عمران خان صاحب نے کمال ہوشیاری اور چابک دستی کے ساتھ سیاست کا ایجنڈا بدل دیا ہے۔
بطور وزیراعظم، ان کی کارکردگی کے بجائے، اب امریکی سازش کے ساتھ،خودی اورقومی غیرت جیسے رومانوی تصورات سیاست کا موضو ع بن گئے ہیں۔سادہ لوح عوام کا ایک حصہ اورسیاسی حرکیات سے بے خبر آسودہ حال خواص کا ایک طبقہ،اس جذباتی لہر میں بہہ کر،سیا ست کو اس کے حقیقی ایجنڈے سے دور کرنے میں، خان صاحب کا معاون ہے۔ سیاست فطری ڈگر پر آگے بڑھتی تو آئندہ انتخابات سے پہلے سابقہ حکومت کی کارکردگی موضوعِ سیاست ہوتی۔عمران خان تادمِ تحریر،اس میں کامیاب ہیں کہ ان کی کارکردگی پر بات نہ ہو، جو کچھ ایسی قابلِ رشک نہیں ہے۔کیا وہ مستقبل میں بھی اس میں کامیاب رہیں گے؟
اس کاانحصارموجودہ حکومت کی کارکردگی پر ہے۔وہ حسنِ کارکردگی سے گورننس کے فرق کو واضح کرتی ہے، خان صاحب کی دیانت کے خود ساختہ پردے کو کامیابی اور دیانت داری سے چاک کرتی ہے یا پھران کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے، اس مفروضے کو تقویت پہنچاتی ہے کہ ہمارااصل مسئلہ غیر ملکی مداخلت ہے نہ کہ معاشی بدحالی۔قوم کو روٹی روزی کی نہیں، مفروضہ خود داری کی وہ افیون چاہیے جس کے نشے میں ،قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام، یہ گمان کرنے لگیں کہ انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں۔
اس سوال کا جواب عمران خان صاحب پر واجب ہے کہ امریکہ انہیںکیوں ہٹانا چاہتا تھا؟وہ امریکہ کے لیے کیوں اتنے خطرناک ہو چکے تھے کہ اس نے پاکستان کے تمام ریاستی نظام کو،جس میں پارلیمان، عدلیہ اورفوج شامل ہیں،یر غمال بناتے یااسے خریدتے ہوئے،انہیں اقتدار سے ہٹا دیا؟ہماراریاستی نظام اگر اتنا ہی کمزور ہے تو امریکہ ،اُس وقت اس کو مفلوج کیوں نہیں کر سکا جب پاکستان امریکی خواہشات کے برخلاف،کئی میدانوں میں پیش قدمی کر رہا تھا؟
عمران خان صاحب نے دو دن پہلے گواہی دی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لیے، پاک فوج ان کی ذات سے زیادہ اہم ہے۔ایسے ادارے کے ہوتے ہوئے،یہ کیسے ممکن ہوا کہ امریکہ کی سازش کامیاب ہوئی اور 'میر جعفروں‘ کا گروہ برسرِ اقتدار آگیا؟پھر یہ کہ امریکہ،کیا ان جماعتوںکو برسرِ اقتدار لایا ہے جو تاریخی اعتبار سے امریکہ مخالف ہیں یا جن کے ادوارِ حکومت میں پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام آگے بڑھے؟پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک لفظوں میں بتایا ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں بلا استثنیٰ ،قومی سلامتی کے ساتھ وفا داررہی ہیں۔کیا امریکہ مولانا فضل الرحمن کو لانا چاہے گا جو اس وقت بھی صدام حسین کے حامی تھے جب اس موقف کے حق میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں تھی؟
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اپنے پونے چار سالہ عہدِ اقتدار میں،عمران خان صاحب نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جو امریکہ کے نئے عالمی نظام کے اہم پرزے ہیں۔یہ بھی معلوم ہے کہ آئی ایم ایف کو سی پیک کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کی تفصیلات سے آگاہ کیاگیا،درآنحالیکہ یہ خفیہ تھے۔یہی نہیں، صدر ٹرمپ سے ملتے وقت، کمزوری کا رویہ اختیار کیا جب عافیہ صدیقی کے بارے میں سوال ہوا۔اس میں یقیناً مصلحت ہوگی لیکن اس کے بعد اس دعوے میں کوئی وزن نہیں رہتا کہ وہ امریکہ کے لیے کسی نوعیت کا چیلنج تھے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ،عارضی سیاسی حکومتوں کے بجائے مستقل ریاستی نظام کے ہاتھوں میںہے۔اگر امریکہ کی کوئی ناراضی ہے تو وہ اس نظام سے ہوسکتی ہے نہ کہ خان صاحب سے۔
موجودہ حکومت کے لیے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ وہ اس ایجنڈے کو کیسے بدل سکتی ہے جو عمران خان صاحب نے طے کر دیا ہے۔اس کے لیے جوابی بیانیے کے ساتھ ایک ایسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو اس بیانیے کو امرِواقعہ بنا دے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو خودی اور غیرت جیسے رومانوی تصورات کے بجائے ،ان زمینی حقائق کی طرف متوجہ کرنا لازم ہے جن کے اعتراف کے بغیر خودی اور غیرت کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔عوام کو اس جوابی بیانیے کی ضرورت ہے کہ یہ منزل دنیا سے بلا وجہ اور مفروضوں کی بنیاد پر لڑائی مول لے کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔اس کے لیے اپنے تنِ خاکی میں جاں پیدا کر نے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں وہی اقوام یہ ہدف حاصل کر پائی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنی معیشت اور سیاست کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔تصادم سے گریز کیا ہے اور اور وہ مہلتِ عمل حاصل کی ہے جو خود انحصاری کے لیے ناگزیر ہے۔یہ کام عوام میں ہیجان پیدا کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔جس نے یہ کام کیا ہے،اس نے دراصل قوم کی منزل کھوٹی کی ہے۔اس کے لیے جاپان اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اس متبادل بیانیے کے ساتھ، سب سے پہلے حکومت کو باہمی مفادات کی اس دلدل سے نکلنا ہوگا جو اس نوعیت کی حکومتوں کا مقدر بن جاتا ہے جو ایک سے زیادہ گروہوں پر مشتمل ہوں۔جیسے طارق فاطمی صاحب کی تعیناتی۔یہ کارِ عبث تھا اور کسی بڑی خرابی کی پہلی اینٹ بن سکتا تھا۔ اچھا ہوا کہ وزیراعظم صاحب کو جلد ہی اس کا اندازہ ہوااوراس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔
دوسرا بڑا چیلنج ایک ایسی معاشی حکمتِ عملی کی تشکیل ہے جو عوام اور کاروباری طبقے میں اعتماد پیدا کرے اور سرمایے کو متحرک کرے۔اس کے ساتھ اس پالیسی کو عالمی مالیاتی اداروں اور اہم دوست ممالک کی حمایت اور نصرت بھی میسر ہو۔ سی پیک کے تنِ مردہ میں دوبارہ جان ڈالی جائے اورچین کے ساتھ اعتماد کو بحال کیا جا ئے ۔اس باب میں سعودی عرب کا کردار بھی بہت اہم ہوگا۔وزیراعظم کی پہلی تقریر سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں ان باتوں کا پوری طرح ادراک ہے۔
احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کی زندگی کو اجیرن بنانے کا کلچربھی اب ختم ہو نا چاہیے۔اگر اتفاقِ رائے سے احتساب کے بندوبست کوسمیٹ دیا جائے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ان لوگوں کا احتساب یقیناً ہونا چاہیے جنہوں نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا لیکن اس کے لیے عمومی عدالتی نظام پر اکتفا کرناچاہیے۔ کسی خصوصی اہتمام کی ضرورت نہیں،جسے حکومتیں سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ 'میثاق ِجمہوریت ‘کا احیااور اس میں توسیع ہو۔تحریکِ انصاف کو اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔سیاست میں ہر وہ راستہ بند ہو نا چاہیے جو عوام کو تقسیم کرے اور ملک کو فساد کی طرف لے جائے۔سیاسی جماعتیں آزادی کے ساتھ کام کریں اوران کا اختلاف آداب کے تابع ہو۔ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کا کلچرختم ہو چکا تھا۔اس کی شعوری کوشش کی جائے کہ اس کا احیا نہ ہو۔یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب اظہارِ اختلاف ،تہذیب کے دائرے میں ہوگا۔احسن اقبال صاحب نے اپنے پیشرو اسدعمر صاحب کو الوداعی کھانے کی دعوت دی ہے۔یہ ایک مثبت قدم ہے جس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
حکومت کا کام ردِ عمل دینا نہیں بلکہ تلخ تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے،عوام میں وحدت اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہے۔پہل حکومت ہی کو کرنی چاہیے۔یہ نوازشریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے۔اگر وہ عوام کو تقسیم،سازشی مفروضوں اورہیجان کی سیاست سے نکال کر سیاست کے حقیقی ایجنڈے کی طرف لوٹاسکیں تو یہ بڑی قومی خدمت ہو گی۔