نظام ایک طاقتور وجود ہے جس کی جڑیں پاتال میں ہیں۔ اسے بدلنا آسان نہیں۔ وہ لوگ تو کسی طور اسے نہیں بدل سکتے جن کا مفاد نظام کے ساتھ وابستہ ہو۔
آج ملک میں بالفعل قومی حکومت قائم ہے۔ مرکز میں سب جماعتیں شریکِ اقتدارہیں‘ سوائے تحریکِ انصاف کے۔ نظام نے اس کی تلافی یوں کی کہ پنجاب‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اور کے پی میں تحریکِ انصاف کا حقِ اقتدار باقی رکھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو اور جو رہ گیا‘ اسے بلوچستان میں شریکِ حکومت بنا دیا گیا۔ ریاستی اداروں کا اقتدار میں وہ حصہ بدستور موجود ہے جو ماضی میں انہیں حاصل رہا۔ حصہ کیا‘حصہ تو دوسروں کو دیا جاتا ہے جو دے دیا گیا۔
اب ایسا نہیں ہے کہ عوام کے دکھوں کا سبب کوئی ایک جماعت ہے یا تنہا ایک جماعت ان دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے۔ تعلیم یا صحت جیسے معاملات آئین نے صوبائی حکومتوں کو سونپ دیے ہیں۔ پنجاب یا کے پی میں اگر لوگ علاج سے محروم ہوتے ہیں یا انہیں تعلیمی مسائل کا سامنا ہے تو اس کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہوگی جس کی باگ تحریکِ انصاف کے ہاتھ میں ہے۔ اگر روپے کی قدر میں گراوٹ ہے تو اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جس میں بڑا حصہ نون لیگ کا ہے۔ خارجہ پالیسی میں کوئی کجی ہے تو اس کا جواب اُن سے لینا چاہیے‘ امریکہ جن کی بات پر وزیراعظم کی بات سے زیادہ اعتماد کرتا اور وزیراعظم بھی سفارش کے لیے ان سے رجوع کرتا ہے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے‘ سب اپنی اپنی جگہ اس میں حصہ دار ہیں۔ چند ماہ پہلے سندھ کی حکومت کے علاوہ سب کچھ تحریکِ انصاف کے پاس تھا۔ گزشتہ چار برسوں کی تمام تر ذمہ داری اس جماعت کے کندھوں پر ہو گی یا پھرمقتدرہ پر جن کا اقتدار مستقل بالذات ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں تعلیم اور صحت جیسے معاملات میں خرابی کا ذمہ دار کسی اورکو نہیں ٹھہرا سکتی۔
بلوچستان کے باسیوں پر قیامت گزر گئی۔ آج کا سیلاب دراصل ماضی کی کارکردگی کا امتحان ہے۔ اگر گزرے کل میں بارشوں کے اثرات سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیا گیا ہوتا تو آج کے نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ جیسے ڈیم بنائے ہوتے۔ یا ایک مؤثر مدافعتی نظام ترتیب دیا گیا ہوتا۔ کچھ کام ہیں جو آج کیے جانے ہیں۔ جیسے کوئی زخمی ہے تو اسے علاج فراہم کیا جائے۔ خوراک کی کمی ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔ اب کوئی کل حکمران تھا اور کوئی آج ہے۔ سب عوام کی عدالت میں جواب دہ ہیں اور خدا کے حضور بھی۔
عوام کو‘ اب اس صورتحال کو سمجھنا ہوگا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک آدمی اس نظام سے مستفید ہونے والوں میں سرِ فہرست ہے اور ساتھ ہی خود کو نظام کا باغی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ حیرت در حیرت ہے کہ ایک طبقہ اس بات کو درست بھی مان رہا ہے۔ وہ 'رجیم چینج‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو باور کراتا ہے کہ وہی تو ہے جو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ عالمی قوت تو اسی کے درپے تھی۔ کیوں تھی؟ متاثرین یہ سوال نہیں پوچھتے کہ ان بے چاروں کی یہ صلاحیت ہی سلب کر لی گئی ہے۔ وہ آج بھی خیال کرتے ہیں کہ ان کے رہنما کو نظام کی اطاعت نہ کرنے کی سزا دی گئی ہے۔
نظام کی اطاعت تو سب کو کرنی ہے اور سب کرتے ہیں۔ عدم اطاعت کی جسارت تو کوئی نہیں کرتا‘ البتہ عہد شکنی ضرور کرتا ہے‘ جس کی سزا ملک کے عوام کو ملتی ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ عوام میں مقبول بھی ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف ہی کی مثال دیکھ لیجیے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا۔ آئی ایم ایف نے قسطوں میں ہمیں چھ بلین ڈالر قرض دینا تھا۔ ہر قسط سے پہلے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان نے اُن کی شرائط کو پورا کیا یا نہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اُن کی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ یوں اس سال کے شروع میں انہوں نے ہماری قسط روک لی۔
اس دوران میں حکومت ختم ہوگئی۔ آئی ایم ایف کی قسط رک جانے سے جو مسائل پیدا ہو رہے تھے‘ وہ اب نئی حکومت کی ذمہ داری بن گئے۔ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہاں کس کی حکومت ہے۔ اس کا اصرار رہا کہ پہلے ہماری شرائط پوری کی جائیں۔ وہ کر دی گئیں۔ اس پر سٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا۔ ڈالر لیکن اس کے بعد بھی نہیں ملے۔ یہ اگست کے تیسرے ہفتے میں ملیں گے جب بورڈ اس کی منظوری دے گا۔ اس سے پہلے پاکستان کو یہ بتانا ہوگا کہ اس نے دوسرے ذرائع سے مزید چار بلین ڈالر کا انتظام کر رکھا ہے۔ پاکستان نے یہ کر نے کے بعد بھی منت ترلے کیے کہ پیسے جلدی دیے جائیں۔ بتایا گیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ بورڈ کے کچھ لوگ چھٹی پر ہیں۔
اب ایک طرف پاکستان معاشی مسائل میں دھنستا چلا جا رہا ہے مگر دوسری طرف چند افراد اپنی چھٹی کی قربانی نہیں دے رہے۔ پاکستان کے آرمی چیف امریکہ سے جلدی کی درخواست کر رہے ہیں مگر کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس تاخیرسے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے‘ ہماری حکومت سے یہ ضمانت بھی مانگی جا رہی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہونا چاہیے اور خبر دار اگر تحریکِ انصاف کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کی۔ اس سے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچے گا۔ کیا 'امپورٹڈ حکومت‘ کے ساتھ‘ امپورٹر یہی سلوک کرتے ہیں؟
دیوار پر صاف لکھا ہے کہ معاملہ پاکستان کے ساتھ ہے‘ کسی خاص حکومت سے نہیں۔ کوئی ان کا چہیتا نہیں۔ اگر ان کی بات مان لی تو وہ آپ سے تعاون کریں گے۔ نہیں تو پھر آپ نتائج کے لیے تیار رہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ملک میں کس جماعت کی حکومت ہے۔ نظام عالمی ہو یا مقامی‘ اسی طرح کام کرتا ہے۔ سب اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کو بدلنے کا یارا کسی کو نہیں۔
ان باتوں کو‘ وہ سب لوگ جانتے ہیں جو اقتدار کے اس کھیل میں شریک ہیں۔ اس لیے انہیں جہاں موقع ملتا ہے‘ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نظام چونکہ عوام کی بے چینی کا مداوا نہیں کر رہا تو سیاست دانوں میں سے کچھ لوگ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے‘ اس کو جڑ سے اکھاڑنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ عوام کی سادہ لوحی کہ وہ اس کو مان لیتے ہیں۔ اپنی زندگی کے چند سال مزید بر باد کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ پھر بھی سوچنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
نظام کھیل تماشا نہیں ہوتا کہ آسانی سے بدلا جا سکے۔ عالمی سطح پر جو نظام نافذ ہے‘ اسے کم و بیش سو سال ہو چکے۔ ہمارا ملکی نظام بھی برسوں کے انسانی تجربے کا حاصل ہے۔ ہمارا عسکری نظام ہو یا بیوروکریسی کا نظام‘ اس کے پس منظر میں برطانیہ اور مغل سلطنت کا صدیوں کا تجربہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نظام کو اگر چند جزوی تبدیلیوں اور دیانت داری کے ساتھ نافذ کیا جائے تویہ نتائج دے سکتا ہے۔ نظام کی تبدیلی ایک استحصالی نعرے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس کسی نئے نظام کا کوئی خاکہ نہیں۔
اس ملک کے عوام بس ایک ہمت کریں۔ معاشرے کو لیڈروں اور نام نہاد مسیحاؤں کی اندھی تقلید کے بجائے‘ اپنی آنکھ سے‘ اپنے تجربات اور مشاہدے کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ رہنماؤں کے طرزِ عمل پر اٹھنے والے سوالات کا جواز تلاش کرنے کے بجائے‘ ان کے وہ جوابات ڈھونڈیں جن پر ان کے دل اور دماغ مطمئن ہو سکیں۔ شاید اس طرح استحصال کا یہ باب بند ہو جائے۔