دکھ بہت ہے مگر حیرت نہیں؟
سب کچھ اُسی طرح ہو رہا ہے‘ جیسا بتایا گیا تھا۔ بتانے والے کون تھے؟ ہما شما‘ جن کا علم محدود ہے اور نظر بھی۔ یہ معاملہ فکرو نظر کا تھا بھی نہیں۔ یہ ریاضی کے سادہ اصول کی طرح تھا کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں‘ پانچ نہیں۔ عام آدمی ازبر کر لے اور اطلاق کرتا چلا جائے تو زندگی کی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ یہ نظمِ کائنات ہو کہ نظمِِ حیات‘ ہر مقام پر اسی اصول کی حکمرانی ہے۔
چونتیس‘ پینتیس برس ہوتے ہیں کہ ایک صاحبِ علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ابھی تک وہیں بیٹھا ہوں۔ یہیں زروں کو خورشید بنتے دیکھا۔ نام کا خورشید بھی خالی دامن نہیں رہا۔ اس عنایت پر جبین خدا کے حضور میں جھکی رہتی ہے۔ یہاںعلم و سیاست کے عقدے کھلنے لگے‘ دراں حالیکہ اقتدار کی سیاست کبھی استاد کی دلچسپی کا میدان نہ تھا۔ یہ علمِ سیاست تھا جواُن طالب علموں نے سیکھا جنہیں اس کا ذوق ارزاں ہوا۔ ان میں ایک میں بھی تھا۔ سوال جب سیاست کے باب میں دین کی رہنمائی کا ہو یا مذہبی سیاست کا تو پھر 'وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘۔
کم و بیش اکیس برس ہونے کو ہیں۔ اسی مجلس میں سنا کہ اللہ کا دین جہاد بالسیف کے لیے ریاست کو لازم قرار دیتا ہے۔ ریاست کا ہاتھ سر سے اٹھ جائے تو تلوار انفرادی جذبات کے تابع ہو جاتی اور بے گناہوں کے سر کاٹنے لگتی ہے۔ زمین فساد سے بھر جاتی اورکوتاہ اندیش قتلِ عام کے جرم میں‘ دین کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں‘ دراں حالیکہ یہ وہ دین ہے جس میں انسانی جان کی حرمت‘ بیت اللہ کی حرمت سے کم نہیں۔ شرحِ صدر ہوا تو قلم اٹھایا۔ اخبارات کے صفحات سیاہ کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا کہ علما اسے مانتے تھے نہ ریاست۔ عوام ہمیشہ ان دو گروہوں کے تابع رہے ہیں۔ ہمارے بھائی ڈاکٹر فاروق خان‘ انذار کرتے کرتے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے کہ ان جیسے آدمی کے لیے شہادت سے کم رتبہ پروردگار کو گوارا نہ ہوا۔ استاد مہاجر ہو گئے اور ہم یہاں دشنام کے تیروں کا ہدف۔
خدا کی ہدایت جب دنیاوی امور سے متعلق ہوتی ہے تو وہ حکمتِ عامہ پر مبنی ہوتی ہے جس میں سے سب کو حصہ دیا گیا ہے۔ یہ ریاضی کے سادہ اصول کی طرح ہر کسی کو سمجھ آتی ہے۔ عامۃ الناس کو مگر یہ سکھایا گیا ہے کہ دین کا عقل سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ تو نقل ہے اور بس۔ عام آدمی روز مرہ زندگی میں حکمت کا لحاظ رکھتا ہے‘ معاملہ مگر دین کا ہو تو اسے علما کی طرف پھیر دیتا ہے۔ جہاد کے لیے ریاست کو کیوں ضروری قرار دیا گیا‘ کوئی سمجھنا چاہے تو اس کے لیے وہی بصیرت کافی ہے جو اس کی فطرت میں موجود ہے۔ جس کے تحت وہ ریاضی کے عام فارمولے کو سمجھتا اور زندگی بھر اس کا پابند رہتا ہے۔
پھر وہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس انحراف کا انجام بچشمِ سر دیکھ لیا۔ مسلمانوں کی بستیاں قبرستان بن گئیں۔ خوف اور اندیشوں نے ہمیں گھیر لیا۔ ہماری دو نسلیں بر باد ہو گئیں۔ کچھ مر گئے۔ زیادہ زندہ ہیں مگر اس طرح کہ انہیں نفسیاتی روگ نے آ لیا۔ قبرستان میں بسیرا کرنے والے حیاتیاتی پیمانے پر زندہ ہی کیوں نہ ہوں‘ روحِ حیات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ آج بھی تنہا بیٹھتا ہوں تو سوچتا ہوں: جو بات مجھ جیسے عامی کو ایک عالم نے سمجھا دی‘ وہ علمِ دین اور ریاست کے اکابر کو کیوں سمجھ نہ آسکی؟ اب ریاست 'پیغامِ پاکستان‘ مرتب کر رہی ہے۔ اب اجتماعی فتویٰ جاری ہو رہا ہے کہ جہاد ریاست کے بغیر نہیں ہوتا۔ کوئی ندامت ہے اور نہ پشیمانی کہ یہ احساسات بھی خدا کی خصوصی عنایت ہی سے عطا ہوتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور آفت نے 2014ء میں ہمیں آ گھیرا جسے لانے والوں نے بقلم خود 'سونامی‘ قرار دیا۔ یہ ہیجان کی سیاست تھی۔ بظاہر مقصود تو نواز شریف کو بہا لے جانا تھا مگر ریاضی کا سادہ اصول یہ بتا رہا تھا کہ سونامی انتخاب نہیں کرتا۔ یہ جب آتا ہے تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ نہ محل نہ جھونپڑی۔ نہ عشرت کدے نہ عسرت کدے۔ عالم کی دستار بچتی ہے نہ عامی کی پگ۔ نہ شرفا کی پگڑی نہ عوام کا صافہ۔
اس بار بھی 'قرعۂ فال بنامِ من دیوانہ زدند‘۔ پہلے کی طرح پھر دہائی دی کہ قوم کوہیجان میں مبتلا کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہ ہیجان سب کو بہا لے جائے گا۔ کوئی روایت باقی رہے گی نہ کوئی قدر۔ کوئی ادارہ سلامت رہے گا نہ کوئی جماعت۔ جذبات برے نہیں ہوتے مگر جہاں جذبات کی تہذیب نہ ہو‘ وہاں معاشرے کی لگام اوباشوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ کسی نے مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب مل گیا مگر لیڈر کا لہجہ بدلا نہ لغت۔ جب کہا جا رہا تھا: مار دو‘ آگ لگا دو‘ اور جب بجلی کے بلوں کو دیا سلائی دکھائی جا رہی تھی تو ہم نے اس وقت بھی واویلا کیا تھا کہ یہ آگ کاغذ کے پرزے کو نہیں‘ خاکم بدہن‘ ریاست کو لگائی جا رہی ہے۔ کسی نے نہیں سنا‘ جس طرح بیس سال پہلے کسی نے نہیں سنا تھا۔
کیا آج سب سچ ثابت نہیں ہوا؟ پاک فوج کے افسر وں اور جوانوں نے اس ملک کے عوام کو قدرتی آفات سے بچاتے بچاتے اپنی سب سے عزیز متاع نچھاور کر دی۔ یہ اقتدار کی جنگ کے فریق نہیں تھے کہ طعن و تشنیع کے لیے کوئی عذر تراشا جاتا۔ یہ سراسر ایک قومی معاملہ تھا جس کا سیاسی تقسیم سے کچھ تعلق نہ تھا۔ سونامی لیکن امتیاز نہیں کرتا۔ عدالت‘ فوج‘ کسی کو اس آفت نے نہیں چھوڑا۔ اس میں کچھ عجب نہیں تھا۔ یہ سب نوشتۂ دیوار تھا۔ ریاضی کے سادہ اصول کی طرح۔
لیڈر کی لغت دیکھیے: جہاد‘ یزیدی ٹولہ‘ شرک‘ چور‘ ڈاکو‘ میر جعفر‘ میر صادق۔ القاب اس پر مستزاد۔ کیا یہ کسی درویش صفت مسیحا کی زبان ہے؟ متکلم جانتا ہے کہ ہیجان پیدا کرنے کے لیے یہی لغت موزوںہے۔ 2014ء کی طرح ایک بار پھر نوجوانوں میں ہیجان پیدا کرکے انہیں تصادم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس بار مگر ریاست کے تیورمختلف ہیں۔ہیجان کے اثرات ریاست کے اداروں سے ہوتے ہوئے‘ خود ہیجان برپا کرنے والوں کے گھروں تک پہنچ چکے۔ اب سامنا نواز شریف صاحب کے صبر سے نہیں۔ میں اب دوسری طرف بھی ہیجان دیکھ رہا ہوں۔ ہیجان کی سیاست کے اس عمل کو اسی طرح مکمل ہونا تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ جو ہیجان برپا کرنے والاہے‘ وہ خود اس سے محفوظ رہے۔
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
یہ ہیجان برپا کرنے میں لیڈر تنہا نہیں تھا۔ بہت سے قلم بردار اور ٹی وی نشیں بھی اس کے ساتھ تھے جو کہرام مچا دینا چاہتے تھے۔ کہرام مچ چکا۔ آج کوئی محفوظ نہیں۔ وطن کے وہ سپوت بھی نہیں‘ جو اقتدار کی کشمکش سے دور‘ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ان کی دنیا سے شاندار رخصتی پر بازاری زبان چلائی جا ر ہی ہے کہ ہیجان کا حاصل اس کے سوا کچھ اور ہو نہیں سکتا تھا۔ جو کہرام مچا دینا چاہتے تھے‘ انہیں نوید ہو کہ ان کی خواہش پوری ہوئی۔ رجوع کا امکان ہوتا تومیں ان سے کہتا: 'مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘۔ میر کے مصرع میں تصرف جائز ہوتا میں سیلاب کو سونامی سے بدل دیتا۔
بیس سال پہلے کی طرح‘ میں جانتا ہوں کہ یہ واویلا آج بھی کسی کام کا نہیں۔ جو قوم نتائج کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے باوجود‘ قبول کرنے سے انکار کر دے‘ اسے صرف صورِ اسرافیل ہی جگا سکتا ہے۔ صور پھونکے جانے کا مطلب مگر یہ ہے کہ مہلتِ عمل تمام ہو چکی۔