کل جو نواز شریف صاحب کا بیانیہ تھا‘ کیا اس کا عَلم‘ آج عمران خان صاحب نے اٹھا لیا ہے؟ اس سے متصل ایک اور سوال بھی ہے۔ کیا نواز شریف صاحب اپنے بیانیے سے دست بردار ہو چکے؟
ظاہری مشابہت سے‘ لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کیونکہ دونوں کا ہدف ایک ہے۔ امرِ واقعہ یہ نہیں۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ یہ ہے کہ نیوٹرلز کو نیوٹرل رہنا چاہیے۔ اقتدار کے بناؤ اور بگاڑ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ آئین کا تقاضا ہے۔ یہ حق عوام کا ہے اور انہی کو ملنا چاہیے۔ خان صاحب کا بیانیہ ہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ نیوٹرلز کو میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ دونوں کو ایک ہی سے شکایت ہے مگر اس شکایت کی نوعیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ان دونوں بیانیوں میں غلط اور صحیح کی تمیز مشکل نہیں ہے۔ کوئی چاہے تو نواز شریف صاحب کی اپنے بیانیے کے ساتھ وابستگی پر سوال اٹھا سکتا ہے مگر ان کے بیانیے کی صحت کی بابت دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ جمہوریت نام ہی اس کا ہے کہ ملک کے معاملات عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہوں اور سب اس سماجی معاہدے میں طے شدہ اپنی حدود کا احترام کریں‘ جسے آئین کہتے ہیں۔
نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ عوام کی رائے پر اثر انداز نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ووٹ کسی اور کو دیں اور جیت کا ہار کسی اور کے گلے میں ڈال دیا جائے۔ امیدواروں کا انتخاب سیاسی جماعتوں کی قیادت کرے نہ کہ یہ فہرست کہیں اور مرتب ہو اور پارٹی لیڈر کے ہاتھ میں تھما دی جائے۔ عمران خان صاحب کو اس سے اتفاق نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج بھی اسی طرح میرا ساتھ دیا جائے جیسے کل دیا گیا تھا۔ ان کی دلیل یہ نہیں ہے کہ یہ آئین یا جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے۔ دلیل ہے کہ چونکہ میں حق پر ہوں‘ اس لیے عوام اور ریاستی اداروں پر فرض ہے کہ میرے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
جمہوریت کا تقاضا مختلف ہے۔ وہ نواز شریف صاحب کے بیانیے کی تائید کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں پہلے دن سے نواز شریف صاحب سے منسوب بیانیے کے ساتھ کھڑی ہوتیں تو آج ہم عمرِ رائگاں کا ماتم نہ کر رہے ہوتے۔ نواز شریف صاحب جن نتائجِ فکر تک 1990ء کی دہائی میں پہنچے‘ اگر 1980ء کے ابتدائی ماہ و سال میں پہنچ جاتے تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ غنیمت ہوئی کہ دو بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے تجربات سے سیکھا اور ''میثاقِ جمہوریت‘‘ پر اتفاق کیا۔ اب اس سے پہلے کہ اقتدار پر سیاسی جماعتوں کی گرفت مضبوط ہوتی‘مقتدر حلقوں نے 'تیسری قوت‘ کا جال پھینکا۔ عوام کو جھانسا دیا گیا اورکرپشن کو ذرائع ابلاغ کے بے دریغ استعمال سے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی یہ باور کرایا گیا کہ اس کرپشن کا ماخذ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس کرپشن کے خاتمے کیلئے اس قوم کو تیسری قوت کی ضرورت ہے۔
یہ تیسری قوت انہی کندھوں پر سوار تھی‘ جس پر بڑی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ‘ پہلے سواری کر چکی تھیں اور منہ کے بل گر بھی چکی تھیں۔ 2014ء سے تیسری قوت کیلئے مہم پوری آب و تاب کے ساتھ شروع ہوئی اور 2018ء کے انتخابی نتائج کی صورت میں اس کا آخری باب رقم ہوا۔ تیسری قوت کے تصور نے ''میثاقِ جمہوریت‘‘ کے تصور کو دھندلا دیا۔ اپنے ہی 'اقوالِ زریں‘ کو دہرانا خوش ذوقی نہیں لیکن ان کالموں میں خان صاحب کو یہ توجہ دلائی گئی تھی کہ ان کا فطری اتحاد سیاسی جماعتوں ہی سے ہو سکتا ہے۔ جو غلطی پہلے کی جا چکی‘ آپ اسے نہ دہرائیں۔ مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں نیوٹرلز سے اتحاد کیا تو نقصان اٹھایا اورپھر وہ دن آیا کہ اسے اپنی بقا کی جنگ میں پیپلز پارٹی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انسان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتا‘ خود تجربہ کرتا اور اسی نتیجے تک پہنچتا ہے‘ جس پر پہلے پہنچے ہوتے ہیں۔
خان صاحب مگر اس نتیجے تک نہیں پہنچے‘ اگرچہ فواد چوہدری صاحب پہنچ گئے۔ تحریکِ انصاف میں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ دوسروں سے کہیں بہتر ہے۔ الفاظ کے چناؤ سے ممکن ہے کسی کو اختلاف ہو مگر ان کا مؤقف اصولاً درست ہے۔ یہی نواز شریف کا بیانیہ بھی ہے۔ خان صاحب کا بیانیہ مگر یہ نہیں ہے۔ وہ آج بھی سیاسی جماعتوں کے بجائے نیوٹرلز سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ساتھ ہی عدالتوں کو پکار رہے ہیں۔ وہ اب بھی نہیں جان سکے کہ ان کے غموں کا مداوا اہلِ سیاست کے پاس ہے۔ شفاف انتخابات کا بیانیہ سیاسی ماحول ہی میں پروان چڑھ سکتا ہے جو سیاسی جماعتیں بناتی ہیں۔ اگر سیاسی مخالفین کے خلاف نیوٹرلز سے مدد مانگی جاتی رہی تو پھر اس کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اقتدار کا اصل مرکز اپنی جگہ برقرار رہے گا‘ صرف اس تبدیلی کے ساتھ کہ اس کے اتحادی بدلتے جائیں گے۔
جمہوریت کا مقدمہ اہلِ سیاست نے لڑنا ہے اور یہ انہی کو زیبا ہے۔ ان کی کرپشن کے بارے میں آج جتنی مبالغہ آرائی کریں‘ سیاست کے فطری پاسبان وہی ہیں۔ سیاست دان جب یہ چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے ان کی تائید میں کھڑے ہو جائیں تو دراصل وہ خود کو کمزور اور غیرجمہوری قوتوں کو مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک غلطی نواز شریف صاحب نے کی جب پاناما لیکس سامنے آئے۔ اُس وقت پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھا کہ اس پر تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔ نواز شریف صاحب نے اس کو قبول نہیں کیا اور عدالت کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالتوں میں رُل رہی ہیں۔ پارلیمنٹ جو آئین کے نزدیک قوت کا مرکز ہے‘ آج دوسروں کے رحم وکرم پر ہے۔ پنجاب کو دیکھ لیجیے۔ جو فیصلے اسمبلی میں ہونے تھے‘ اب عدالت میں ہور ہے ہیں۔
تاریخ نے بار بار بتایا ہے کہ جب کسی کے ہاتھ میں طاقت آ جاتی ہے تو پھر وہ آسانی سے واپس نہیں کرتا۔ اس کو چھینا جاتا ہے اور اس کی ایک قیمت ہوتی ہے جو اکثر بھاری ہوتی ہے۔ یورپ نے کلیسا‘ جاگیردار اور بادشاہ سے اقتدار لینے کیلئے برس ہا برس جدوجہد کی۔ اقتدار کا خون ان کے منہ کو لگ چکا تھا۔ یہ نشہ اتارنے میں صدیاں لگیں۔
عمران خان صاحب کی سیاست غلطی ہائے مضامیں کا انبار ہے۔ سیاست کی باگ ان کے ہاتھ میں تھی جب تک معاملہ پارلیمنٹ کے پاس تھا۔ پارلیمانی جماعتیں ان کے ساتھ تعاون کیلئے آمادہ تھیں۔ وہ بہ آسانی پانچ سال پورے کر سکتے تھے۔ انہوں نے مگر بار ہا اپوزیشن کی پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ تکیہ کسی اور پر کیا اور پھر وہی پتے ہوا دینے لگے۔ آج کیفیت یہ ہے کہ ' پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘۔
خان صاحب کو واضح ہونا ہوگا کہ وہ غیر جمہوری قوتوں سے اقتدار کی بھیک چاہتے ہیں یا ملک میں جمہوریت؟ غیرجمہوری قوتوں سے جمہوریت کی بھیک نہیں ملتی‘ اقتدار میں شرکت کی خیرات مل سکتی ہے۔ خان صاحب اپنے حصے کی خیرات وصول کر چکے۔ وہ انہیں دوبارہ اقتدار دلا سکتے ہیں‘ مگر اس بار زیادہ کڑی شرائط پر۔ شفاف انتخابات کیلئے انہیں سیاسی جماعتوں ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ انہیں 'میثاقِ جمہوریت‘ کا حصہ بننا ہوگا۔ ان کو وہی بیانیہ اپنانا ہوگا جو نوازشریف صاحب کا بیانیہ ہے۔
نواز شریف صاحب کا بیانیہ تو موجود ہے مگر وہ خود کہاں ہیں؟ کیا آج بھی ان کا بیانیہ وہی ہے؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن وہ بہت دنوں سے خاموش ہیں۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ آج (ن) لیگ کا بطورِ جماعت بیانیہ وہی ہے جو شہباز شریف صاحب کا ہے۔ یہ بیانیہ ظاہر ہے کہ نواز شریف صاحب کے بیانیے سے مختلف ہے۔