"KNC" (space) message & send to 7575

قربانی اور مہنگائی

جب معاشی مسائل اکثریت کو اس طرح گھیرے ہوئے ہوں کہ وہ نانِ جویں کے لیے پریشان ہو تو قربانی کا فریضہ کس طرح ادا کرنا چاہیے؟
یہ اسلام اور سیکولر ازم کی بحث نہیں‘ مذہب کے دائرے میں اٹھایا گیا ایک سوال ہے۔ اس لیے یہاں اس دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کہ یہ سوال اُس وقت کیوں نہیں پیدا ہوتا جب اللوں تللوں میں اور سیر سپاٹوں پرلاکھوں اڑا دیے جاتے ہیں۔ اس دلیل کو اُس وقت کے لیے اٹھا رکھنا چاہیے جب ہمارا سامنا کسی سیکولر فکرکے علم بردار سے ہو گا۔ یہ سوال تو اُن کے لیے ہے جو قربانی کو اللہ تعالیٰ کا ایک حکم سمجھتے ہیں‘ اس کا اہتمام کرتے ہیں۔
قربانی کے بارے میں اہلِ اسلام متفق ہیں کہ یہ ایک عبادت ہے جو دینی روایت کی حیثیت سے امت میں جاری کی گئی ہے۔ یہ اس دینی روایت کا حصہ ہے جو انبیا کی مشترکہ میراث ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ایک نئے مذہبی دور کا آغاز ہوا جب نبوت کواولادِ ابراہیم میں خاص کر دیا گیا۔ نبی کریمﷺ اس روایت کے وارث اور خاتم ہیں۔ آپﷺ نے اس روایت کی نہ صرف توثیق کی بلکہ اس کو بدعتوں سے پاک کرتے ہوئے‘ اس کی تجدید فرمائی اور اپنی تصدیق کے ساتھ‘ اسے مسلمانوں میں جاری فرما دیا۔ قربانی دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خدا کے حضور میں پیش کی گئی نذر کی یادگار ہے‘ جسے ذبحِ عظیم کی صورت دے کر اجتماعی روایت کا حصہ بنا دیا گیا۔
مذہبی حلقے اس کے بھی قائل ہیں کہ اس روایت کو بہر صورت زندہ رکھنا مسلم سماج کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ وہ انفاق فی سبیل للہ کے کسی دوسرے طریقے کو قربانی کا متبادل نہیں سمجھتے۔ قربانی سے‘ سب کی مراد حلال جانور کو اللہ کے رسولﷺ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق خدا کی راہ میں قربان کر نا ہے۔ اچھے جانور کے انتخاب کے ساتھ‘ اس کے آداب ہیں جو رسالت مآبﷺ نے امت کو سکھا دیے۔ قرآن مجید نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جانوروں کا خون بہانا یا گوشت جمع کرنا‘ اس کا مقصودِ اصلی نہیں ہے۔ یہ ایک مردِ مومن کی طرف سے اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ جان جیسی نعمت کو بھی‘ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا پڑا تو وہ اس سے دریغ نہیں کر ے گا۔
دین کے باب میں ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم اس میں افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں اکثر دین کی روح پس منظر میں چلی جاتی ہے اور ظواہر پر اصرار بڑھ جا تا ہے۔ اس کی سب سے قابلِ افسوس صورت نمائش ہے۔ عبادت کو سماجی تفاخر کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے‘ بالخصوص اس وقت جب اس میں وسائل شامل ہوں۔ نماز کے لیے اہتمام نہیں ہوتا لیکن مساجد بنانے کے لیے جوش و خروش کا اظہار ہوتا ہے۔ روزے پر افطار پارٹی کو ترجیح دی جا تی ہے۔ یہی معاملہ قربانی کا بھی ہے۔ یہ عبادت کیوں ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کس ادا کا بیان ہے‘ یہ بات اب اضافی ہے۔ اہمیت اس کو دی جاتی ہے کہ قربانی کے لیے خریدا گیا جانورکتنا قیمتی ہے۔
دوسری بات کسی نفل کو فرضیت کا درجہ دینا ہے۔ قربانی ایک نفلی عبادت ہے اور اس کو ایک روایت کی صورت میں زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایک صاحبِ حیثیت کے گھر میں دس دس جانور قربان ہوں اور وہ بھی ایسے حالات میں جب معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے محتاج ہو۔ قربانی اگر خدا کی رضا کے حصول کے لیے ہے تو یہ دیکھنا لازم ہے کہ اس کی رضا کہاں کہاں مستور ہے اور اس میں ترجیح کسے حاصل ہے۔
آج ہر گھر کو اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ انفاق فی سبیل للہ کی مد میں اس کی ترجیحات کس طرح متعین ہوں۔ قربانی نفل ہے لیکن ہمسائے اور رشتہ داروں کے حقوق فرضیت کے درجے پر ہیں۔ میری تجویز ہو گی کہ ہر گھر میں جہاں قربانی دینے کی خواہش پائی جاتی ہے‘ اہلِ خانہ مل بیٹھیں اور یہ دیکھیں کہ کون کون قربانی دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر چار افراد اس کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کے لیے رقم جمع کی جائے۔ اس سے ایک اچھا جانور خریدا جائے ا ور تمام گھرانے کی طرف سے قربانی دی جائے۔ باقی رقم کو ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے جو اس کے مستحق ہیں۔
دین کی ہدایت یہ ہے کہ جو رشتے اور تعلق میں‘ آپ سے سب سے زیادہ قریب ہے‘ وہ سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی ضروریات کی تکمیل کی جائے۔ یہ کام اس طرح سے ہو کہ اس کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ آج سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا سب سے مشکل ہے۔ اس بھرم کو باقی رکھنے میں‘ ان لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کی مدد کرنی چاہیے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے اور اس کی رضا کے طالب ہیں۔ اگر ہر گھر کی سطح پر یہ فیصلہ ہو اور عید سے ہفتہ عشرہ پہلے ایک فریضہ جانتے ہوئے‘ رشتہ داروں کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ عید کے اخراجات اٹھا سکیں تو مجھے پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ 'قربانی‘ پورے اجر و ثواب کی مستحق ہوگی۔
اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بھائی قربانی دینا چاہتا ہے لیکن اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ ان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سال ہم اپنی قربانی آپ کے گھر کریں گے۔ آپ ان کو جانور خریدنے اور اپنے گھر میں ذبح کرنے کہ ذمہ داری سونپ دیں اور اپنے حصے کا گوشت لے آئیں۔ اس طرح ان کا بھرم قائم رہے گا اور وہ کسی نفسیاتی دباؤ سے بھی محفوظ رہیں گے جو ایسے موقعوں پر کم وسائل لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
آج ہم معاشی طور پر بدترین صورتِ حال کا شکار ہیں۔ میں بارہا توجہ دلا چکا کہ کوئی حکومت عام آدمی کو درپیش ان مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں کر سکتی جو فوری توجہ چاہتے ہیں۔ یہ کام معاشرے کو کرنا ہوگا۔ اس کے لیے مواخات کی طرز پر سماجی وسائل کو مجتمع کرنا ہوگا۔ قربانی اس کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس کو اگر اس کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ دنیا اور آخرت میں‘ ان شاء اللہ اجر کا باعث ہوگا۔
تیسری اہم چیز صفائی جیسے معاشرتی آداب ہیں۔ لوگ کئی دن پہلے جانور خرید لیتے اور اسے گلیوں میں باندھ دیتے ہیں۔ انہیںاس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس سے ان کے ہمسایوں کو کیا تکلیف پہنچ رہی ہے۔ گندگی اور بُو تو ایسے نتائج ہیں کہ ہر راہ گزر ان کاشکار ہوتا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ نیکی کمانے کے شوق میں‘ کہیں ہم عذاب کے اسباب تو نہیں جمع کر رہے؟ ایک نظر ان حقوق پر ڈال کر‘ اس بارے میں فیصلہ کیجیے جو دین نے ہمسایوں کو دے رکھے ہیں۔
اس کا ایک اچھا حل یہ ہے کہ ایسے اداروں کی خدمات سے استفادہ کیا جائے جو اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر ان کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے تو ہم اپنے محلوں وغیرہ کو صاف رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح کھالیں ان کو دے کر ان کے فلاحی منصوبوں میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اس سال قربانی کی روایت کو اسی جذبے کے ساتھ زندہ رکھ سکیں جس کا مظہرِ اوّل سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ یہ گوشت اور خون بہانا نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں