بھارت سے آنے والی زیادہ اہم خبر ہماری نظروں سے اوجھل رہی۔ چاند پر قدم رکھنے سے زیادہ اہم۔
گزشتہ پانچ سال میں بھارت میں غربت کی شرح میں 10فیصد کمی آئی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ایک ہمہ جہتی غربت انڈیکس (MPI) بنایا ہے۔ اس کے مطابق خوراک‘ تعلیم‘ صحت اور صفائی جیسے معیارات پر کسی ملک میں پائی جانے والی غربت کو ماپا جاتا ہے۔ 2015-16ء میں بھارت میں غربت کی شرح 24.85فیصد تھی جو2019-21ء میں کم ہو کر 14.96فیصد ہو گئی۔ پانچ سال میں 135ملین افراد اس ہمہ جہتی غربت سے نکلے ہیں۔ دیہی علاقے میں غربت نسبتاً زیادہ کم ہوئی ہے۔ وہاں یہ شرح 32.59فیصد سے کم ہو کر 19.28فیصد پر آگئی ہے۔ جولائی میں یو این ڈی پی نے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس کے مطابق 2005ء میں بھارت کی 55فیصد آبادی ہمہ جہتی غربت کا شکار تھی۔ 2021ء میں یہ کم ہو کر 16.4فیصد پر آگئی ہے۔ یہ ہے وہ اصل میدان جس میں بھارت کے ساتھ تقابل کی ضرورت ہے۔
اس سے زیادہ قابلِ افسوس بات کوئی نہیں کہ تارے زمین پر بُجھ رہے ہوں اور آپ چاند پر قدم رکھنے کا شوق پال لیں۔ ترقی پذیر اقوام کی ترجیحات وہ نہیں ہو سکتیں جو ترقی یافتہ اقوام کی ہوتی ہیں۔ ریاست کے لیے سب سے اہم زمین پر موجود زندگی کی حفاظت ہے۔ اگر اُس کی حدود میں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اور وہ چاند پر کمند ڈالنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہو تو اس سے زیادہ بے بصیرتی کوئی نہیں ہو سکتی۔
تقسیمِ ہند کے بعد ہم نے تاریخ کے جس نئے عہد میں قدم رکھا‘ اس کی صورت گری کا کام پست فکر لوگوں کے سپرد ہو گیا۔ تقسیم اگر ناگزیر ہی تھی تو اُس کو اس خطے کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا انحصار اس وقت کی سیاسی قیادت پر تھا۔ قائداعظم نے تو یہ کہا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا جیسے ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم جس شدید نفرت کا نتیجہ تھی‘ اس کی موجودگی میں کیا ایسے تعلقات ممکن تھے؟ میرا احساس ہے کہ حالات اس خواہش کو واقعہ بنانے کے لیے سازگار نہیں تھے۔
باؤنڈری کمیشن کی ناانصافی اور سردار پٹیل جیسے کرداروں نے اس تلخی میں اضافہ کیا جسے اب کم کرنے کی ضرورت تھی۔ گاندھی جی کو اس کا احساس تھا۔ اسی لیے انتہا پسند برہمن ذہنیت نے انہیں قتل کر ڈالا۔ ایک دوسرے کا خوف پہلے ہی دن سے سرحد کے دونوں طرف لوگوں کی رگوں میں اتار دیا گیا۔ ہماری نئی حکمتِ عملی کی بنیاد یہی خوف تھا۔ اسی خوف نے کبھی دوسرے کے خلاف جارحیت کی صورت میں ظہور کیا اورکبھی دوسرے کو مٹانے کی خواہش نئی ریاستوں کی پہلی ترجیح بن گئی۔ یوں وسائل کا رُخ عوام کے بجائے ریاست کی طرف ہو گیا۔ عوام کی بہبود کے بجائے ملک کا دفاع ہماری ترجیح بن گیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ غربت و افلاس میں لپٹی ہوئی دونوں قومیں اس بات پر فخر کر رہی ہیں کہ وہ ایٹمی قوت ہیں۔
بھارت اس لیے بہتر ثابت ہوا کہ اس نے صرف دفاع کو اہم نہیں جانا۔ اس کے ساتھ عوام کی بہبود پر بھی اپنے وسائل خرچ کیے۔ اگر بھارت پر قبل از وقت بڑی طاقت بننے کا خبط سوار نہ ہوتا تو وہاں غربت میں مزید کمی آ جاتی اور ہم بھی قومی تعمیر کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیتے۔ بھارت کی ترجیحات بھی پوری طرح درست نہیں تھیں لیکن ہمارا حال تو اس سے بھی بدتر ہوا۔ چاند تو دور کی بات‘ ہم تو زمین کے تاروں کو نہیں بچا پا رہے۔ ہمارے ہاں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے جو 'تازہ ترین‘ اعدادو شمار میسرہیں‘ وہ 2017-18ء کے ہیں۔ اس کے مطابق یہاں ہمہ جہتی غربت کی شرح 38.3فیصد ہے۔ جو لوگ شدید غربت میں مبتلا ہیں ان کی تعداد 21.5 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ تعداد 4.2 فیصد ہے۔ صحت اور تعلیم جیسی سہولتوں سے محرومی کی شرح‘ ہمارے ہاں 51.7 فیصد اور بھارت میں 42 فیصد ہے۔ بھارت میں بھی کچھ کم نہیں لیکن ہمارے ہاں کہیں زیادہ ہے۔
جو تقابل اہم ہے‘ وہ یہ کہ بھارت میں گزشتہ پانچ سال میں غربت میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔ ہمارے ہاں اس دور کے اعدادو شمار میسر نہیں لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2017-18ء کے مقابلے میں آج ہمارے لوگ کہیں زیادہ بدحال ہیں۔ اگر اُس وقت ہمہ جہتی غربت کی شرح 38.3فیصد تھی تو آج یقینا 50‘ 55 فیصد سے کسی طرح کم نہیں ہو گی۔ ہمارے ہاں غربت بڑھی اور بھارت میں کم ہوئی ہے۔
میرے نزدیک بھارت کے ساتھ یہ موازنہ کہ وہ چاند پر پہنچ گیا اور ہم نہیں پہنچ سکے‘ بے معنی ہے۔ مقابلے کا اصل میدان یہ ہے کہ ہماری ریاست نے بھارت کے مقابلے میں عوام کی زندگی کو زیادہ آسودہ بنایا ہے یا کم۔ بھارت کے پاس تو اس مہنگے پروگرام کو جاری رکھنے کا کچھ نہ کچھ جواز ہے کہ اس نے یہ کامیابی عوام کی بدحالی کی صلے میں حاصل نہیں کی۔ تسخیرِکائنات کے ساتھ عوام کی حالت کو بھی بہتر بنایا ہے۔ ہمارے پاس ایسے پروگراموں کا کوئی جواز نہیں جہاں عوام کی حالت آئے دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ہم نے تو سال بھر میں صرف دو بار رمضان اور شوال کا چاند دیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے رویتِ ہلال کمیٹی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں چاند سے کیا لینا دینا۔
ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین بھارت کی ترجیحات کی روشنی میں نہیں کرنا۔ ہمارے پاس ایک سدِ جارحیت موجود ہے۔ جیسے تیسے ہم اس کا بوجھ اٹھا رہے ہیں کہ اس کا خوف بھارت کو جارحیت سے روک سکتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ بھارت چاند پر جا رہا ہے یا مریخ پر۔ ہماری ترجیحات کا تعین ہماری قومی ضروریات کے تحت ہونا چاہیے۔ ہم نے ریاست کا بہت دفاع کر لیا۔ اب لازم ہے کہ وسائل کا رُخ عوام کی طرف کیا جائے۔ عوام اگر تعلیم یافتہ اور صحت مند نہیں ہو ں گے تو چاند تو دور کی بات‘ زمین پر ایک مقام سے دوسرے مقام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
چاروں طرف خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ جس میں کچھ بھی صلاحیت ہے‘ وہ ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش میں ہے۔ میں گزشتہ دنوں میں کئی جامعات کے اساتذہ سے ملا۔ کم و بیش سب کی رائے یہ ہے کہ کسی مضمون کے لیے اب اہل استاد نہیں ملتا۔ ہر انٹر ویو کا نتیجہ مایوسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بہتر لوگ ہیں‘ وہ ملک سے جا رہے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے لوگ باقی رہ گئے ہیں جو کہیں جانے کے قابل نہیں۔ اس صلاحیت کے ساتھ چاند پر کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
مجھے کہیں اس خطرے کا احساس دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ یہ خطرہ تو محسوس کر رہے ہیں کہ ڈالر ملک سے جارہا ہے‘ یہ خطرہ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ انسانی وسائل بھی ملک سے نکل رہے ہیں۔ انہیں روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ڈالر کی پرواز کو قابو میں لانا۔ اس ماحول میں یہ تقابل بے معنی ہے کہ فلاں چاند پر پہنچ گیا اور ہم کیوں نہیں پہنچے۔ ہمیں سب سے پہلے زمین پر اپنے پاؤں کو مضبوطی سے جمانا ہے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ تمنا کا دوسرا قدم چاند پر ہو یا مریخ پر۔
ہماری تاریخ ترجیحات کے غلط تعین کی عبرت ناک داستان ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔