاست دان نہیں‘ داعی ہیں۔ یہ عمران خان ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن‘ ان کی خیر خواہی سب کے لیے یکساں ہے (یا ہونی چاہیے)۔
آج منصبِ دعوت کا تقاضا ہے کہ وہ سیاسی راہ نماؤں کو تذکیر کریں۔ انہیں بتائیں کہ ریاست مدینہ میں اہلِ سیاست اختلاف کیسے کرتے تھے۔ خلافتِ راشدہ میں اختلاف روزِ اوّل سے موجود تھا مگر اس لطافت کے ساتھ کہ سطحِ زمین پر اس کے آثار دکھائی نہ دیتے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ کی شہادت کا دن آ گیا۔ سیدنا عثمان ؓ سے لوگوں نے اختلاف کیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مخالفین نے سیدنا علیؓ سے درخواست کی کہ آپ ہمارا مقدمہ امیر المومنین کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ سے جو کچھ فرمایا‘ اہلِ تاریخ نے اسے محفوظ کیا۔ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان کیسے کلام کرتی ہے۔ خیر خواہی کے ساتھ تذکیر کا اعلیٰ نمونہ۔
خود سیدنا علیؓ سے لوگوں نے اختلاف کیا۔ اتنا شدید کہ میدان ہائے جنگ آباد ہوئے اور لاشوں سے اٹ گئے‘ مگر راہ نماؤں کا رویہ کیا رہا؟ ام المومنینؓ تو خیر ایک طرف کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک ایمان کا تقاضا تھا‘ خوارج سے حضرت علیؓ نے کیا کہا؟ح ضرت امیر معاویہؓ نے سیدنا علیؓ کے بارے میں کن جذبات کا اظہار کیا جب ضرار بن ضمرہ کنانی نے ان کے سامنے آپ کے محاسن بیان کیے؟ وہ داعی آج کہاں ہے جو قرآن مجید کے ساتھ اہلِ سیاست کو تذکیر کرے؟ انہیں سورۂ حجرات کی آیات سنائے؟ انہیں صحابہ کرام کے احوال سنائے۔ فضائل صحابہ تبلیغی نصاب کا حصہ ہیں۔ آج ضرورت تھی کہ اختلاف کے باب میں ان کی سیرت قومی راہ نماؤں کے سامنے رکھی جاتی اور انہیں بتایا جاتا کہ ریاست مدینہ میں اختلاف کیسے کیا جاتا تھا؟ انہیں سمجھایا جاتا کہ سیاست ذاتی انا کی جنگ نہیں ہوتی۔ یہ تو اپنی ذات سے اٹھ جانے کا نام ہے۔
یہ کام ہر عالم اور ہر داعی کو کرنا چاہیے۔ آج سب سے زیادہ سیاست دانوں کو اس کی ضرورت ہے کہ ا نہیں اخلاقیات کی طرف متوجہ کیا جائے۔ ہمارا سیاسی کلچر برباد ہو رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف تقریروں سے اور کسی کو یہودی ایجنٹ کہنے سے قومی اخلاقیات کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ ریاستِ مدینہ اس طرح نہیں بنتی۔ اس کا آغاز گفتار سے ہوتا ہے۔ سیدنا علیؓ ہی نے فرمایا تھا کہ انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ آج ہماری زبانیں بتا رہی ہیں کہ اس پیکرِ خاکی کے پردے میںکیا ہے۔ یہ باتیں ہر اس آدمی کو کہنی چاہئیں جو داعی ہے۔ مولانا طارق جمیل کی ذمہ داری مگر سوا ہے۔
مولانا طارق جمیل اہلِ دعوت میں اس وجہ سے نمایاں ہیں کہ وہ معاشرے کے معروف لوگوں کو بطورِ خاص دعوت کا ہدف بناتے ہیں۔ تمام سیاست دانوں سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کا جنازہ انہوں نے پڑھایا۔ گجرات کے چوہدریوں کی ہر خوشی‘ غمی میں وہ شریک ہوتے ہیں۔ عمران خان تو ان کے پسندیدہ وزیراعظم ہیں۔ ان کے خیال میں وہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے ریاستِ مدینہ کی بات کی۔ لوگوں نے بار ہا دیکھا کہ خان صاحب ان سے بغلگیر ہو رہے ہیں درآں حالیکہ ان کے ساتھ ہاتھ ملانے کی سعادت بھی کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے تو ہم مسلک ہیں۔ اہلِ سیاست سے اتنی قربت کسے میسر ہے؟
لازم تھا کہ اس موقع پر‘ جب ہیجان کا غلبہ ہے‘ مولانا طارق جمیل قومی راہ نماؤں کے نام ایک وڈیو پیغام جاری کرتے۔ ان سے ملتے۔ درد مندی کے ساتھ ان کو توجہ دلاتے کہ اقتدار تو ایک طرف‘ قوم کا اخلاق برباد ہو رہا ہے۔ یہ ایسا نقصان ہے جس کی تلافی برسوں نہیں ہو سکے گی۔ اقتدار اہم نہیں ہے‘ اقدار اہم ہیں۔ عمران خان صاحب کو تو بطورِ خاص بتانا چاہیے تھا کہ حکمران کی ذمہ داریاں ایک عام راہ نما سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
مولانا طارق جمیل ایک عام داعی نہیں ہیں۔ قدرت نے انہیں یہ خاص مقام عطا کیا ہے یا یہ ان کی مساعی کا نتیجہ ہے‘ اس سے قطع نظر‘ اہلِ سیاست کی نظر میں‘ ان کا ایک ممتاز مقام ہے۔ انہیں یہ مقام ریاستی اداروں کے ذمہ داران میں بھی حاصل ہے۔ وہ ان کو بھی تذکیر کر سکتے ہیں کہ ان کی آئینی ذمہ داریاں کیا ہیں اور دین میں اس حلف کی پاسداری کی کیا اہمیت ہے جو ایک سرکاری اہلکار اٹھاتا ہے۔ دعوت صرف عمومی نہیں ہوتی‘ خصوصی بھی ہوتی ہے۔ نماز روزے کی تبلیغ سب کو کی جائے گی‘ حکمرانوں اور قومی راہ نماؤں کو مگر یہ بھی بتایا جائے گا کہ خلقِ خدا کے باب میں ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ لازم نہیں کہ یہ تذکیر مجمعِ عام میں ہو۔ یہ تنہائی میں بھی ہو سکتی ہے۔ خرابی مگر اس طرح سرایت کر جائے جیسے آج کر چکی تو پھر لازم ہے کہ یہ تذکیر سب کے سامنے ہو۔ علانیہ ہو۔ یہ بات سب کے علم میں ہونی چاہیے کہ ان راہ نماؤں کو متنبہ کیا گیا تھا۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے علما نے خرابی کو قبول نہیں کیا۔ اگر عوام کے سامنے خرابی کو خرابی کہنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کے بارے میں سماجی حساسیت ختم ہو جاتی ہے۔
میرا خیال تھا کہ مولانا طارق جمیل نے جس درد مندی کے ساتھ عمران خان صاحب کی کامیابی کے لیے دعا مانگی تھی‘ اسی درد مندی کے ساتھ اخلاق کی پامالی پر بھی آواز اٹھائیں گے۔ دکھائی دے رہا ہے کہ اقتدار کا کھیل‘ آداب سے بے نیاز ہو کر تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افسوس مگر یہ کہ کوئی اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے موجود نہیں۔ مولانا طارق جمیل آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ ارتداد ہے مگر کوئی ابوبکرؓ نہیں۔
پسِ نوشت: محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے اِنذار کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قومی راہ نماؤں کی بنیادی اخلاقیات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو جزائے خیر دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں