پہلی آواز:آج کا نوجوان بہت سچا‘کھراا ور دیانت دار ہے۔اسے معاملات کا بہتر ادراک ہے۔وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ قیادت نوجوان ہاتھوں کو سونپ دی جائے۔
دوسری آواز:پرانی نسل میں پھر کچھ شرم و حیا تھی۔روایت سے تعلق تھا۔آج کا نوجوان! اللہ معاف کرے‘ نہ بڑے کی تمیز نہ چھوٹے کا لحاظ۔توبہ ہے!
یہ دونوں آوازیں بیک وقت کان میں پڑتی ہیں۔سب کے پاس دلائل ہیں اورممکن ہے کہ ان میں وزن بھی ہو۔میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں ہمارا مشاہدہ یا تجربہ ہماری رائے کی ایک بنیاد ہو سکتا ہے۔ اہم تر سوال یہ ہے کہ پرانی نسل یا نوجوان بحیثیت مجموعی کس رجحان کو بیان کر رہے ہیں؟معاشرتی تشکیل میں ان کا حصہ مثبت ہے یا منفی؟پھر یہ کہ دونوں کے مابین کوئی حدِ فاصل قائم کر نا‘ کیا ممکن ہے؟
آخری سوال پہلے:میرا خیال ہے کہ دونوں نسلوں میں فرق کرنا محض تکلف ہے۔پرانی نسل ہی کل کی نئی نسل تھی۔اس نئی نسل کو کل پرانا ہو جانا ہے۔اخلاقیات اور قانون دونوں‘ بلوغت سے پہلے کسی فرد کو مسئول نہیں ٹھہر اتے۔مذہب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ وہ بلوغت کے بعدہی کسی کو مکلف قراردیتا ہے۔اس کے پس منظر میں یہ قیاس کارفر ما ہے کہ ہر فرد پیدائشی طور پر معصوم ہوتا ہے۔اس میں آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے۔بلوغت کے بعد‘یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اس پر اچھے اور برے‘گناہ اور ثواب‘قانون اور لاقانونیت کا فرق واضح ہو گیا‘ لہٰذا اب وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔
اچھے برے کی تمیز ہو یا اقدار کا شعور‘ یہ معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ معاشرے سے مرادمعاشرتی ادارے ہیں جو فرد کی تربیت کرتے ہیں۔ جیسے خاندان‘ مکتب‘گلی محلہ‘تعلیمی ادارے۔میرامشاہدہ ہے ان سب کو فی الجملہ فرد کی تربیت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔مجھے پاکستان بھر میں اساتذہ کی تربیتی ورکشاپس میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔میں ہر جگہ ایک سوال‘ان سے ضرور پوچھتا ہوں:بچوں کے والدین‘اس لیے تو آپ کے پاس آتے ہیں کہ فلاں مضمون میں ان کے بچے کا نمبر یا گریڈ کم کیوں ہے۔کیا کبھی والدین یہ جاننے کے لیے بھی آئے کہ ان کے بچے کا اخلاق کیسا ہے؟اساتذہ یا ہم جماعتوں سے اس کا رویہ کیسا ہے؟ کیا والدین کو اپنے بچوں کے اخلاق سے کوئی دلچسپی ہے؟کم و بیش سو فیصد اساتذہ کا جواب نفی میں تھا۔
کیا تعلیمی اداروں کو اپنے طور پر طلبہ و طالبات کی تربیت سے کوئی دلچسپی ہے؟ایک غیر سرکاری تنظیم 'شعورفاؤنڈیشن‘ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔ اس کے ایک پروگرام میں‘ میری ملاقات ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ہوئی۔ وہ جامعہ کے حالات سے پریشان تھے۔ مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک طالبہ ا ورایک طالب علم یونیورسٹی کے لان میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ وی سی صاحب نے ان سے کہا: چلنے کا یہ کیا اندازہے؟ انہیں جواب ملا: آپ ہمیں چل کے دکھائیں کہ چلنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب نوجوانوں کی تربیت کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تو پھر یہ مقدمہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ نئی نسل زیادہ سنجیدہ‘سچی اور با اخلاق ہے؟ ذرا سیاست پر ایک نظر ڈال لیجیے: سب متفق ہیں کہ سوشل میڈیاکی نظرسے عصری سیاست کودیکھیں تویہ گندگی کا ایک ڈھیردکھائی دیتی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا سچ اور جھوٹ کی تمیز سے بے نیاز ہے۔اس میں کسی جماعت کا کوئی استثنا نہیں۔سوشل میڈیا کا یہ ماحول اسی نئی نسل کا پیدا کردہ ہے جس کی دیانت اور سچائی کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔
ہم اخلاقی طور پر ایک بر باد معاشرے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ہماری آبادی میں 65 فیصد نو جوان ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بربادی میں بھی ان کا حصہ اتنا ہی ہے۔ میں اگر روایتی اخلاقیات کی بات کروں تو معاملات نا گفتہ بہ ہیں۔ جو لوگ نجی معاملات کو اخلاقیات میں شمار نہیں کرتے‘ ان کا معاملہ الگ ہے لیکن جو شخصی احوال کوبھی اخلاقیات کے دائرے میں شامل سمجھتے ہیں‘وہ کسی صورت اس مقدمے کے قائل نہیں ہو سکتے کہ نئی نسل پرانی سے زیادہ بااخلاق اور بہتر ہے۔نہ صرف یہ کہ نئی نسل کے اخلاق کو سنوارنے کا کوئی نظام یہاں موجود نہیں ہے‘ ہم نے اخلاق کو بگاڑنے کے تمام اسباب وافر مقدار میں فراہم کر رکھے ہیں۔گویا نئی نسل دو دھاری تلوار کا ہدف ہے۔اس کے بچ نکلنے کا امکان بہت کم ہے۔یہ نئی نسل سے کوئی شکوہ نہیں۔اسے موردِ الزام ٹھہرانا بھی مقصود نہیں۔یہ احوالِ واقعہ کا بیان ہے۔ساحر لدھیانوی نے اس کی منظر کشی بہت صحت کے ساتھ کر دی ہے۔یہ ایک تاریخی عمل کے سوا کچھ نہیں۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیاہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں‘یہ قدم قدم پراس شخص کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے جو با اخلاق زندگی گزارناچاہتا ہے۔یہ تاجر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پورا ٹیکس ادا نہ کرے۔یہ اب عام شہری کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بجلی چوری کرے۔یہ ٹیکس دینے والے کو مسلسل تنگ کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ قانون سے ماورا کوئی راستہ تلاش کرے۔ سماجی اداروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مفاداتی گروہ بن چکے ہیں۔یہاں تک کہ مسجد اور محراب و منبر بھی اس کی زد میں ہیں۔ تعلیم کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی‘کب کی کاروبار بن چکی۔تبلیغی جماعت جیسی بعض جماعتیں ممکن ہیں کہ اخلاص کے ساتھ متحرک ہوں لیکن ان کا تصورِ اخلاق و مذہب ادھورا ہے۔وہ ایک تاجر کو داڑھی تو رکھوا سکتی ہیں‘اس کے کاروبار میں دیانت کا عنصر شامل نہیں کرا سکتیں۔
اپنے مشاہدات کے زیرِ اثر‘ میرے لیے تو ممکن نہیں ہے کہ میں اخلاقی بنیادوں پر نوجوان اور غیر نو جوان میں فرق کروں۔یہی نوجوان کل دوسرے طبقے میں شامل ہو جائیں گے اور نئے جوان آ جا ئیں گے۔اگر ان کی تربیت کا کوئی اہتمام نہ ہوا توان کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہو گا۔ تمام انتہا پسند مذہبی و غیر مذہبی گروہوں کی قوت یہی نوجوان ہیں اور ان ہی کو وہ ہدف بھی بناتے ہیں۔عمران خان صاحب کی ہیجان انگیز سیاست کا ایندھن بھی یہی نوجوان ہیں۔اپنا اورملک کا مستقبل سنوارنے کیلئے ان نوجوانوں کی صرف ڈگری کی نہیں‘ شعور کی ضرورت ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اس کا اہتمام کیا جا ئے۔یہ مسئلے کا فوری حل ہے۔بعض حلقوں میں اس کا ادراک موجود ہے لیکن اسے نظامِ تعلیم کے مقاصد میں شامل ہونا چاہیے۔
مستقبل کے لیے اس کا آغاز بنیادی تعلیم سے کر نا ہو گا۔شخصیت کی تعمیر کم سنی ہی میں ہوتی ہے۔سکول اور مکتب کے ساتھ‘خاندان اور گلی محلے کو بھی اپنا کردار ادا کر نا ہو گا۔ والدین کی تشویش اگر صرف بچوں کے گریڈوں اور نمبروں تک محدود رہی اور وہ ان کی اخلاقی تربیت کے بارے میں بے پروا رہے توآنے والے دورمیں بھی ہم اسی طرح اخلاقی زوال کا نوحہ لکھتے رہیں گے۔ آج کے نوجوانوں سے نیک امیدیں ضرور وابستہ کر نی چاہئیں لیکن غیر ضروری خوش گمانی میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔