عمران خان صاحب کو ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے دو ماہ سے کچھ دن اوپر ہوگئے۔ صدر جوبائیڈن کا فون ابھی تک نہیں آیا
شہباز شریف صاحب نے تو کبھی ''ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ نہیں کہا۔ امریکی غلامی سے نجات کی تحریک بھی نہیں اٹھائی۔ امریکی استعمار سے لڑنے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ خود کو عہدِ حاضر کا چے گویرا نہیں کہلوایا۔ ہمیشہ امریکہ سے دوستی کی بات کی۔ اس کے باوجود‘ امریکی صدر کا دل کیوں نہ پسیجا؟ نہ صرف دل نرم نہیں ہوا بلکہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں حکومت کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ماجرا کیا ہے؟
مہنگائی کے ہاتھوں مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ جو اس نے بویا نہیں‘ اسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔ کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ نہ امریکہ نہ اس کے حواری۔ سعودی عرب اور چین ہیں جو کچھ نہ کچھ دوستی کا بھرم رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ تو کسی نے دلاسہ تک نہیں دیا۔ اور تو اور طالبان نے بھی طنز کیا۔ دوسری طرف امریکی سینیٹرز آتے ہیں تو بنی گالا سلام کرتے ہیں۔ برطانوی سفیر بھی وہیں جاتاہے۔ آخر ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کا ہاتھ کوئی کیوں نہیں تھامتا؟
اسے طنز نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ اس سے اگر چہ خان صاحب کا موقف بھی چیلنج ہوتا ہے لیکن اس وقت میرے پیشِ نظر معاملے کا دوسرا پہلو ہے۔ موجودہ حکومت امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم کی خواہش مند ہے لیکن صدر بائیڈن نے وزیراعظم پاکستان کو اس قابل نہیں جانا کہ رسمی فون ہی کر دیں۔ سفارتی تعلقات اپنی جگہ قائم ہیں مگر ان میں گرم جوشی نہیں ہے۔ سرد مہری ہے اور بے اعتنائی ہے۔
امریکہ اس وقت پاکستان سے ناراض ہے۔ اس کی ناراضی کسی فرد سے نہیں‘ ریاست سے ہے۔ امریکی انتظامیہ کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ پاکستان میں کس جماعت کی حکومت ہے۔ امریکی قیادت یہ جانتی ہے کہ ریاست کے فیصلے کل پارلیمنٹ میں ہوتے تھے نہ آج۔ عوام کے منتخب نمائندے کسی پالیسی کی تشکیل میں شریک نہیں۔ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی جاتی امرا کی یاترا ہو یا عمران خان صاحب کا دورۂ روس‘ کوئی وزیراعظم نہ اپنی پسند سے مہمان بنتا ہے نہ میزبان۔ یہ ریاست کی سطح پر ہونے والے فیصلے ہیں۔امریکہ ریاستِ پاکستان سے ناراض ہے اور اس کی ایک وجہ ہے۔ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس‘ اس پر متفق ہیں کہ امریکہ کو اگر افغانستان میں ہزیمت اٹھانا پڑی تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ بے پناہ وسائل کے زِیاں کے باوجود‘ امریکہ کو افغانستان کا اقتدار طالبان کے حوالے کرنا پڑا۔ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان اگر برسوں تک مزاحمت کرتے رہے تو اس کا سبب پاکستان ہے۔ کوئی گوریلا مزاحمت پنپ نہیں سکتی اگر سر حد کے پار اس کے سہولت کار نہ ہوں۔یہ مقدمہ درست ہے یا غلط‘ اس سے قطع نظر‘ امریکی یہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے امریکہ کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے والے پاکستان کے بارے میں ہمدردانہ جذبات نہیں رکھتے۔ تاہم‘ وہ جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کوئی جذباتی معاملہ نہیں۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ملک کے طور پر خطے میں موجود ہے جس کے چین سے دیرنیہ تعلقات ہیں۔ ایسے ملک سے نہ تو قطع تعلق کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی ترقی ہی میں مدد گار بنا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ‘ یہ بھی واقعہ ہے کہ پاکستان کے معاشی و عسکری مفادات امریکہ سے وابستہ ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے‘ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘ آج مگر ہم امریکہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ ہم آج ایک ایسی بند گلی میں ہیں جس سے صرف آئی ایم ایف ہی ہمیں نکال سکتا ہے۔ اس قفل کی کنجی امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ چین ابھی اس جگہ نہیں پہنچا کہ امریکہ کا متبادل بن سکے۔ امریکہ کو ہماری اس مجبوری کا علم ہے۔ اس کے ساتھ‘ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں‘ ورنہ ان میں امریکہ کا مخالف کوئی نہیں۔
عمران خان صاحب نے اس سارے معاملے کو‘ اپنی افتادِ طبع کے مطابق‘ ذاتی انا کی جنگ بنا دیا۔ جب انہیں صدر جوبائیڈن نے فون نہیں کیا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ اس کا تعلق عمران احمد خان نیازی نام کے کسی آدمی سے ہے۔ درآںحالیکہ یہ وزیراعظم پاکستان کے منصب سے بے اعتنائی تھی۔یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ اس دوران امریکہ نے ریاست کے دوسرے اور حقیقی مرکزِ اقتدار کے ساتھ اپنے رابطوں میں کوئی کمی نہ آنے دی کہ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا تھا۔
امریکہ ایک طرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور دوسری طرف ایک عالمی قوت کے طور پر اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش بھی کر تا ہے جو جمہوریت جیسی بعض اقدار کا علم بردار ہے۔ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک منافقانہ روش ہے۔اگر اس کا مفادمتقاضی ہو تو وہ جمہوریت کو خاطر میں لاتا ہے نہ بنیادی انسانی حقوق کو اور نہ مذہبی آزادی کو۔ مشرقِ وسطیٰ اور بھارت کے حوالے سے امریکی پالیسی اس کی دلیل ہے؛ تاہم وہ ظاہری لبادہ ضرور اوڑھے رکھتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ بظاہر جمہوریت کا علم اٹھا رکھا ہے مگر ساز باز غیرجمہوری قوتوں سے کی جاتی رہی ہے۔
پرویز مشرف کے عہد میں صدر کلنٹن کی دورۂ پاک بھارت کی یاد تازہ کیجیے۔ کلنٹن پاکستان آئے مگر پرویز مشرف سے ہاتھ نہیں ملایا۔ یہ پرویز مشرف کا معاملہ نہیں تھا‘ اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ امریکہ کو مارشل لا قبول نہیں۔ دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرف امریکہ کے کتنے قریب رہے اور کس طرح ان کے اقتدار کی تمام مدت میں انہیں امریکی تائید حاصل رہی۔آج خان صاحب کو ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہو گئے لیکن صدر جو بائیڈن نے نئے پاکستانی وزیراعظم کو فون نہیں کیا۔ اگر یہ انتقالِ اقتدار اس کی مرضی سے تھا تو پھر امریکہ نئی حکومت پر واری جاتا۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کے روابط عمران خان صاحب سمیت سب اہلِ سیاست اور اقتدار کے مراکز سے قائم ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کسی فردِ واحد کے گرد نہیں گھوم رہی۔ اس کے اپنے مفادات ہیں اور اس کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی ریاستی پالیسی اس کے مفادات میں حائل رہی ہے۔ آج وہ اعلان کیے بغیر پاکستان کواس کی سزا دینا چاہتا ہے۔ پاکستان کی قیادت کے لیے آج اصل امتحان یہ ہے کہ وہ خود کو امریکی ناراضی کا ہدف بنانے سے محفوظ رکھے اور ساتھ ہی اپنے وقار کا بھی لحاظ رکھے۔
کبھی کبھی اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب نے اس معاملے کو ذات کے حصار سے نکل کر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ خواجہ آصف صاحب کی بات درست ہے یا نہیں‘ لیکن اگر تحریکِ انصاف نے امریکہ سے رابطہ کیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ خان صاحب خود بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے مخالف نہیں۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اگر وہ اس موقف پر قائم رہتے ہوئے امریکہ سے تعلق کی تجدید کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ خان صاحب کی تنقید کا مرکزی ہدف اب داخلی مراکزِ قوت بن رہے ہیں۔ امریکہ اب پس منظر میں جا رہا ہے۔ امریکہ کا ذکر اب اتنا ہی رہے گا جتنا ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی طرح پاکستانی عوام بھی اگر حقیقت پسند ہو جائیں تو ان کے مذہبی اور سیاسی جذبات کا استحصال مشکل ہو جائے۔ دیکھیے یہ مرحلہ کب تک طے ہو تا ہے۔