واعظ ہمیں معاف فرمائیں۔ وہ انسانوں اور ان کے پروردگار کے درمیان حائل نہ ہوں۔ ہمیں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے دیں جو رحمن ہے اور رحیم بھی۔ جو ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب ہے۔ ہم اس سے مخاطب ہونے کے لیے کسی واعظ کے محتاج کیوں بنیں؟
آسمان اس بار ٹوٹ کے برسا۔ دریا کچھ اس طرح بپھرے کہ اپنی حدوں کو توڑتے انسانی بستیوں کی طرف جا نکلے۔ دریا کے قرب میں رہنے کی خواہش لوگوں کو لے ڈوبی۔ یہ عالمِ اسباب کی دنیا ہے۔ اس پر بھی خدا کی حکمرانی ہے۔ اس نے جس طرح چاند اور سورج کے لیے ایک راستہ طے کر دیا ہے‘ اسی طرح دیگر مظاہرِ قدرت کو بھی ایک فطرت کا پابند بنا دیا ہے۔ اس کو وہ اپنی سنت کہتا ہے۔ وہ بالعموم اپنی سنت کو تبدیل نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ صدیوں سے آسمان سے اسی طرح چھاجوں مینہ برستا اور دریاؤں کو طغیانی کا راستہ دکھاتا آیا ہے۔
انسان نے تجربے اور مشاہدے سے اللہ کی اس سنت کو سمجھا۔ ایمان کے دولت نصیب ہو جائے تو وہ اس کا انتساب اپنے رب کی طرف کرتا ہے۔ خالقِ حقیقی کا انکار کر دے تو اسے قوانینِ فطرت قرار دے دیتا ہے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ وہ اس سنت یا قوانین کو جب جان لیتا ہے تو اپنے علم کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہے۔ اس کا مشاہدہ اسے بتاتا ہے کہ سال کے کچھ ایام ایسے ہیں جب آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اتنا پانی برستا ہے کہ زمین جھل تھل ہو جاتی ہے۔ ہماری تقویم میں اسے ساون کہا جاتا ہے۔ پھر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کہ خشک سالی اسے گھیر لیتی ہے۔ اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتیں‘ ابرکا کوئی ٹکڑا تلاش کرتیں اور پھر ناکام ہو کر لوٹ آتی ہیں۔
جب پانی برستا ہے تو زمین کا دامن تنگ پڑ جاتا ہے۔ پھر انسان خواہش کرتا ہے کہ یہ سلسلہ رُک جائے۔ آسمان اگر بادلوں سے خالی ہو جائے تو وہ بارش کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ اس مشاہدے نے اسے بتایا کہ اگر بارش کے دنوں میں پانی کو کہیں جمع کر لیا جائے تو ایک طرف اس کی فراوانی اور زمین کی تنگ دامنی سے پیدا ہونے والے عذاب کو ٹالا جا سکتا ہے اور دوسری طرف یہ جمع شدہ پانی اُن دنوں میں کام آسکتا ہے جب زمین اور اس پر بسنے والے ہر ذی روح کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور آسمان مہربان نہیں ہوتا۔ اس طرح وہ خدا ہی کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے‘ خدا کی اس نعمت کو زحمت بننے سے روک دیتا ہے۔
جب انسان ایسا نہیں کرتا تو پھر آسمان سے اُترنے والا پانی سیلاب‘ اور بارشوں کی کمی خشک سالی بن کر اس کے لیے زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔ انسان مگر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کم ہی کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ ان کا ذمہ دار خارج میں تلاش کرتا ہے۔ ہم نے پانی کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔ ہم نے دریا کے کناروں پر اس طرح بستیاں بنائیں کہ دریا کے راستے میں حائل ہو گئے۔ ساون میں‘ جب پانی آبادیوں کا رخ کرتا ہے تو ہم بھارت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ وہ اپنے بند کھول دیتا ہے۔ یہ نہ ہو تو ہمارا واعظ‘ اس کی ذمہ داری اس ہستی پر ڈال دیتا ہے‘ جس کا اعلان ہے کہ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے۔
آج ہم اپنی کوتاہیوں کی گرفت میں ہیں۔ بلاشبہ ہمیں اپنے رب سے معافی مانگنی چاہیے اور وہ اس جرم کی کہ ہم نے عقل جیسی نعمت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہم نے اس کائنات کے بارے میں خدا کی سکیم کو نہیں سمجھا۔ ہم نے ان آثار کو نظر انداز کیا جو بار بار ہمیں متنبہ کرتے رہے۔ ہمارے رہنما گروہی مفادات کے اسیر رہے۔ جب ڈیم بنانے کی بات ہوئی تو انہوں نے تنگ نظری اور کوتاہ بینی کا ثبوت دیا۔ کہا گیا کہ ڈیم بنا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ اب معلوم ہوا کہ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے نوشہرہ ڈوب رہا ہے۔ آج لازم ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا ماتم کریں اور اس پر اپنے رب سے معافی مانگیں کہ ہم نے عقل سے کام لیا اور نہ اپنے مشاہدے اور تجربے ہی سے کچھ سیکھا۔
ہمیں اپنے رب پر پورا یقین ہونا چاہیے کہ وہ سچی توبہ کو قبول کرے گا۔ جو کوئی اس کی سنت کو سمجھ کر اس کائنات پر غور کرے گا وہ یقینا ان مسائل سے محفوظ رہے گا جو ناسمجھی کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ اگر آج ہم اس تنبیہ سے فائدہ اٹھائیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تو آئندہ بڑی حد تک اس نوعیت کی آفات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
واعظ کی باتوں کو ایک طرف رکھیے اور یہ دیکھیے کہ جو لوگ اس آفت سے محفوظ رہے‘ آج ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ یہ واقعہ آسودہ حال لوگوں کے لیے آزمائش ہے کہ انہوں نے خدا کے دیے ہوئے وسائل سے‘ اس کے ان بندوں پر کتنا خرچ کیا جو اس وقت ضرورت مند ہیں؟ خدا دو طرح سے لوگوں کو آزماتا ہے۔ کبھی کچھ چھین کر کہ بندہ کتنا صبر کرتا ہے۔ کبھی کچھ دے کر کہ وہ کتنا شکر کرتا ہے؟ وسائل کا شکر یہ ہے کہ انہیں خدا کی راہ میں اور اس کے بندوں پر صرف کیا جائے۔ قرآن مجید نے آٹھ مصارف کو بیان کیا جس میں سب کچھ شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا جزا وسزا کے لیے نہیں بنائی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا انکار کرنے والے ہمیشہ محروم رہتے۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ عطا کے معاملے میں ایمان شرط نہیں۔ اس عمومی قانون سے البتہ دو استثنا ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کی مخاطب قوم اگر رسول کا انکار کرے تو اسے دہری سزا ملتی ہے۔ ایک اس دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ اس دنیا کی سزا کو بھی عذاب کہا گیا جو آخری بار مشرکینِ مکہ پر آیا۔ ختمِ نبوت کے بعد عذاب کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب اس جرم کی وجہ سے کوئی عذاب نہیں آئے گا۔
دوسرا استثنا وہ ہے جس کا تعلق مکافاتِ عمل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دنیا بنا کر‘ اس کے معاملات سے لاتعلق نہیں ہوا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس نے اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے تکمیلِ دین کر دی اور اتمامِ نعمت بھی۔ تاہم وہ کبھی کبھی عالمِ اسباب میں مداخلت کرتا اور لوگوں کو تذکیر کرتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور ہمیں ایک دن خدا کے حضور میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ یہ بتانے کے لیے کہ وہ کیسے اس دنیا کے منظر نامے کو لمحوں میں تبدیل کر سکتا اور ایک نئی دنیا آباد کر سکتا ہے‘ وہ کبھی زمین کے کسی خطے میں نظامِ حیات کو تہ و بالا کرتا اور انسان کی کم مائیگی کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ کووڈ (COVID) اور سیلاب‘ سب اسی کی یاد دہانی ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک ہے اور اس پر اسی کا حکم چلتا ہے۔
ہمیں ہر وقت توبہ کرنی چاہیے اور توبہ کا مطلب اپنے رب کی طرف رجوع ہے۔ اس سے کوئی مسلمان غافل نہیں رہ سکتا۔ اس کا کوئی تعلق آفت سے نہیں ہے کہ اس کی آمد پر ہی توبہ کی جائے گی۔ واعظین سے اتنی درخواست ہے کہ وہ حوروں کے خدو خال کے بیان تک ہی محدود رہیں۔ رہی بات بندے اور رب کے تعلق کی تو رب العالمین نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے۔ ان شاء اللہ وہ ہمیں محروم نہیں کرے گا‘ بشرطیکہ ہم اس کی طرف خوشی اور غمی میں رجوع کرنے والے ہوں‘ کسی واعظ کے وسیلے کے بغیر۔