نوازشریف صاحب اگر امریکی دباؤ سے آزاد نہ ہوتے تو ہماری تاریخ میںکوئی 'یوم ِ تکبیر‘نہ ہوتا؟
28 مئی 1998ء کو پاکستان کی سیاسی حکومت نے ایک آزادانہ فیصلہ کیا۔اس فیصلے نے پاکستان کوا علانیہ ایٹمی قوت بنا دیا۔یہ ایک طویل سفر تھا جو 1955ء میں شروع ہوا جب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن قائم ہوا۔اُس وقت ایٹم سے محض توانائی کاحصول مقصود تھا‘ ایٹم بم بنانا نہیں۔بھٹو صاحب نے تو 1965 ء میں یہ بات کہی تھی مگر اُس وقت کے سربراہِ مملکت اس کے لیے آمادہ نہ تھے۔
ڈاکٹر نذیر احمد اس ادارے کے پہلے سربراہ تھے۔ڈاکٹر اے ایچ عثمانی دوسرے۔عثمانی صاحب کے دور میں کراچی نیو کلیئرپاور پلانٹ لگا۔ 1964ء میں وزیر خزانہ شعیب احمد کی سربراہی میں ایک ٹیم کینیڈا گئی تاکہ اس کے لیے پلانٹ کی خریداری کرے۔ان دنوں ایٹمی پروگرام پر زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔پلانٹ کی قیمت ساٹھ ملین ڈالر طے پائی۔کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ اگر پاکستان دو ملین ڈالر مزید دے توپلانٹ کی ڈرائنگز بھی مل سکتی ہیں۔مزیدپانچ ملین ڈالر کے بدلے میں ری پروسیسنگ پلانٹ بھی مل جائے گا۔پاکستانی وفد نے اس میں کسی دلچسپی کا اظہار نہ کیا کہ اُس کا مقصد صرف بجلی کا حصول تھا‘ایٹم بم کا نہیں۔
پاکستان کا مقابلہ مگر بھارت سے تھا جو ایٹم بنانے کے لیے یکسو تھا۔اس کا اندازہ ایک سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کو تھا۔ بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی‘ 12 جنوری 1972 ء کو جو پہلی کانفرنس بلائی‘وہ سائنس دانوں اور انجینئرز کی تھی۔بھٹو صاحب کو اچانک11 جنوری کو افغانستان جانا پڑا۔یوں یہ کانفرنس 20جنوری1972ء کو ملتان میں نواب صادق حسن قریشی کے گھر پر ہوئی۔اس میں کم و بیش دو سو سائنس دان اورانجینئرزشریک ہوئے۔مئی 1974ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے توبھٹو صاحب کی بصیرت کے سامنے سب کو سر جھکانا پڑا اور اس نے ریاست کومکمل طور پریکسو کر دیا۔
یہ ایک طویل داستان ہے جس کے سب ابواب ‘شاید کسی جگہ یکجا نہ مل سکیں۔دنیا کی نظروں سے چھپا کر لکھی گئی اس پر اسرار کہانی کے بہت سے کردار شاید ایک دوسرے سے بھی واقف نہ ہوں۔ساری دنیا کی نظریں اس پر لگی تھیں اور اسے ان سے چھپا کر رکھنا تھا؛تاہم یہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کہانی 1998ء میں آج ہی کی تاریخ میں مکمل ہوئی جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے‘ ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔
صلاحیت بلاشبہ پہلے سے موجود تھی لیکن اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ہونے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دھماکوں سے روکا گیا۔امریکہ نے شدید دباؤ ڈالا کہ پاکستان یہ دھماکے نہ کرے۔ ترغیب کے ساتھ خوف بھی دلایا گیا۔حکومت کے لیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ریاست کے بڑوں کی آرا میں اختلاف تھا۔وزیراعظم پاکستان کو امریکہ کے صدر کے فون آرہے تھے۔ وزیراعظم نے سب کی سنی اور پھر فیصلہ کیا کہ کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔پاکستان اعلانیہ ایٹمی قوت بنے گا۔یوں 24 برس پہلے‘ آج ہی کے دن چاغی کی چوٹیوں پر ایک سنہری روشنی نمودار ہوئی اور ساتھ ہی دنیا کے نقشے پر پہلی اسلامی ایٹمی ریاست بھی۔
یہ نوازشریف کا فیصلہ تھا کہ ہم نے امریکی دباؤ کو قبول نہیں کرنا۔ بھارت نے پانچ دھماکے کیے اور ہم نے چھ۔بھٹو صاحب نے جو بیج بویا‘ سب حکمرانوں نے اپنے اپنے وقت پراسے سینچا۔جب تناور درخت بناتو نوازشریف صاحب نے ساری دنیا کو دکھا دیا۔اس میں جس کا جتنا حصہ ہے‘ اس کا کریڈٹ اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ نفرت اور بے انصافی کا اندھیرا صرف نفرت کرنے والے بے انصاف ہی کو روشنی سے محروم رکھ سکتا ہے۔اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ زمانے کی آنکھوں کو بے نور کر دے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج ملک میں بھٹو اور نوازشریف کی جماعتوں کی مشترکہ حکومت ہے اور اُس پر الزام ہے کہ یہ امریکی سازش کے نتیجے میں برسرِ اقتدارآئی ہے۔ اس سے دلچسپ تر بات یہ ہے کہ امریکی مخالفت کا تمغہ وہ لوگ اپنے سینے پر سجانا چاہتے ہیں جن کے نامۂ اعمال میں کوئی ایک عمل ایسا نہیں جس پر امریکہ مخالفت کا لیبل لگا ہو۔تاریخ کو مسخ کر نے کی اس سے بڑی مثال‘شاید ہی تلاش کی جا سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں نااہل تو حکمران بنے لیکن شاید یہ کہنا خلافِ واقعہ ہو کہ ان میں سے کوئی کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ یا غدار تھا۔ مثال کے طور جنرل ضیاالحق کے عہدِ اقتدار میں پاکستان نے ایک ایسی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا جو اصلاً امریکی مفاد کے لیے لڑی گئی؛ تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے مفادات یکجا ہو گئے تھے جن کا تعلق سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ہم اس رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ کہنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے کہ جنرل ضیاالحق نے یہ جنگ امریکی ایجنٹ کے طور پر لڑی۔
اربابِ اقتدار کو جہاں یہ محسوس ہوا کہ پاکستان اور امریکی مفادات متصادم ہیں تو انہوں نے مزاحمت بھی کی۔ جنرل ضیا الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی مزاحمت کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔پاکستان کا ریاستی نظام کچھ اس طرح سے مرتب کیا گیا ہے کہ اس میں کسی غدار کے لیے حکومت یافوج کی سر براہی تک پہنچناناممکن ہے۔آج میر جعفر اور میر صادق‘ افسانہ تراشوں کے تخیل میں ہو سکتے ہیں‘سطحِ زمین پر نہیں۔ آج کا دن اس کی سب سے بڑی شہادت ہے۔
ماضی میں بدقسمتی سے ایک دور ایسا گزرا جب سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو غدار کہنا شروع کیالیکن پھر انہیں احساس ہونے گا کہ یہ وہ پتھرہے جو لوٹ کر آپ ہی کی طرف آتا ہے۔'میثاقِ جمہوریت‘ زبانِ حال سے اہلِ سیاست کا یہ اعتراف ہے کہ اس ملک میں کوئی غدار نہیں اور اس الزام تراشی کی اس سیاست کو اب ختم کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ‘بالغ نظر اہلِ سیاست کو اس بات کا کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سستی نعرہ بازی کو اختیار نہیں کیا۔ ہر حکومت کو امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کی طرف سے دباؤ آیا لیکن کسی نے اسے اشتہار نہیں بنایا۔اسے اپنے سینے میں دفن کر دیا۔ ایٹمی دھماکوں کے معاملے میں‘نوازشریف صاحب پر کتنا امریکی دباؤ تھا‘شاید ہی دنیا کبھی پوری طرح جان پائے۔
'یومِ تکبیر‘ ہمیںیاد دلاتاہے کہ یہ سنجیدہ اور باوقار سیاسی قیادت ہوتی ہے جو اپنی ذات پر دباؤ سہتی اور قومی مفاد کو قربان نہیں ہونے دیتی۔یہ دن بھی ان ہی قوموں کی زندگی میں آتے ہیں جو اپنا ہاتھ بالغ نظر اور صاحبانِ بصیرت کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔وہ ایسی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے۔جو خود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جن میں یہ حوصلہ ہوتا کہ ذات اور ملک میں سے اگر اسے کسی کا انتخاب کرنا پڑا توہ ملک کا انتخاب کرتی ہے۔
'یومِ تکبیر‘ یہ بھی سکھاتا ہے کہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ آج یومِ تکبیر ہے۔کاش ایساہوتا کہ پاکستان بھر کی سیاسی جماعتیں مل کر اجتماع کرتیں اور اس میں بھٹو صاحب اور نوازشریف صاحب سمیت ان سب شخصیات کو خراجِ تحسین پیش کرتیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹم قوت بنانے میں اساسی کردار ادا کیا۔