''ناقابلِ رشک کارکردگی کے سبب‘'وزیراعظم ‘عمران خان صاحب تیزی سے غیر مقبول ہو رہے تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک ان کے لیے ایک غیر مترقبہ نعمت ثابت ہوئی۔ اس نے غیر مقبولیت کی اس بڑھتی ہوئی لہر کو تھام لیا۔یہی نہیں‘انہوں نے اسے ایک موقع جانا اور اسے اپنے نئے بیانیے سے جوڑتے ہوئے‘ اپنی مقبولیت میں کئی گنااضافہ کر لیا‘‘۔ نئے سیاسی حالات کایہ تجزیہ ‘اس وقت سب سے بلند آہنگ ہے۔ میں بوجوہ اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
میراتاثر ہے کہ رائے عامہ کی تشکیل میں‘ تحریک عدم اعتماد کا کوئی کردار نہیں۔اس حوالے سے وہ بیانیہ بھی بے اثر ہے جسے خودی‘ آزادی اورقومی غیرت جیسے رومانوی عنوانات سے پیش کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘یہ نظر کا دھوکا ہے۔وہی 'پوسٹ ٹرتھ‘۔عمران خان صاحب کی مقبولیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے تھی۔اس رائے کی بنیاد چند دلائل پرہے۔
ایک تو یہ کہ رائے عامہ کسی جادو کے زیرِ اثر نہیں بنتی کہ پلک جھپکنے میں نفرت ‘محبت اور مخالفت تائید میںبدل جائے۔واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو عوام کی رائے پر دھیرے دھیرے اثرانداز ہوتا ہے۔ اس سے خان صاحب کے حامی بھی اختلاف نہیں کرتے کہ ان کی ناقابلِ رشک گورننس اور مہنگائی کے سبب‘عام آدمی مایوس ہوا ہے اور وہ عامۃ الناس میں غیر مقبول ہوئے ہیں۔اس مایوسی کو بھی ایک پختہ رائے بننے میں تین سال لگے ہیں۔یہ شک اور تشویش کے مراحل سے گزر کر محکم ہو ئی ہے۔ جس طرح مقبولیت سے غیر مقبولیت کا سفر تدریج کے ساتھ طے ہوتا ہے‘اسی طرح غیر مقبولیت سے مقبولیت تک پہنچنے میں بھی وقت لگتا ہے۔انسان روبوٹ نہیں ہوتے کہ ایک بٹن دبانے سے اپنی سمت بدل لیں۔
دوسرا یہ کہ اس مقدمے کے حق میں کوئی واقعاتی شہادت یا عقلی دلیل موجود نہیں ہے کہ امریکہ بطورِ خاص عمران خان سے ناراض ہے اورانہیں تبدیل کر ناچاہتا ہے۔تحریکِ عدم اعتماد سے پہلے ‘امریکہ کی مخالفت خان صاحب کے سیاسی بیانیے کا کبھی حصہ نہیں تھی۔اس کے برخلاف‘صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار رہے اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے ان کا خان صاحب سے ذاتی سطح پر ایک رشتہ قائم ہو گیا ہے۔
خان صاحب یہ تو کہتے رہے کہ پاکستان کو ایک غیر ملکی جنگ میں شریک نہیں ہو نا چاہیے تھا یا امریکہ نے ہماری خدمات کا اعتراف نہیں کیا مگر اتنی سی بات پر امریکہ ناراض ہوکر انہیں تبدیل کرنے کی ٹھان لے گا‘عقل اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔اگر امریکہ نواز شریف صاحب کی ایٹمی دھماکوں والی گستاخی کو گوار اکر گیا اور انہیں ہٹانے کی سازش نہیں کی تو یہ اس کے مقابلے میں ایک نا قابلِ ذکر بات ہے۔
جوبائیڈن صاحب کے صدر بننے کے بعد ‘امریکہ کی پالیسی میں ایک تبدیلی آئی۔وہ اور امریکی انتظامیہ‘افغانستان میں امریکی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ان کی یہ ناراضی ریاستِ پاکستان سے ہے‘کسی خاص فرد سے نہیں۔انہوں نے اگر عمران خان صاحب کو فون نہیں کیا تو اس کی وجہ ان کی ذات نہیں کیونکہ اُس وقت خان صاحب کے نامۂ اعمال میں‘کوئی ایسا عمل درج نہیں تھا جو امریکہ کی ناراضی کا باعث بنتا۔فون نہ کرنے کو‘عمران خان صاحب نے ایک خود پسند آدمی کی طرح ذاتی توہین سمجھ لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ریاستی ادارے سے امریکہ کو شکایت تھی‘اس کے ساتھ ایک دن کے لیے بھی اس نے تعلقات منقطع نہیں کیے۔جو لوگ خارجہ پالیسی کو سمجھتے ہیں‘وہ جانتے ہیں کہ ریاستیں تھڑ دلی ہوتی ہیں نہ عجلت پسند۔
اس لیے یہ بات تو عوام کے لیے انکشاف تھی کہ امریکہ خان صاحب کے اتنا خلاف ہوگا ہے کہ 'رجیم چینج‘ تک چلا گیا ہے۔کاسترو کے دور میں اگرکیوبا کے عوام کو بتا یا جا تا کہ امریکہ نے کاسترو کو ہٹانے کی کوشش کی ہے تو عوام فوراً مان لیتے کہ کاسترو کے ساتھ امریکہ نے ذاتی دشمنی پال رکھی تھی۔پاکستان کے عوام کسی پس منظر‘ کسی امریکہ مخالف پالیسی یا واقعے کے بغیر‘کیسے مان لیں کہ امریکہ خان صاحب کا اتنا بڑا دشمن ہے کہ انہیں نکالنے کے لیے نہ صرف اتنی بڑی سازش کر رہا ہے بلکہ اتنا دیدہ دلیر اور احمق بھی ہے کہ سفیر کو بلا کر'سازش‘ سے آگاہ کر رہا ہے۔یہ اتنا کمزور مقدمہ ہے کہ نوم چومسکی جیسا دانشور بھی اسے ماننے پر آمادہ نہیں‘جو یہ سمجھتا ہے کہ 'رجیم چینج‘ ماضی میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار رہا ہے۔
تیسرا یہ کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات یقیناً موجود ہیں لیکن اب اتنے شدید نہیں رہے کہ ان کی بنیاد پر کوئی سیاسی تحریک اٹھائی جا سکے۔ ان جذبات کا نقطۂ عروج گزر چکا۔یہ 9/11کے بعد کا دور تھا۔ متحدہ مجلس عمل امریکہ کے خلاف لہر کا فائدہ اٹھاچکی۔اب یہ جذبات مدہم پڑ چکے۔نئی نسل امریکہ جانے کے خواب دیکھتی ہے اوراس کے لیے سرگرداں رہتی ہے۔ سازشی تھیوریوںپر یقین کرنے والے یقیناً موجود ہیں لیکن امریکہ سے وابستہ مفادات سے بھی باخبر ہیں۔ امریکہ کے بارے میں بحیثیت مجموعی ایک ابہام ہے۔ امریکہ مخالف تحریک اٹھانے کے لیے ذہنی یک سوئی ضروری ہے جو یہاں نہیں پائی جا تی۔
چوتھا یہ کہ یہ امریکی سازش کامقدمہ اتنا کمزور ہے کہ صاحبانِ عقل کی کسی مجلس میں اس کا دفاع ممکن نہیں۔ جھوٹی حکایتوں سے غالی معتقدین کو تو مطمئن کیا جا سکتاہے‘ کسی نارمل آدمی کو نہیں۔جب قومی سلامتی پر مامور تحقیقاتی ایجنسیوں نے دوٹوک لفظوں میں کسی سازش کے امکان کو مسترد کر دیا تو اس کے بعد صرف کھمبا نوچاجا سکتا ہے۔یہ تردید اتنی کمزور نہیں کہ عوام اس کو آسانی سے نظر انداز کر دیں۔
پانچواں یہ کہ جلسے عوامی مقبولیت کا قابلِ بھروسا پیمانہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے بڑے جلسے ماضی قریب میں کسی جماعت نے نہیں کیے۔ میڈیا نے ان کے جلسوں کی کوریج میں ہمیشہ امتیاز برتا۔جلسے عوامی تائید کے ایک حد تک ہی عکاس ہوتے ہیں۔انتخابی قوت کا تووہ کسی طرح اظہار نہیں۔ایساہوتاتو جمعیت علمائے اسلام قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کی حامل ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے ‘پھریہ بیانیہ کیوں اختیار کیا؟ میرا تجزیہ ہے کہ امریکہ مخالف بیانیے اور خودی کی یہ بلی خان صاحب کے تھیلے میں ایک عرصے سے موجود تھی اوروہ اسے بوقت ضرورت باہر نکالنا چاہتے تھے۔اگر وہ پانچ سال پورے کر لیتے تو یہ بلی انتخابات کے وقت نکالی جا تی۔تین سال کے بعد وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے تھے کہ کارکردگی کی بنیاد پر وہ انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ انہیں ایک متبادل بیانیہ چاہیے تھا اوراس سے بہتربیانیہ کون سا ہو سکتا تھا جس کے لیے صرف تقریر کافی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ وقت پہلے آگیا ‘اس لیے بلی کی ولادت بھی قبل از وقت ہو گئی۔
عمران خان ‘آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے‘چند ماہ پہلے تھے۔تحریک عدم اعتماد اور ان کا نیا بیانیہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کر سکے۔یہ مقبولیت کتنی ہے‘اس کا اندازہ ہر کوئی اپنے فہم کے مطابق کر سکتا ہے۔وہ ایک 'کلٹ‘ ہیں۔ان کے وابستگان کو کارکردگی یا استدلال سے کچھ لینا دینا نہیں۔اگر کوئی خان صاحب کے حکم پر اپنے بچے کا گلا کاٹنے پر تیار ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا عقل سے کتنا تعلق باقی رہ گیاہے۔خدا خیر کرے‘اس ہیجان کے ہاتھ تواب مذہبی مسلمات تک جا پہنچے ہیں۔