سوشل میڈیا ایک فتنہ ہے۔مجھے یہ ماننے میں اب کوئی تردد نہیں۔ اس کاشر ‘ اس کے خیر سے کہیں زیادہ ہے۔
اس دنیا کی ہر شے دو طرح کے امکانات لیے ہوئے ہے۔خیر بھی اور شر بھی۔سوئے استعمال غالب ہو تو اس کاشرغالب رہتا ہے۔اسی وجہ سے چیزیں ا نسان کے لیے ممنوع ٹھہرائی جاتی ہیں۔شراب کو دیکھ لیجیے۔اللہ کی کتاب اس میں موجود فائدے کا ذکر کرتی ہے لیکن ساتھ ہی‘ اس سے منع بھی کرتی ہے کیونکہ اس کا شر غالب ہے۔اس کی تجارت‘ ممکن ہے کہ کسی کے لیے منفعت کا سبب ہو لیکن اس سے سماج میں جو شر اور اخلاقی رزائل پھیلتے ہیں‘وہ اُس نفع سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
اس وقت ہمارا سماج سیاسی ہیجان کی گرفت میں ہے۔دلیل بے بس ہے اور گوشت پوست کے ایک انسان کو لوگ دیوتا بنائے ہوئے ہیں‘جس کے بارے میں انہیں گمان نہیں‘ یقین ہے کہ اس کی زبان سے صرف حق صادر ہوتا ہے۔'اس کے گلے میں بھگوان بولتا ہے‘۔ پس منظر میں کردار کی قوت ہے نہ کسی الہامی طاقت کا دستِ قدرت۔اس کے باوصف یہ یقین ہے کہ ہم 'من ربک‘ کا جواب سیکھنے اس جماعت میں آئے ہیں۔
عقل و خردسے اس بے گانگی کو ہوا دینے اوراسے جنگل کی آگ بنا دینے میں بنیادی کردار سوشل میڈیا کا ہے۔اس نے حق و باطل کی تمیز ہی نہیں مٹائی‘ باطل کو ایسا خوش نما بنا دیا ہے کہ بے شمارشفاف دل بھی آلودہ ہو نے لگے۔بظاہر سنجیدہ دکھائی دینے والے لوگ گفتگو کرتے ہیں تو آدمی حیرت سے دیکھتا ہے کہ یہ دلائل ان پر کہاں سے نازل ہوتے ہیں ؟جلد معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا سے۔اُن چہروں کو بھی اس میڈیا نے معتبر بنا دیا جن کو صحافت پہچانتی ہے نہ سیاست۔شاید اس تعارف کے ساتھ گھر والے بھی نہیں۔ صحافت کے کسی مکتب میں بیٹھے نہ سیاست کی کسی درس گاہ میں۔ اچانک سوشل میڈیا پر پائے گئے اور پھر دیکھتے دیکھتے حوالہ بن گئے۔
عالمی اور مقامی سطح پرکون ہے جس نے سوشل میڈیا سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا؟حیرت انگیز طور پر القاعدہ اور پھرڈونلڈ ٹرمپ‘ نریندر مودی اور عمران خان۔ عمران خان صاحب کو ایک طرف رکھیے اور دوسروں کے بارے میں بتائیے کہ یہ خیر کی قوتیں تھی یا شر کی؟ آئی ٹی کے ایسے ایسے ماہرین القاعدہ کے پاس تھے کہ بڑی بڑی ریاستیں ان کے سامنے بے بس ہو گئیں۔ٹرمپ اور مودی نے اسی کے بل بوتے پر اپنا بت کھڑا کیا۔امریکی نظام میں جان تھی اور وہ اس سامری کے جادو سے آزاد ہوگیا‘اگرچہ امریکی سماج میں ٹرمپ کی لگائی آگ آج بھی سلگ رہی ہے اورکسی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔ کل ہی تیرہ افراد ‘سفید چمڑی کے احساسِ برتری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بھارت کی سیاست ‘ایسے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ انتہا پسند ہندوتوا کی گرفت سے جلد نکل سکے۔
پاکستان میں سماجی انتشار روز افزوں ہے۔اس کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کا کرداراگر سو فیصد نہیں تو اس کے قریب تر ہے۔ پرنٹ میڈیا بڑی حد تک کسی ضابطے کا پابند ہے۔الیکٹرانک میڈیا بھی ایک حد تک۔سوشل میڈیا شتر بے مہار ہے۔ایسی قوت کا فائدہ‘ سب سے زیادہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو خود کسی ضابطے اور قانون کے تابع نہیں ہوتے ۔ جوخود پسندی کی اس معراج پر ہوتے ہیں کہ خود ہی قانون ہوتے ہیں اور خود ہی قانون ساز۔یہ خود پسندی اپنی ذات کے بارے میں ہو سکتی ہے اور اپنے مشن کے بارے میں بھی۔ سوشل میڈیا نے ایسے لوگوں کا کام سہل کر دیا ہے۔
پروپیگنڈاہمیشہ سیاسی تحریکوں کا مؤثر ہتھیار رہا ہے۔اس کی مدد سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جاتارہا ہے۔ اس فن کو لیکن معراج پر پہنچانے کا سہرا سوشل میڈیا کے سر ہے۔جھوٹ گھڑا اور پھر اس تیزی اور فنکاری سے پھیلایا جاتا ہے کہ عام ذہنی سطح کے آدمی کو سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔دو آدمیوں کی گفتگو کواس تیقن اور تفصیلات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ سننے والے فوراً ایمان لے آتا ہے۔حالانکہ اگر وہ کچھ بھی غور کرے تو پہلا سوال یہ ضرورپیدا ہونا چاہیے کہ بتانے والااگر وہاں موجود نہیں تھا تو اسے تفصیل کیسے معلوم ہوئی؟
یہ سوال تو قدیم تاریخ کی کتابوں کے بارے میں بھی اٹھتا ہے۔ایک سانحے کے سو برس بعد‘اس پر کتاب لکھی جاتی ہے اور راوی واقعات کو جزئیات کے ساتھ بیان کر تا ہے۔ یہی راوی آنے والی برسوں میں لکھی جانے والی کتابوں کا حوالہ بنتا ہے ۔ پھر ایسا گروہ پیدا ہو جاتا ہے جوان واقعات پر ایسے ایمان لے آتا ہے جیسے اس نے آنکھوں سے دیکھا ہو۔ کوئی سوال کرے تو وہی کتب بطورحوالہ پیش کر دی جا تی ہیں۔ہم مسلمانوں کی اکثر تاریخ نویسی اسی طرح ہوئی ہے ۔
سوشل میڈیا مگر آنکھوں میں دھول جھونکے میں بے مثل ہے۔یہ تو آج کی خبر اس طرح دیتا ہے کہ آنکھوں دیکھا غلط معلوم ہوتا ہے۔ٹیکنالوجی نے اس کا دو آتشہ بنا دیا ہے۔یہاں اب منظرتخلیق کیے جا سکتے ہیں۔حسن بن صباح کی طرح جنت آباد کی جا سکتی ہے۔ سینکڑوں کو لاکھوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ لوگ اس کو سچ مان لیتے ہیں۔ان چیتھڑوں کو عَلم بناتے اور رزم گاہ میں لہرادیتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ ایک لشکرِ جرار مقابلے میں ہے۔
سب متفق ہیں کہ سیاست میں سوشل میڈیاکو جس مہارت کے ساتھ تحریکِ انصاف نے استعمال کیا ہے‘اس کا کوئی جواب نہیں۔اس اقلیم پر اس کا قبضہ ہے۔(ن) لیگ کوشش کرتی ہے 'مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘۔دوسرے تو کوشش کرتے بھی دکھائی نہیں دیتے۔پیپلزپارٹی سوشل میڈیا پر نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام کے کارکن اپنی مہارت آزماتے ہیں مگر وہ پُھل کاری کہاں سے لائیں جو تحریکِ انصاف کو میسر ہے۔بس ثواب کما رہے ہیں۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ غنیمت ہے کہ رائے عامہ پوری طرح سوشل میڈیا کی گرفت میں نہیں۔وہ دیگر ذرائع پر بھروسا کرتی ہے۔میں آج بھی اخبار کو ترجیح دیتا ہوں کہ حرفِ مطبوعہ کی حرمت کسی حد تک قائم ہے۔ میری طرح کے لوگ مگر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اخبار کا عہد ختم ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا توانا ہے اور سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسی ضابطے کا پابند نہیں۔ اس کا بٹن نئی نسل کے ہاتھ میں ہے اور اس کا کنٹرول معلوم نہیں کس کے پاس ہے۔ میں نے خود کواس کے سیاسی اثرات تک محدود رکھا ہے۔اخلاقی اثرات کا معاملہ یہ ہے کہ زمین ہمارے پاؤں تلے سے نکل چکی۔نئی نسل وہ کچھ دیکھتی ہے جو پرانی نسل نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔
آزادیٔ رائے ایک نعمت ہے۔تجربہ یہ ہے کہ یہ نعمتوں کا سوئے استعمال ہے جو زحمتوں کو جنم دیتا ہے۔اسی کو مذہبی اصطلاح میں کفرانِ نعمت کہا جاتا ہے۔کوئی شے فی نفسہ شر نہیں ہوتی۔یہ اس کا استعمال ہے جو اسے شر میں بدل دیتا ہے۔سدِ ذرائع کے اصول پر‘اسی لیے بعض اوقات جائز امور پر پابندی کو بھی جائز سمجھا جاتاہے۔کیا اب لازم نہیں کہ سوشل میڈیا کو بھی آداب کا پابند بنایا جائے؟سائبرکرائم سے بڑھ کر اس کے معاشرتی وسیاسی اثرات کا جائزہ لیا جائے؟
سماج میںاضطراب روز افزوں ہے۔اس کا سب سے بڑا سبب سوشل میڈیا ہے۔اس نے ملک کی سیاست پر جھوٹ کی حکمرانی کو قائم کر دیا ہے۔کیا کسی اقدام کے لیے یہ جواز کافی نہیں؟