عمران خان صاحب تین باتیں کہہ رہے ہیں:
پہلی: میری حکومت کاخاتمہ ایک غیرملکی سازش ہے۔ اس کا ثبوت ایک خط ہے جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے حکومتِ پاکستان کو بھیجا۔ دوسری یہ کہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں جو موجودہ حکومت میں شامل ہیں، اس سازش کا حصہ اور غیرملکی ایجنٹ ہیں (کسی کو میر جعفرکہنے کا یہی مطلب ہے) اس لیے یہ حکومت ناجائز ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھا نہیں جا سکتا۔ تیسری یہ کہ بلاتاخیر نئے انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام فیصلہ کریں کہ ان کی نظر میں کون محبِ وطن ہے جسے اقتدار سونپا جائے۔
اس سہ نکاتی موقف کو جس بیانیے کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ عمران خان اس معاشرے میں حق کی تنہا علامت اورسیاست میں دیانت وامانت کی واحد آواز ہیں۔ کسی کے باطل ہونے کیلئے یہ شہادت کافی ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہیں کھڑا۔ اس معرکے میں غیر جانبداری کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ جو ایسے موقع پر غیر جانبدار ہے، اس کی اخلاقی حس مرچکی۔ اب وہ محض ایک حیوان ہے۔
بیانیے سے پہلے ہم خان صاحب کے موقف کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات: ان کا موقف اُس وقت تک محض الزام ہے جب تک کہ ثابت نہ ہوجائے۔ اب یہ ثابت کیسے ہو؟ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کیمرہ سیشن میں اس خط کو پیش کیا جائے جس میں ریاست کے تمام ایسے لوگ موجود ہوں جو قومی سلامتی کے امور کے نگہبان ہیں۔ اس میں سفیر صاحب کو بھی بلایا جائے جنہوں نے یہ خط لکھا۔ یہ حل شہباز شریف صاحب نے پیش کیا جو دیگر تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ دوسرا حل تحریکِ انصاف کی طرف سے سامنے آیا کہ اس کیلئے ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔
میرے نزدیک دونوں صورتیں قابلِ قبول ہیں۔ شہباز شریف صاحب جن لوگوں کے اجتماع کی بات کررہے ہیں، قومی سلامتی کے باب میں ان کی بات کو مستند سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ کسی رائے تک پہنچتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسے درست مانا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی عدالتی کمیشن بنتا ہے تواس کے نتائجِ تحقیق پربھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے؛ تاہم، اس میں ایک نکتہ اہم ہے۔ کمیشن وزیراعظم بنائے گا۔ اس کی حدود کا تعین بھی حکومت کرے گی۔ کیا تحریکِ انصاف ایسا کمیشن تسلیم کرلے گی؟ پہلی صورت کو تحریکِ انصاف پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ پھر کیسے حل ہوگا؟
اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی ستر فیصد آبادی غداروں کو اپنا راہنما مانتی ہے۔ جس ملک میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد گمراہ ہو، وہاں جمہوری طریقے سے کوئی تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ کل عام انتخابات میں اگر یہی لوگ پھر کامیاب ہوتے ہیں تو کیا آپ ان کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار کردیں گے؟ یہی نہیں، ریاست کے تمام ادارے جن میں سول سوسائٹی، فوج اور عدلیہ شامل ہیں، اس مقدمے کو قبول نہیں کررہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہیں تھاکہ ملک کی مسلح افواج ایک غدار کو گارڈ آف آنر پیش کرتیں۔ کیا یہ سب غدار ہیں؟
تیسرا نکتہ فوری انتخابات کا مطالبہ ہے۔ عمران خان صاحب کی حکومت سے اپوزیشن مسلسل یہ مطالبہ کرتی رہی ہے۔ انہوں نے اسے مسترد کیا اور یہ کہا کہ وہ پانچ سال پورے کریں گے۔ اب تحریکِ انصاف اپوزیشن ہے اور وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے۔ کل فیصلے کا اختیار آپ کے پاس تھا اور دوسرے مطالبہ کررہے تھے۔ آج یہ اختیار دوسروں کے پاس ہے اور آپ یہ مطالبہ کررہے ہیں۔ ظاہر ہے اب فیصلہ دوسروں نے کرنا ہے اور اپنی ترجیحات کے مطابق۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ احتجاج کے زورپر اسے منوا سکتے ہیں یا نہیں۔
ایک راستہ یہ ہو سکتا تھاکہ آپ ایک ڈیڑھ سال عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھتے یہاں تک کہ عام انتخابات کا وقت آجاتا۔ عام انتخابات کا مطالبہ یا فیصلہ سیاسی قوتیں اپنے حالات کے تحت کرتی ہیں۔ وہ یہ دیکھتی ہیں کہ کب حالات ان کیلئے سازگار ہیں۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ آج وہ مقبولیت کی معراج پر ہیں‘ اس لیے عام انتخابات ہو جائیں تو انہیں فائدہ ہو گا۔ دوسری جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگرانہیں اقتدارکا ایک ڈیڑھ سال مل جائے تو ان کیلئے بہتر ہوگا۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے، اخلاقی نہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کون اس میں کامیاب ہوتا ہے۔
عمران خان صاحب کا یہ موقف جس بیانیے پر مبنی ہے، یہ ہے کہ وہ حق کی علامت اور سیاست میں امانت و دیانت کی واحد آواز ہیں۔ ان کے سوا سب کرپٹ ہیں یا غدار۔ نیک اور صالح وہی ہے جو ان کے ساتھ ہے۔ کم وبیش یہی مقدمہ اس سے پہلے جماعت اسلامی پیش کرتی رہی ہے۔ اسے لوگوں نے قبول نہیں کیا اور جماعت پر صالحین کی پھبتی کسی گئی۔ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں مگر ایک بنیادی فرق ہے۔ جماعت کوئی 'کلٹ‘ (Cult) نہیں ہے۔ مولانا مودودی کی شخصیت ایسی تھی کہ اخلاقی حوالے سے، اس پرکبھی انگلی نہیں اٹھائی جا سکی لیکن وہ 'کلٹ‘ نہیں تھے۔ جوان کے ساتھ تھا، شعوری طور پر تھا اوراس کی وابستگی کسی فرد سے نہیں، اس مشن سے تھی جو جماعت پیش کررہی تھی۔ یوں جماعت کا پروگرام اور مولانا مودودی کی شخصیت دونوں پرتنقید ہو سکتی تھی۔
اس کے برخلاف عمران خان ایک 'کلٹ‘ ہیں۔ لوگ ان کے شخصی رومان میں مبتلا ہیں۔ وہ اس لیے ان کے ساتھ نہیں ہیں کہ وہ ایک صحیح بات کہہ رہے ہیں بلکہ اس لیے ان کے ساتھ ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں، وہ حق اور صحیح ہوتا ہے۔ وہ خود معیارِ حق ہیں۔ ان کا فرمان مستند ہے۔ جماعت نے اپنا مقدمہ عقلی بنیادوں پر پیش کیا اور مکالمے کا حصہ بنی۔ تحریکِ انصاف مکالمے کی قائل نہیں۔ وہ توکسی کے ساتھ بیٹھنے پرآمادہ نہیں۔
جماعت نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا اتحاد کیا۔ تحریکِ انصاف کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسی سے اتحاد کرسکتے ہیں جو خان صاحب کی امامت قبول کرلے، قطع نظر اس کے کہ وہ کرپٹ ہیں یا دیانتدار۔ یہی سبب ہے کہ خان صاحب اپنے عہدِ اقتدار میں اپوزیشن رہنما سے ایک بار بھی نہیں ملے۔ دوسری طرف وہ جسے سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، اُسے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزراتِ اعلیٰ پیش کرچکے اور آج بھی ان کی جماعت انہیں اس منصب پر بٹھانے کیلئے پُرجوش ہے۔ 'کلٹ‘ کا معاملہ مگر یہی ہے کہ اس میں عقل واستدلال کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ عمران اسماعیل صاحب اس بنیاد پر اپنا منصب چھوڑ رہے ہیں کہ وہ ایک کرپٹ وزیراعظم کو پروٹوکول نہیں دے سکتے۔ اس موقف میں خان صاحب کے محبین کو کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا۔
اب مزید آگے بڑھیے۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو اسی الیکشن کمیشن کے تحت ہوں گے جس پرآپ کو بھروسہ نہیں۔ وہی ریاستی ادارے کرائیں گے جن کی دیانت آپ کی نگاہ میں مشتبہ ہے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے آپ کسی کے ساتھ بیٹھنے پرآمادہ نہیں۔ انتخابات کے بعد، اسمبلی میں انہی لوگوں کے ساتھ آپ کی نشست ہوگی، جن کے ساتھ آج بیٹھنا آپ کو گوارا نہیں۔ اس صورت میں آپ کیا کریں گے؟
وہ جو کریں گے کریں گے، ریاست اور عوام کو سوچنا ہے کہ ایسا فرد یا گروہ، اگر سیاست کا حصہ بن جائے جو ایک 'کلٹ‘ ہو، جو کسی بات کوتسلیم نہ کرے اور خود کواکثریت سے الگ کرلے، اس کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا خوارج کا معاملہ یہی نہیں تھا؟