تحریک انصاف کی سیاسی حکمتِ عملی کہاں بنتی ہے؟ وہ ٹکسال کہاں ہے جہاں فیصلے ڈھلتے ہیں؟
اس وقت سب سے مؤثر سیاسی حکمتِ عملی تحریکِ انصاف کی ہے۔ ہمہ جہتی اور معاشرے میں سرایت کرتی ہوئی۔ اس پالیسی کے اجزائے ترکیبی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک بیانیہ ہے جو واضح اور عوام کے لیے قابلِ فہم ہے۔ ابلاغ کی ایک مؤثرمہم ہے جس کے لیے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو کمال مہارت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ انتخابی حلقوں کی سطح پر تنظیم موجود ہے جس کا اظہار پنجاب میں امیدواروں کے انتخاب سے ہوا ہے۔ کم و بیش تمام صوبائی حلقوں کے لیے امیدواروں کا اعلان ہو چکا۔ عالمی میڈیا میں روابط موجود ہیں۔
امریکہ میں کم از کم دو لابنگ فرمز تو اعلانیہ کام کر رہی ہیں تاکہ عالمی قوت کے دل میں جگہ بنائی جا سکے۔ زلمے خلیل زاد جیسے لوگ تحریکِ انصاف کے حق میں متحرک ہیں۔ خواتین‘ نوجوان‘ وکیل‘ ہر شعبۂ زندگی میں تحریکِ انصاف کا وجود محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ جب چاہے بغیر چندہ جمع کیے‘ بڑا اجتماع کر سکتی ہے۔ گانے اور ترانے ایسے کہ لگتا ہے اس جماعت میں بس یہی کام ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب کی مسیحائی شبیہ (Heroic Image) کو اس مہارت سے زندہ رکھا گیا ہے کہ کوئی خبر‘ کوئی سکینڈل اور کوئی انکشاف اس پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ایک عام سی بات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کی ذہن سازی ہو رہی ہے۔ وہ ایسے ایسے جملے بول رہے ہیں کہ ان پر صرف استغفار پڑھا جا سکتا ہے۔ کوئی کم عقل ہی مان سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہو رہا ہے۔ جب منصوبہ ہے تو کوئی منصوبہ ساز بھی ہوگا۔ وہ کون ہے؟ کہاں ہے؟ کوئی بتا سکتا کہ تحریکِ انصاف میں کون سا فورم ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں؟ وہ کون سے عالی دماغ ہیں جو ایسی شاندار حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں؟
یہ سوال اگرکسی دوسری جماعت کے بارے میں اٹھایا جائے تو اس کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی میں ایک مرکزی مجلسِ شوریٰ ہے۔ پھر ایک مجلسِ عاملہ ہے۔ یہ فیصلہ سازی کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ ایسی ہی مراکز صوبے‘ حتیٰ کہ ضلعی سطح پر بھی ہیں۔ اس کا ریکارڈ بہ آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے کہ کب عاملہ کا اجلاس ہوا اور کب شوریٰ کا اور ان میں کیا فیصلے ہوئے۔
(ن) لیگ کا معاملہ تو سب سے آسان اور واضح ہے۔ وہاں تو منصوبہ یا پالیسی نام کی کوئی شے پائی ہی نہیں جاتی۔ اس لیے کسی منصوبہ ساز کو تلاش کرنا عبث ہے۔ جب بیانیہ ہی موجود نہیں تو ابلاغی حکمتِ عملی کا کیا سوال؟ اور اگرکبھی ضرورت پڑ جائے تو شریف برادران پارٹی کو کسی مشکل میں ڈالے بغیر خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا! سوشل میڈیا پر آج کل کچھ ہل چل دکھائی دیتی ہے۔ کہتے ہیں مریم نواز صاحبہ نے کچھ نوجوانوں کو متحرک کیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک دفتر ہے جو سب کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر طارق فضل کی عمارت ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں خاندانی ہیں یا شخصی‘ جیسے (ن) لیگ یا تحریکِ انصاف۔ یا پھر کسی کی بنائی ہوئی ہیں جیسے (ق) لیگ یا BAP۔ کچھ قوم پرست بھی ہیں جو سیاسی جماعت کی صورت منظم ہیں۔ ان سب میں پالیسی سازی کا کوئی نہ کوئی فورم تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ان کی جتنی سیاسی حرکت ہے‘ اس نسبت سے بتایا جا سکتا ہے کہ کس نے کون سا فیصلہ کیا ہے۔ مثلاً بلوچستان عوامی پارٹی (BAP)۔ سب کو معلوم ہے کہ کس نے بنائی اور کون اس کے فیصلے کرتا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں اس تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ فیصلہ سازی کہاں ہوتی ہے۔
تحریکِ انصاف اگرچہ شخصی جماعت ہے لیکن اس کی ایک ہمہ جہتی حکمتِ عملی ہے۔ کسی فردِ واحد کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ایسی کثیر الجہات حکمتِ عملی ترتیب دے اور پھر اس پر عمل درآمد بھی کرائے۔ ایسی ہمہ گیر پالیسی تشکیل دینے کے لیے بہت سے دماغوں اور اسے عمل میں لانے کے لیے بہت سے ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ دماغ کہاں ہیں؟ وہ ہاتھ کہاں ہیں؟
کیا یہ دماغ عمران خان ہے؟ کیا شاہ محمود قریشی؟ کیا پرویز خٹک؟ کیا اسد عمر؟ کوئی غبی ہی اس کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے۔ ان سب کی دماغی صلاحیتوں سے عوام اچھی طرح آگاہ ہیں۔ یوں بھی اتنی بڑی حکمتِ عملی کسی فردِ واحد کے بس کی بات نہیں۔ صرف فنڈ ہی کو دیکھ لیں جو ایسی حکمتِ عملی کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کو جمع کرنے کے لیے ایک بڑے نظام کی ضرورت ہے۔ وہ نظام کہاں ہے؟
سیاسی حکمت عملی کی تشکیل کا کام کتنا پیچیدہ ہے‘ عام آدمی کبھی اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ مجھے اس دنیا کے نشیب و فراز کا کسی حد تک علم ہے کہ میں نے دورِ طالب علمی میں عملی سیاست کی اور قومی سیاست کو بھی بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر ایک پوسٹر کا ڈیزائن نہیں تیار ہو سکتا‘ اگر ایک سے زیادہ تخلیقی ذہن جمع نہ ہوں۔ پوسٹر کے لیے تصویر سے لے کر لکھائی کے خط (Font) تک کا انتخاب ایک تخلیقی عمل ہے۔ عمران خان صاحب کی عوامی شبیہ کو جس طرح تراشا اور پھر ذہنوں میں اتاراگیا‘ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کسی فرد کا نہیں‘ ادارے کا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ادارہ کون سا ہے؟ کہاں ہے؟
بظاہر تحریکِ انصاف کو آج مقتدرہ کی حمایت میسر نہیں۔ اس کے باجود ریاستی نظام ان کی دست گیری کر رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں ایک دن جیل نہیں بھجوا سکیں۔ ان کے خلاف تمام مقدمات چیونٹی کی چال چل رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن روز ان کی زبان سے گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ ایسی مؤثر حکمتِ عملی کی تشکیل کسی اکیلے آدمی کا کام نہیں۔ یہ حکمتِ عملی بنانے والا پھر کون ہے؟
خان صاحب پر بہت سے مقدمات قائم ہیں۔ صرف وکیلوں کی مد میں کروڑوں روپوں کی ضرورت ہے۔ کسی وکیل سے پوچھئے کہ خواجہ حارث جیسے قانون دانوں کی فیس کیا ہے؟ خان صاحب کی حفاظت پر سینکڑوں لوگ مامور ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ تحریکِ انصاف میں فنڈ کیسے جمع ہوتے ہیں؟ اعجاز چودھری صاحب کی آڈیو تو اب سامنے آئی ہے۔ یہ سوال اس واقعے سے کہیں پرانا ہے۔ جو اے ٹی ایم مشینیں پہلے میسر تھیں‘ اب وہ بھی نہیں ہیں۔
عوامی مقبولیت ووٹ دلا سکتی ہے مگر وہ حکمتِ عملی دے سکتی ہے نہ بیانیہ۔ یہ دونوں کام پارٹی کرتی ہے جو ان کے ذریعے عوام کو اپنی جانب کھینچتی اور ان کے ووٹ لیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ایسے نظام موجود ہوتے ہیں جہاں فیصلہ سازی ہوتی ہے اور وہ تلاش بھی کیے جا سکتے ہیں۔ میں اس ضمن میں دوسری جماعتوں کا حوالہ دے چکا ہوں۔ باوجود کوشش کے میں یہ سراغ نہیں لگا سکتا کہ تحریکِ انصاف میں فیصلہ سازی کا فورم کون سا ہے؟ وہ کون سے افراد ہیں جو اس فورم کے رکن ہیں؟ ان کی ذہنی استعداد کیا ہے اور اس کے کون سے مظاہر‘ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے؟ مالی وسائل کی فراہمی کا سوال اہم ہے مگر پالیسی سازی کا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
اس کالم کاکوئی قاری اگر ان سوالات کے جواب تک رسائی میں میری مدد کرے تو میں اس کا شکر گزار ہوں گا۔