کچھ وہ بھی تھے جنہیں اپنی اِس حیثیت کا پاس تھا کہ وہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے اُمتی ہیں۔ وہ رسول جن کی چادرِ رحمت نے عالمین کو ڈھانپ رکھا ہے۔ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے مسیحیوں کی حفاظت کی۔ ان کے لیے اپنے دروازے کھولے۔ جائے نماز لے کر ان کے دروازوں پر کھڑے ہو گئے۔ انہیں بلوائیوں سے بچایا اور ساتھ ہی اپنے دین اور اپنے ایمان کو بھی۔
اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے؟ اگر وہ رحمت للعالمین ہیں تو اُن کی امت ہونے کے ناتے عالمین کے لیے ہمارا وجود کس بات کی علامت ہوناچاہیے؟ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہماری یہ نسبت ہم سے کس کردار کا تقاضا کرتی ہے؟ پرانی اُمتوں نے اگر اس تقاضے کو نظر انداز کیا تو عالم کے پروردگار نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ زمین پر پھیلی ہوئی تاریخ کس بات کی خبر دے رہی ہے؟ قرآن مجید نے ہمیں اس بارے میں کیا رہنمائی دی ہے؟
ہم جس پیغمبر کی اُمت ہیں‘ وہ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ ظلی نہ بروزی۔ یہ بات قرآن مجید نے بتائی اور رسالت مآبﷺ نے بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کی امت بھی آخری امت ہے۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ کے لیے شہادتِ حق کی ذمہ داری ادا کی جو امت کا پہلا مصداق تھے۔ پھر انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دوسروں پر (علی الناس) شہادت دیں۔ صحابہ نے یہ ذمہ داری نبھائی۔ اس دور میں اب یہ ہماری ذمہ داری ہے جو آپ ﷺ کے امتی ہیں۔
شہادتِ حق کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین جو اللہ کے رسولﷺ نے ہم تک پہنچایا‘ وہ ہم دوسروں تک پہنچائیں۔ جو عالم ہے‘ وہ دنیا کے سامنے اس کی شرح و وضاحت کرے۔ لوگوں کے اٹھائے اشکالات اور اعتراضات کا جواب دے۔ ان تک دین کی دعوت پہنچائے۔ جو حکمران ہے‘ وہ اپنے طرزِ عمل سے بتائے کہ حکومت و ریاست کے باب میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کیا ہیں۔ جو ماں یا باپ ہے‘ وہ اپنے رویے سے ان تعلیمات کا مظہر ہو جو والدین کے لیے دی گئیں۔ جو عام شہری ہے‘ وہ اپنے وجود کو اس طرح حق کا گواہ بنائے کہ انفرادی افعال میں دین کا نمائندہ بن جائے۔
جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا‘ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق‘ کیا ہم نے اپنا کردار ادا کیا؟ حکومت و ریاست نے کیا اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ ایک مذہبی اقلیت کے ساتھ اس وعدے کو نبھایا جائے جو آئین میں ان کے ساتھ کیا گیا؟ کیا ان کے جان و مال کو وہ تحفظ ملا جس کی فراہمی کے لیے ریاست جواب دہ تھی؟ اڑوس پڑوس میں رہنے والوں نے کیا وہ ذمہ داری ادا کی جو ہمسائیوں کے حوالے سے دین ان پر عائد کرتا ہے؟ شہریوں نے ایک ملزم کو‘ کیا قانون کے حوالے کیا یا انہیں خود ہی مجرم قرار دے کر ان کے ہم مذہبوں کو بھی سزا دے ڈالی جن پر الزام بھی نہیں تھا؟
جڑانوالہ میں یہ نہیں ہوا کہ ان لوگوں کو ہجوم نے سزا دے دی جن پر توہینِ مذہب کا الزام تھا‘ جیسے سیالکوٹ میں ہوا۔ یہاں تو ان کے گھر جلے‘ جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ وہ عبادت گاہیں خاکستر ہوئیں جن کا اس واقعے میں کوئی قصور نہ تھا۔ یہی نہیں‘ پورے ملک اور قوم کو دنیا کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا‘ جنہیں اس واقعے کی کوئی خبرنہ تھی۔
اس واقعے میں سچ یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کی تو وہ مقامی لوگ تھے جو ان مسیحیوں کے سامنے ڈھال بن گئے اور انہوں نے انہیں فسادیوں سے بچایا۔ اُن کے علاوہ ہم سب نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اپنے تعلق کو اس طرح نہیں نبھایا جس طرح کہ اس کا حق تھا۔ آپﷺ نے مدینہ کے یہود سے جو معاہدے کیے‘ آخری درجے میں ان کی پا سداری کی۔ مکہ کے مشرکین سے جو عہد کیا‘ اسے نبھایا۔ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو متوجہ کیا کہ جس کا کوئی عہد نہیں‘ اس کا کوئی ایمان نہیں۔ صلح حدیبیہ کے واقعے میں ہم جانتے ہیں کہ کیسے آپؐ نے دل پر پتھر رکھا مگر عہد پورا کیا۔
ہمیں اب اس نقصان کی تلافی کرنی ہے۔ ہم سے مراد تمام ریاستی اور سماجی طبقات ہیں۔ ریاست کو جرم کی نسبت سے مجرموں کو سزا دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ مستقبل میں کوئی فساد فی الارض کے بارے میں سوچ نہ سکے۔ یہ دین کا حکم ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ فساد کی سزا تقتیل ہے جو قتل سے بھی شدید تر ہے۔ علما کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ وہ مسندِ ارشاد و دعوت سے مسلم عوام کو یہ بتائیں کہ اڑوس پڑوس میں بسنے والے غیرمسلم ہم وطنوں کے ساتھ ان کا سلوک کیا ہونا چاہیے۔
میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں سماج کو حساس بنائے اور ان انتہا پسندانہ رجحانات اور رویوں کے خلاف مہم چلائے جو اس طرح کے حادثات کو جنم دیتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی اخلاقیات کی اصلاح کو اپنا مشن بنائے ا ور اخلاقِ نبوی کی روشنی میں اس کی تشکیلِ نو کرے۔ اہلِ علم کا کام ہے کہ وہ تحقیق سے اسوۂ حسنہ کے وہ واقعات لوگوں کے سامنے لائیں جو آپﷺ کی رحمت کے پہلو کو نمایاں کرتے ہیں اور جو سب کو محیط ہے۔
ختمِ نبوت کا عقیدہ اس امت پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہم نے لوگوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام دینِ حق ہے۔ یہ خدا کا آخری پیغام ہے جو سیدنا محمدﷺ کی وساطت سے ہم تک پہنچا۔ اس ہدایت میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل ہے۔ اس کے لیے جہاں ہمیں نبوی اخلاق کو اپناتے ہوئے دنیا کے سامنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے ہیں‘ وہاں غیر مسلموں تک دین کی دعوت بھی پہنچانی ہے تاکہ وہ بھی خبردار رہیں کہ انہیں اللہ کے حضور میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ ہمیں ان کا خیر خواہ بننا ہے جس طرح اللہ کے رسول پوری انسانیت کے خیر خواہ تھے اور اسے دائمی خسارے سے بچانا چاہتے تھے۔
جڑانوالہ واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے ہم سب کو اپنے بارے میں سوچنا ہے۔ ہم یہ عہد کریں کہ ہمارا وجود اقلیتوں کے لیے خوف کے بجائے امن کی علامت ہو۔ انہیں اس پر یقین ہو کہ ایک مسلمان سے ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ جس دن ہم اپنے طر زِ عمل سے یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے‘ مجھے امید ہے کہ زبانی تبلیغ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
ہمیں خود پر ایک احساس کو غالب کرنا ہے: ہم اُس رسول ﷺکی امت ہیں جو عالمین کے لیے رحمت بنائے گئے ہیں۔ ہمیں دنیا کو اس کا عملی ثبوت دینا ہے۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں کے لیے سراپا رحمت بننا ہے۔ یاد رکھیں کہ برصغیر تک اسلام پہنچانے کا سہرا جس شخصیت کے سر ہے‘ اس کا تعلق ان طائف والوں کی نسل سے تھا‘جن کے مظالم کے باجود‘اللہ کے رسول ﷺنے ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا اور ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی۔ محمد بن قاسم طائف کے ایک قبیلے بنو ثقیف سے تھے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کی رحمت نے اسی طرح دنیا کو اپنے حصار میں لیا۔