فیصلہ تو آ گیا۔ اب اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟
ایک عمل عدالتوں میں ہوتا ہے اور ایک سماجی سطح پر۔ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عدالتی فیصلے عوامی ردِ عمل کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔ عوامی ردِ عمل‘ سماجی حقائق کے تابع ہوتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب کسی فرد یا گروہ کو ایک سماج میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو عدالتی فیصلے اس کے مقدر پر اثر ڈالنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں؟
پاکستان کی تاریخ میں عدالتوں نے بہت سے فیصلے دیے۔ یہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس ہو یا بھٹو صاحب کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف حیدر آباد ٹریبونل کا فیصلہ ہو یا نواز شریف صاحب کے خلاف اقامہ کی سزا‘ ہر فیصلے پر عوامی ردِ عمل‘ اس عصبیت کے تابع رہا جو ان جماعتوں اور شخصیات کو حاصل تھی۔ الیکشن کمیشن نے اگر ممنوعہ فنڈز کے مقدمے کا فیصلہ سناتے وقت‘ آٹھ سال لگا دیے تو اس کے تمام تر اسباب قانونی نہیں تھے۔
عمران خان صاحب کو اب سماج میں سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ یہی نہیں‘ وہ ایک کلٹ بن چکے ہیں۔ ایک سیاسی رہنما کی عوامی تائید کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرہ وہ ہے جو شخصی یا گروہی عصبیت رکھتا ہے۔ دوسرا وہ جو دیکھتا‘ سوچتا اور پھر کسی خاص موقع پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ پہلے دائرے میں رہنے والے عام طور پر عدالتی فیصلوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ پھر جہاں عدلیہ کی تاریخ یہ ہو کہ اس کے متعدد فیصلے متنازع اور نظریۂ ضرورت کے تابع رہے ہوں‘ وہاں اس گروہ کو بہ آسانی یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ عدالت جانب دار ہے۔ عمران خان صاحب کے معاملے میں ایک تیسرا دائرہ بھی ہے جو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو انہیں سیاست دان نہیں‘ ایک مسیحا سمجھتے ہیں۔ اسے کلٹ کہتے ہیں۔ اس گروہ کے لیے دلیل‘ استدلال بے معنی ہیں۔
کلٹ‘ مذہبی ہو یا سیاسی‘ بالعموم اس کی عمر تھوڑی ہوتی ہے۔ لیکن جب تک وہ زندہ رہتا ہے‘ ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں رہتے ہیں۔ انہیں اس کیفیت میں رکھنے کے لیے مختلف نفسیاتی و ابلاغی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مسلسل ہیجان‘ جس میں کسی کو سوچنے کی مہلت نہ ملے۔ اقتدار کا مل جانا‘ سیاست میں منزل شمار ہوتا ہے۔ اس لیے ایک سیاسی گروہ میں وہ جوش و خروش باقی نہیں رہتا جب اسے اقتدار مل جاتا ہے۔ عمران خان صاحب بھی اس عمل سے گزرے۔ انہیں اقتدار ملا تو ہیجان میں کمی آنے لگی۔ انہیں اس کا احساس ہوا اور یوں انہوں نے کوشش کی کہ بطور وزیراعظم بھی‘ وہ اپوزیشن لیڈر کی طرح گفتگو کریں اور سیاسی میدان کو گرم رکھیں۔ عام طور پر برسرِ اقتدار گروہ یہ نہیں کرتے۔
عمران خان صاحب کو اس کا فائدہ ہوا۔ وہ اپنے سیاسی کلٹ کو باقی رکھنے میں کامیاب رہے۔ یوں ایک ایسا طبقہ موجود رہا جس کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ بطور وزیراعظم ان کی کارکردگی کیا تھی۔ وہ جس شخصی سحر میں مبتلا تھا‘ اس میں کمی نہیں آئی۔ یہ سحر اس وقت بروئے کار آیا جب ان کی حکومت ختم ہوئی۔ یہی طبقہ ان کے جلسوں کی رونق بنا اور ضمنی انتخابات میں ان کی کامیابی میں بھی مرکزی کردار اسی کا تھا۔
عمران خان صاحب نے کمال مہارت کے ساتھ‘ اس سیاسی فرقے (Cult Following) کو باقی رکھا۔ انہوں نے ابلاغی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے‘ مذہب اور نیشنلزم کا ایک ملغوبہ بنایا جو ہمیشہ کلٹ کو باقی رکھنے کے لیے کام آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنا تھا توانہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کے ترجمے پر مشتمل ٹویٹ کیا جس میں کہا گیا: ''نہ جھکو اور نہ غم کرو۔ جیت تمہاری ہی ہوگی‘ اگر تم سچے مومن ہو‘‘۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مذہب کیسے سیاسی کلٹ کی تشکیل میں ایک کردار ادا کرتا ہے۔
میں جب اس سماجی عمل کو سامنے رکھتا ہوں تو مجھے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے وہ سیاسی نتائج نکلتے دکھائی نہیں دیتے جن کی نون لیگ کو توقع ہے۔ عدالتی عمل خان صاحب پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے لیکن ان کی عوامی تائید پر شاید اثر انداز نہ ہونے پائے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ اگر نون لیگ اس فیصلے سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے سیاسی حکمتِ عملی ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے خود تحریکِ انصاف کی مثال موجود ہے۔ نواز شریف صاحب کو جس عدالتی فیصلے کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا‘ اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جا چکا۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی عدالتی تاریخ کا یہ ایک منفرد فیصلہ تھا۔ ایک فرد کو ایک ایسی رقم کے ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دے دیا گیا جو کبھی اس کے اکاؤنٹ میں آئی ہی نہیں۔ تحریکِ انصاف کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے ابلاغی مہارت سے اسے ایک مُسلّمہ کے طور پر پیش کیا کہ شریف خاندان کرپٹ ہے۔ اب اگر کوئی لکھنے یا بولنے والا ان کے حق میں کوئی کلمہ خیر کہہ گزرے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے کہ وہ کرپٹ کی تائید کر رہا ہے۔ گویا سورج کی طرح کی روشن حقیقت کا انکار کر رہا ہے۔
نون لیگ اگر سیاسی کامیابی چاہتی ہے تو اسے عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ جیتنا ہوگا۔ اگر اس نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے عدالتی عمل سے توقعات باندھ لیں تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ پوسٹ ٹرتھ کا دور ہے۔ جو عوام کو اپنی بات سمجھا گیا‘ وہی سکندر ہے۔ اس کے لیے ابلاغی مہارت چاہیے جس میں تحریکِ انصاف کا کوئی ثانی نہیں۔ عمران خان صاحب نے خود کو روایتی میڈیا کی تائید اور مخالفت سے بلند کر لیا ہے۔ ان کی اصل کامیابی یہی ہے۔
نون لیگ اگر اس فیصلے کی تائید سے عمران خان صاحب کی طرح ایک مضبوط دکھائی دینے والا بیانیہ بنا سکتی ہے تو یہی اس کی کامیابی ہوگی۔ کلٹ کا فائدہ تو اس کو نہیں ہوگا کہ نون لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اور نواز شریف صاحب نے خود کو کسی مسیحا کے طور پر پیش نہیں کیا جس کی مخالفت نہ کی جا سکتی ہو اور جس کی تائید گویا ایک ناگزیر عمل ہے۔ انہیں تو ایک سیاسی جنگ لڑنا ہے اور انہیں سمجھنا ہوگا کہ ان کا معاملہ سیاسی کلٹ کے ساتھ ہے‘ روایتی سیاسی جماعت سے نہیں۔ ان کا ہدف وہ طبقات ہو سکتے ہیں جو خان صاحب کی تائید میں متردد ہیں یا جو خان صاحب کو بطور سیاسی رہنما ترجیح دیتے ہیں۔ کلٹ پر نون لیگ سرِ دست اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ تاریخ یہ ہے کہ کلٹ‘ سیاسی ہو یا مذہبی‘ وہ ہمیشہ ایک اقلیتی گروہ ہوتا ہے اور اس کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں فیصلہ عوام کی اکثریت کے ہاتھ میں ہو تا ہے جس کی سوچ کوکسی وقت بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تحریکِ انصاف نے قانونی اور سیاسی‘ دونوں محاذوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا ایک پرانا انٹر ویو چلایا جا رہا ہے۔ تحریکِ انصاف کو معلوم ہے کہ اس کا قانونی فائدہ کچھ نہیں۔ وہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ نون لیگ اس فیصلے سے کیا سیاسی فائدہ کشید کرتی ہے‘ اس کا فیصلہ وقت سنائے گا۔
کالم کے آخر میں ایک جملہ معترضہ۔ الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ سنانے میں آٹھ برس لگے۔ قاسم سوری صاحب کم و بیش تین سال تک ایک حکمِ امتناعی پر قومی اسمبلی کے رکن رہے اور ڈپٹی سپیکر بھی۔ چوہدری نثار صاحب چار سال میں صرف ایک دن حلف اٹھانے پنجاب اسمبلی گئے اور قانون انہیں اس حلقے کے عوام کا نمائندہ تصور کرتا ہے۔ کیا یہ قوانین نظر ثانی کے مستحق نہیں؟