پہلے شبِ قدر اور پھر چاند رات...کیاہم ہر الہامی روایت‘ہرمذہبی تہوار اورہر سماجی رسم کوسیاست کی آگ میں جھونک دیں گے؟
درخواست ہے کہ اپنی سیاسی وابستگی سے بلند ترہوکراس سوال پر غور کیا جائے۔یہ لازم نہیں کہ ہر معاملے کو مسلکی‘نظریاتی اور سیاسی وابستگی ہی کے پس منظر میں دیکھا جائے۔یہ سب حجاب ہیں جو ہمارے اور حقیقت کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔یہ جال ہیںجو انسانی مفادات نے پھیلا دیے ہیں۔ہر وابستگی فطری اور قابلِ قبول ہے‘ اگرحق کے راستے میں حجاب نہیں بنتی۔تجربہ مگر یہ ہے کہ اہلِ ہوس نے مسلک‘نظریے اور مذہب کواپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اوران کے نام پرسادہ لوح عوام سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی۔
یہ سوال وہ نہیں ہے جس کو نیتوں سے متعلق کر دیا جائے۔بعض افعال ایسے ہیں جن میں فاعل کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو‘اس کا انجام الم ناک اور پہلے سے معلوم ہو تا ہے۔ دوسری منزل پر کھڑا ایک آدمی دیکھتاہے کہ زمین پر ایک پاگل کتا ایک بے بس بچے کے درپے ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جلد از جلد اس کی مدد کو پہنچے۔اس نیت کے ساتھ وہ سیڑھیوں کے بجائے چھلانگ لگانے کو ترجیح دیتا ہے تو اس کی نیت کا یہ اخلاص‘ اس کی ٹانگوں کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتا۔
اہلِ سیاست میںترجیح قائم کرناآپ کا حق ہے لیکن اس سے اتفاق‘سب کے لیے لازم نہیں۔سماج میں یقینا ایسے لوگ ہوں گے جو آپ سے مختلف رائے رکھتے ہوں ۔سیاست ہی کیا‘مذہب اور دیگر معاملات میں بھی لوگ مختلف الخیال ہوں گے۔ہمیں اس اختلاف کی موجودگی کوامرِواقعہ کے طور پر قبول کر نا ہوگا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ کسی رائے کے انتخاب اور اظہار میںہم آزاد ہوں تو ہمیں یہ حق دوسروں کو بھی دینا ہوگا۔
میں اس بات کو مزید واضح کرتا ہوں۔مسجد‘ بازار‘ریستوران‘تعلیمی ادارہ‘دفتر‘یہ وہ مقامات ہیں جو ہماری اجتماعی زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ہمیں اورہمارے بچوں کو وہاں جانا ہے۔یہ لازم ہے کہ ایسے تمام مقامات سب کے لیے محفوظ ہوں۔ اگر ہم ان مقامات کو اپنی مسلکی یا سیاسی وابستگی کے اظہار کا مرکز بنادیں گے اور یہاں موجود دوسرے افراد پر آوازے کسیں گے تو ان کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔
مسجد نبوی میں ہنگامہ کیوں ہوا؟ ہم نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ اس جگہ پر آنے والے سب مسلمان ہیں اور یہ کسی ایک سیاسی جماعت کے وابستگان نہیں ہیں۔حج کے دنوں میں مسجد نبوی میں انسانوں کاغیر معمولی اجتماع ہوتاہے۔عام دنوں میں قدرے کم لوگ ہوتے ہیں۔دونوں طرح کے مواقع پر ‘یہ مقام سلامتی‘ وقار اور تسکینِ قلب کی جگہ ہوتا ہے۔زائرین جانتے ہیں کہ شدید رش میں بھی اس کے سکون میں کوئی فرق نہیں آتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اَن گنت لسانی‘ جغرافیائی اور تہذیبی شناختوں کے باجود‘سب لوگ اس پر یک سو ہوتے ہیں کہ وہ یہاں اللہ کی عبادت کے لیے آئے ہیں‘کسی سیاسی یا علاقائی شناخت کے اظہار کے لیے نہیں۔یوں کسی کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔اس سے پہلے بھی چند ایسے واقعات ہوئے جب ان مقامات کو سیاسی گروہ بندی اور شناخت کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کے نتیجے میں جہاں یہ مقام عبادت گزاروں کے لیے غیر محفوظ ہو گیا‘وہاں اس کا تقدس بھی پامال ہوا۔ اسی طرح لوگ مسجد میں نماز کے لیے جاتے ہیں۔اگر ہم اسے ایک مخصوص سیاسی جماعت کا مرکز بنا دیں گے‘تو یہ مسجد کے دروازے کو دوسروں پر بند کرنے کے مترادف ہوگا۔یہ روش چل نکلی توپہلے سے مسلک کی بنیادپرمنقسم عباد گاہیں‘سیاسی تقسیم کا بھی شکار ہو جائیں گی۔اگر عیداور چاند رات کے تہوار بھی اس کی نذر کر دیے گئے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معاشرے کی حالت کیا ہوگی۔
جمہوریت کا پہلا اصول یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا جائے۔اس اختلاف کا دائرہ وسیع ہے۔یہ مذہب سے سیاست تک‘ہر شعبے کو محیط ہے۔ہمیں اس اعتراف کے ساتھ‘ اختلاف کے آداب کو سیکھنا ہے۔پُرامن بقائے باہمی کے سوامعاشرتی سلامتی کا کوئی اور راستہ نہیں۔جمہوریت کے عوارض میں‘ایک بڑا عارضہ وہ ہے جسے پاپولزم کہتے ہیں۔ایک آدمی کو اگر معاشرے کے ایک قابلِ ذکر طبقے کی حمایت میسر ہوجائے تو وہ اسے یرغمال بناسکتا ہے۔اسی سے بچنے کے لیے آئین بنائے جاتے ہیں تاکہ کوئی اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔
اسی طرح سیاست اور مذہب یا سیاست اور سماج کو الگ رکھا جاتاہے۔سیاست اور مذہب کی علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب اور اپنے سیاسی مفادات کو الگ رکھیں۔مذہبی مقامات کو سماج کی اجتماعیت کے مراکز سمجھیں جہاں ایسے سب لوگ جمع ہوں جو ایک مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔وہاں مذہب کے علاوہ کسی دوسری عصبیت کا اظہار نہ ہو۔سیاسی عصبیت کے لیے سیاسی اجتماعات ہیں اور ہر جماعت کو آئین یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے جلسے کرے اور عوام تک اپنا پیغام پہنچائے۔
اس بات کالحاظ سب جماعتوں کو رکھنا چاہیے لیکن اس وقت یہ غلطی تحریکِ انصاف کی قیادت کر رہی ہے کہ وہ ہر شے کو سیاست کی آگ میں جھونک رہی ہے۔اس لیے آج اسی جماعت کے وابستگان کو ‘اس معاملے میں سب سے زیادہ متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔ پہلے شبِ جمعہ کو اور ایک مذہبی شخصیت کو استعمال کیا گیا۔پھر چاند رات کو جھنڈے لے کر نکلنے کو کہا گیا۔یہ سلسلہ یہاں رکنے والا نہیں۔ آہستہ آہستہ ہر اجتماع‘عبادت اور تہوار متنازع ہو جائے گا ۔ یہی نہیں‘دوسری جماعتیں بھی لاز ماً جواب دیں گی۔ اٹک شہر کی مساجد میں یہ قرارداد پیش کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی والوں کے جنازے پڑھے جائیں گے نہ نکاح۔اس پہ مستزاد تصادم کے بڑھتے ہوئے واقعات۔ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟گھر گھر تصادم اورگلی گلی خلفشار۔برادرم روف کلاسرا نے اپنے کالم میں درست نشاندہی کی ہے کہ سوشل میڈیا میں جاری سیاسی بحثوں کی تلخی نے باہمی تعلقات کو ختم کر دیا ہے یا ان میں دراڑ ڈال دی ہے۔یہی باتیں جب ورچوئل دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آئیں گی تو اس کا نتیجہ گھر گھر تصادم ہے۔
معیار افراد نہیں‘ا قدار اور استدلال ہو تا ہے۔فرد کو اقدار اور عقل کی کسوٹی پر پرکھا جا تا ہے نہ کہ فرد کے اعمال کے نتیجے میں اقدار بنتی ہیں۔ یہ حق صرف اللہ کے پیغمبر کا ہے کہ ان کے ہر فرمان کوحق مانا جائے ہے۔ہر سیاسی راہنماکی بات اس کی محتاج ہے کہ عقل اور سماج کی مروجہ اقدار پر پر کھی جائے۔سچ ایک قدر ہے۔اس کی بنیاد پر ہم کسی کو جھوٹا اور سچا کہتے ہیں۔اگر ہم کسی فرد کے بات کو بلاتحقیق یا عقل پر پرکھے بغیرحق مانتے ہیں تو دراصل اسے ایک سیاسی رہنما سے بڑھ کر کچھ سمجھتے ہیں‘یہ الگ بات کہ ہم زبان سے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں ۔
سماج کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ تمام سماجی ادارے ‘تہوار اور رسوم و رواج غیر سیاسی ہوں۔اس پر لازم ہے کہ پوری قوم اتفاق کرے۔پی ٹی آئی والوں کو بطور خاص متنبہ ہونے کی ضرورت ہے۔اگر وہ اپنے لیڈر کی ہر بات اقدار اور عقل کی کسوٹی پر پرکھے بنا مان لیں گے تو پھر ہر جگہ تصادم ہوگا۔پاکستان سب کا ہے اور ہمیں اپنے اختلافات کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔ہمیں اس کے آداب سیکھنا ہوں گے۔