ہم ایک ہیجانی معاشرے میں زندہ ہیں۔ اس کا سادہ مفہوم ہوش و خرد سے بیگانگی ہے۔
گزشتہ ہفتے مختلف شعبوں کے لیے نوبیل انعام کا اعلان ہوا۔ یہ ایک پیمانہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ان کا تخلیقی جوہر کم نہیں ہوا۔ عالمی قیادت کا تاج اگر ان کے سر پر سجا ہے تو قانونِ قدرت کے مطابق انہوں نے اس کا استحقاق ثابت کیا ہے۔ سیاست کے میدان میں‘ وہاں بھی انگیٹھی دہکتی رہتی ہے لیکن سماج اس گرمی کو دوسرے شعبوں تک پھیلنے نہیں دیتا۔ سیاست کی آگ کو اس حد سے بڑھنے نہیں دیتا کہ اس کے شعلے سماج کے دامن سے لپٹ جائیں۔ دوسری طرف ہم ہیں۔ ہیجان میں مبتلا۔ تاریخ کے قافلے سے بچھڑے ہوئے لوگ‘ جن کے رہنما مسلسل آگ بھڑکانے میں لگے رہتے ہیں‘ جس کا ایندھن عوام ہیں۔ اگنی ناچ جاری ہے۔ تماش بینوں کا ہجوم ہے اور اس رویے کا انجام نوشتۂ دیوار۔
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
تاریخ یہ ہے کہ ہماری مذہبی و سیاسی قیادت‘ تدریجاًہیجان پرور لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ کہیں ہوش و خرد کا کوئی جزیرہ ابھرتا ہے لیکن انسانوں کے اس سمندر میں اس کو دوربین ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی مشترکہ مساعی کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پر اب ہیجان کا اقتدار قائم ہو چکا ہے۔ اب ہر شعبے میں عقل و ہوش کی بات کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے کالموں پر کیے جانے والے تبصروں کو پڑھ لے جو ''دنیا‘‘ کے ای ایڈیشن پر موجود ہیں۔
مذہب کو دیکھ لیجیے۔ تمام مقبول بیانیے ہیجان پیدا کرنے والے ہیں۔ تعلق بالرسول‘ مذہب کا سب سے اہم مقدمہ ہے۔ یہ ایمان کی پہچان بھی ہے اور اس کی حلاوت کا سبب بھی۔ یہ تعمیرِسیرت کا راستہ بھی ہے اور زادِ راہ بھی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسانی وجود اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بن جائے یا کم ازکم ان لوگوں سے ممتاز ہو جائے جو اس تعلق کے باب میں تساہل کا شکار ہیں۔ قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر پیغمبرانہ اوصاف میں سب سے نمایاں ہے اور یہ وصف خدا کے ہاں سب سے زیادہ اجر کا باعث بھی ہے۔ اس لیے لازم یہ ہے کہ متعلقینِ رسولؐ کی نمایاں صفت‘ صبرہو۔
ہمارے ہاں مگر ہیجان کا غلبہ ہے اور افسوس یہ ہے کہ محراب و منبر سے ایسے کرداروں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ اب مثالی مسلمان وہ نہیں جو سیرتِ پیغمبرؐ سے قریب تر ہے بلکہ وہ ہے جو اس تعلق کے بیان میں سب سے زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ آج مذہب کا غالب بیانیہ یہی ہے اور اس سے انحراف کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا تعلق بالرسول مشکوک ہے۔ یہ شک اس وقت پیدا نہیں ہوتا جب کسی فرد کی پوری شخصیت‘ سیرتِ رسولؐ سے انحراف پر کھڑی ہو۔اسی طرح اصحابِ رسولؐ سے محبت کا معاملہ ہے۔ کیا قابلِ رشک جذبہ ہے جو کسی کو عطا ہو جائے۔ صحابہ کرامؓ سے اُنس‘ ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ یہی جذبہ لیکن ایک عرصے سے ہیجانی روپ دھار چکا۔ یہ پاکیزہ احساس انتہا پسندی کی بنیاد بن گیا۔ اسے فرقہ واریت کا بڑا مآخذ مانا گیا اور ریاست کے نزدیک‘ یہ امن و امان کا ایک مسئلہ ہے۔ یہ دیگ کے چند دانے ہیں۔ اس فہرست کو طویل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کی ہیجانی تعبیرات کا غلبہ ہو چکا۔
اب آئیے سیاست کی طرف۔ آج سیاست کا غالب ترین مقدمہ بھی ہیجانی ہے۔ عمران خان صاحب نے معاشرے کو مسلسل ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ حکومت میں تھے تو بھی انہوں نے شعوری کوشش کی کہ یہ ہیجان کم نہ ہونے پائے۔ وہ اب معاملات کو ایک ایسی سطح پر لے آئے ہیں کہ اس ہیجانی سیاست کے پریشان کن نتائج سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ انسانی جان و مال کو در پیش خطرات نمایاں ہو رہے ہیں اور جذبات کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
مذہب یقینا اس کے لیے نہیں تھا۔ یہ خیر کی ایک قوت ہے جس کا مقصد انسان کی اخلاقی تطہیر ہے۔ مذہب اگر ہیجان سے پاک اور اپنے اصل مقدمات پر کھڑا رہتا تو وہ انسانوں کے لیے نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اس کے بعد بھی امن اور سلامتی کا پیغام ہے۔ پھراس میں ہیجان نہ ہوتا کہ یہ اس کے مزاج میں نہیں ہے۔ رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہیجان کا کہیں گزر نہیں۔ آپؐ نے صبر کو ایک رویہ نہیں‘ ایک حکمتِ عملی بنا دیا۔ یہ دین میں گہری بصیرت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ مذہب کی یہ بصیرت کیسا مزاج پیدا کرتی ہے‘ اس کی ایک مثال سیدنا عمرؒ بن عبدالعزیز کا ایک واقعہ ہے۔ ایک شخص نے انہیں گالی دیں تواسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ''اگر مجھے آخرت کا یقین نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کا جواب دیتا‘‘۔
یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ سیاسی اختلافات کے حل کی مہذب ترین صورت جمہوریت ہے۔ جمہوریت کیا ہے؟ سیاست و ریاست کے باب میں پیدا ہونے والے اختلافات کو مکالمے اور پُرامن ذرائع سے حل کرنا۔ مکالمہ تلوار کا متبادل ہے جو انسان کے تہذیبی و اخلاقی ارتقا اور شعور کا مظہر ہے۔ جمہوریت ہیجان کی نفی ہے۔ ہیجان جنگوں کی ضرورت ہے اور عقل و ہوش سیاست و جمہوریت کی۔ سیاست میں مشکل مراحل آتے ہیں مگر اہلِ سیاست صبر کو بطور حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔
بھٹو صاحب کا مزاج فسطائی تھا لیکن جوہری طور پر وہ سیاست دان تھے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے اقتدار کے مشکل ترین دور میں بھی انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا۔ یہی معاملہ اپوزیشن کا بھی رہا۔ اس کی قیادت گرفتار تھی مگر حکومت سے مذاکرات اور مکالمہ جاری تھا۔1977ء کے اس دور کی کہانی فریقین کی طرف سے لکھی جا چکی۔ پروفیسر عبدالغفور احمد پاکستان قومی اتحاد اور جناب کوثر نیازی حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن تھے۔ دونوں نے اس عہد کی روداد قلم بند کر دی ہے۔
آج ہماری مذہبی ا ور سیاسی قیادت ہیجان پرور قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے پورے معاشرے کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا مزاج بھی ہیجانی ہو چکا۔ اب ہمارے لیے مذہبی و سیاسی اختلاف معمول کے واقعات نہیں رہے جنہیں معاشرے کو ہیجان میں مبتلا کیے بغیر‘ مکالمے یا مذاکرات سے حل کیا جا سکے۔ مسلسل اضطراب ہے اور سب کوکل کی فکر لاحق ہے جس پر بے یقینی کا پردہ ہے۔
جب معاشرہ ہیجان میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی باگ عقل و ہوش کے بجائے‘ جذبات کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے کی تخلیقی قوت سلب ہو جاتی ہے۔ باصلاحیت لوگ اس سے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر رہ جائیں تو نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری اکثریت ذہنی مریض بن چکی اور اس میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ اس کی ذمہ دار وہ مذہبی اور سیاسی قیادت ہے جس نے مذہب و سیاست میں ہیجان کو فروغ دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے مگر یہ اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہتا ہے۔ اس سے سماج کا عمومی بہاؤ متلاطم نہیں ہوتا۔ یوں اس کا تخلیقی جوہر باقی رہتا ہے۔ یہ ہیجانی کیفیت میں ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے علوم و فنون میں نوبیل انعام کے مستحق ترقی یافتہ معاشروں میں پیدا ہوں گے‘ ہمارے معاشرے میں نہیں۔ ہمارے تخلیقی جوہر کو مذہب اور سیاست کی ہیجانی تعبیرات نے برباد کر دیا۔