طالبان‘افغانستان کی اسلام پسند (Islamist)تحریک ہے یا مذہبی رجحان رکھنے والا ایک افغان قوم پرست (Afghan Nationalist) گروہ؟
''اسلام پسند‘‘اس نظریاتی تحریک کے لیے مستعمل اصطلاح ہے جو اسلام کے عالمگیر سیاسی غلبے کے لیے برپا ہوئی اور جس نے ابتدا میں مختلف مسلمان اکثریتی ملکوں کو اپنی جد وجہد کا ہدف بنایا۔ پیشِ نظر یہی تھا کہ پہلے مرحلے میں خود مسلمانوں کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے متحرک ہوں اورایک نظریاتی رشتے میں ایک دوسرے سے وابستہ ہوں۔
'اسلام پسند‘ امتِ مسلمہ کو ایک سیاسی وحدت سمجھتے اور اس کا خواب دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک سیاسی نظم کا حصہ بن جائیں۔ یہ نظم عالمگیر خلافت ہو سکتی ہے اور مسلم ریاستوں کا کوئی اتحاد بھی۔ یہ تصور ایرانی و تورانی شناخت کی نفی کرتے ہوئے‘نظریے کو قومیت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی نے اس 'مسلم قومیت‘ کو بہت مؤثر انداز میں بیان کیا ہے؛ تاہم دونوں کے ہاں تفصیلات میں فرق ہے۔ علامہ اقبال ہر مسلمان کو اس قومیت کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ مولانا مودودی کے نزدیک مردم شماری کے رجسٹر میں بطور مسلمان نام درج کرا دینے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا۔ اسلام کوئی نسلی مذہب نہیں اور'مسلمان ‘ایک اسمِ صفت ہے۔ مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو چند خصوصیات کا حامل ہو۔ کیا طالبان بھی ایسی کسی نظریاتی تحریک میں شامل ہیں اور کیا وہ بھی انہی خطوط پر سوچتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ طالبان نے اپنے آپ کو کبھی کسی ایسی تحریک کاحصہ نہیں کہا۔ انہوں نے خود کو ہمیشہ افغانستان کی سیاست تک محدود رکھا ہے ا ور ایسی ہر تحریک سے دور رہے ہیں۔ القاعدہ کے ساتھ بھی انہوں نے کبھی کسی نظریاتی وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے لیے انہوں نے کوئی نظریاتی دلیل نہیں دی بلکہ اپنے موقف کے حق میں افغان روایت کو پیش کیا ہے کہ وہ گھر آئے مہمان کو جانے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔
اس کے باوصف‘ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ افغانستان کی تحریکِ طالبان‘ایک اسلامی تحریک ہے۔ طالبان جب مشکل میں تھے تو ان لوگوں کا کہنا تھا کہ امتِ مسلمہ کا حصہ ہوتے ہوئے‘ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ان کا ساتھ دیا جائے۔ اس کے حق میں دینی نصوص کو بھی پیش کیا جاتا رہا۔ پرویز مشرف کا اصل جرم ان کے خیال میں یہی تھا کہ انہوں نے اہلِ اسلام کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا۔ افغان طالبان کے ہاں اس باب میں کبھی کوئی ابہام نہیں تھا۔ اگر کسی کے ذہن میں ایسا کوئی خیال موجود تھابھی تو افغانستان کی وزارتِ پٹرولیم کے ترجمان نے اپنے ایک انٹرویو میں اسے دور کر دیا ہے اور ہر ابہام کا ازالہ کر دیا ہے۔
یہ انٹرویو ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر ویڈیو کی صورت میں موجود ہے۔ یہ پشتو میں ہے جسے اردو زبان میں بھی درج کر دیا گیا ہے۔ اس انٹر ویو میں انہوں نے دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے کسی سیاسی تصور پر یقین نہیں رکھتے۔ امتِ مسلمہ تو دور کی بات‘وہ پاکستان کے بارے میں احسان مندی کا کوئی جذبہ بھی نہیں رکھتے۔ اگر پاکستان کسی مشکل میں مبتلا ہے تو یہ ان کا سروکار نہیں۔ پاکستان‘اہلِ پاکستان کی سردردی ہے‘ان کی نہیں۔ وہ اگر پاکستان سے کوئی معاملہ کریں گے تو افغانستان کا مفاد ان کی پہلی ترجیح ہوگا۔ پرویز مشرف کے الفاظ مستعار لیں تو'افغانستان فرسٹ‘۔
اس انٹر ویو کا ایک پس منظر ہے۔ پاکستان ان دنوں توانائی کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے ہمیں گیس کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس کا بر وقت انتظام نہیں کر سکا۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے‘ آج عالمی مارکیٹ میں گیس کی قیمتیں اتنی بڑھ چکیں کہ پاکستان کے لیے خریدنا ممکن نہیں۔ پاکستان کے پاس اتنے ڈالر بھی نہیں ہیں کہ وہ گیس پر خرچ کر سکے۔
پاکستان کو شدت کے ساتھ کسی متبادل کی تلاش ہے۔ یہ متبادل کوئلہ ہے۔ پاکستان‘کوئلے کی زیادہ تردرآمد جنوبی افریقہ سے کرتا ہے جو وہاں کی سیاسی بد امنی کے باعث متاثر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے 28 جون کویہ خوش خبری سنائی کہ ہم نے متبادل کا انتظام کر لیا ہے اور اب ہم افغانستان سے کوئلہ لیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف یہ کوئلہ ہمیں جلدی مل جائے گا بلکہ ہم ڈالر کے بجائے روپے میں ادائیگی کریں گے جس سے زرِ مبادلہ بھی خرچ نہیں ہو گا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو مبارک باد بھی دی جس نے تین ہفتے دن رات ایک کرتے ہوئے‘یہ متبادل انتظام کیا۔
افغانستان کی وزارتِ پٹرولیم کے ترجمان سے جب ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے دعوے کو مسترد کر دیا اور یہ بتایا کہ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ''ہمارے لیے پاکستان اور ان کے کوئلے کی ضرورت اہم نہیں ہے۔ ہمارے لیے مقامی تاجر اہم ہیں اور ہم ان کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ مقامی تاجر جس ملک کو بھی چاہیں‘کوئلہ بھیج سکتے ہیں لیکن بیرونِ ملک کوئلہ برآمد کرنے پر ہم نے ان پر ڈیوٹی عائد کر دی ہے‘‘۔
شہباز شریف صاحب نے کہا تھا کہ اس کوئلے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ اس پر افغانستان میں کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ ہمیں پاکستان کا مفاد عزیز ہے یاافغانستان کا؟اس ردِ عمل پرجب ترجمان سے پوچھا گیاتو انہوں نے کہا: ''پاکستان کو ان (شہباز شریف صاحب )کے بیان پرہماری طرف سے اور افغان عوام کی طرف سے آنے والے ردِ عمل کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ہم نے انتقام کے طور پر کوئلے کی فی ٹن ڈیوٹی نوے ڈالر سے بڑھا کر‘اب دوسوڈالر کر دی ہے‘‘۔ یہ ہے امتِ مسلمہ کا وہ تصور جس پر افغان طالبان یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کو مشکل میں دیکھ کر انہوں نے نہ صرف خالصتاً کاروباری ذہنیت کے ساتھ کوئلے کے نرخ بڑھا دیے بلکہ پاکستان کی بد حال معیشت پر طنز بھی کیا؛ترجمان نے کہا: ''پاکستان کی اقتصادی قمیص اتنی پھٹی ہوئی ہے کہ اس میں افغانستان سے ملنے والے کوئلے سے‘چند ملین ڈالرکے فائدے سے‘ رفو نہیں ہو سکتی‘‘۔
یہ افغان نیشنلزم ہے‘طالبان جس کے علم بر دار ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ امتِ مسلمہ اور اسلامی بھائی چارے کے جوتصورات منسوب ہیں‘یہ ان کے پاکستانی وکلا کی حاشیہ آرائی ہے۔ اصل متن میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ طالبان چونکہ مذہبی پس منظر رکھتے ہیں‘اس لیے اپنے ملک میں وہ جو قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘وہ ان کے فہمِ اسلام پر مبنی ہے۔ اسی لیے وہ افغانستان کو امارتِ اسلامی کہتے ہیں۔ اس کو وہ ایک داخلی مسئلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں‘ نہ کہ عالمگیر اسلامی انقلاب کے کسی ابتدائی مرحلے کے طورپر۔ وہ قومی ریاست کے جدید تصور پر یقین رکھتے ہیں جس کی اساس نسلی اور جغرافیائی ہے۔ اس باب میں ان کے اورپرویز مشرف کے نقطہ نظر میں کوئی فرق نہیں۔
مجھے اس پرافغان طالبان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ احسان فراموشی کا بھی گلہ نہیں کہ آج پاکستان اگر ساری دنیا کی نظروں میں معتوب ہے توطالبان کا حمایتی ہونے کی وجہ سے۔ یہ دنیااسی طرح ہے۔ میرے نزدیک افغان طالبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات میں سوچیں اوراس کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں میںیہ شعور کب آئے گا؟