مذہب اپنے جوہر میں اُخروی ہے اور اپنے وجود میں اخلاقی۔
اس سے مراد کیا ہے؟ مذہبی آدمی کا ہر قدم اس فکر کے تحت اُٹھتا ہے کہ کل جب خدا کے حضور میں پیشی ہو تو وہ سرخرو ٹھہرے اور دائمی خسارے سے محفوظ رہے۔ وہ اسی احساس میں جیتا ہے۔ یہ مذہب کا جوہر ہے۔ دوسری طرف انسان ایک وجود رکھتا ہے۔ یہ وجود حیاتیاتی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ حیاتیاتی اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ بقا کے لیے کس سامان کی ضرورت ہے۔ یہ علم اس کے داخل میں ہے جو ہر جاندار کو عطا ہوا ہے۔ انسان کے داخل سے مگر ایک اور آواز بھی اٹھتی ہے جو اسے بتاتی ہے کہ خیرکیا ہے اور شر کیا ہے۔ یہ اس کے اخلاقی وجود ہونے کی دلیل ہے۔ دوسرے جاندار اس سے محروم ہیں۔ اللہ کے پیغمبر انسان کو اسی آواز کی طرف متوجہ کرتے اور اس کے اخلاقی وجود کی تطہیر کا سامان کرتے ہیں۔
مذہب اگر سیاست میں یا معاشرت میں مداخلت کرتا ہے تو اسی مقدمے کے ساتھ۔ یہ انسان ہی ہے جو سیاستدان ہے۔ وہی ہے جو سماجی ادارے قائم کرتا ہے۔ مذہب اسے بتاتا ہے کہ اس دنیا میں اپنی بقا اور زندگی کو منظم بنانے کے لیے وہ جو قدم اٹھائے مذہب کے اس مقدمے کو سامنے رکھے۔ وہ متنبہ رہے کہ مذہب کسی گروہی عصبیت کا نام نہیں۔ یہ پروردگار کی ہدایت ہے۔ یہ اسے 'آخرت مرکز‘ بناتا اور اس کے اخلاقی وجود کی پاکیزگی کا اہتمام کرتا ہے۔
انسان اس بات کو اکثر بھلا دیتا ہے۔ کبھی اس پر گروہی عصبیت غالب آ جاتی ہے اور کبھی شخصی مفاد۔ وہ گروہ کی محبت میں سب کچھ جائز اور اسے مذہب کا مطالبہ سمجھتا ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے کی جانے والی سعی و جہد کو 'جہاد فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ اسی لیے انسانوں کو تذکیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کے پیغمبر اسی کے لیے آتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ نے بنی اسرائیل میں یہی ذمہ داری ادا کی جو یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ دینِ موسوی پہ قائم ہیں۔ سیدنا محمدﷺ نے یہ ذمہ داری ایک سطح پر عربوں کے لیے سر انجام دی جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ دینِ ابراہیمی پر کھڑے ہیں۔ چونکہ آپﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے‘ اس لیے آپ نے عالمی پیمانے پر حق کی شہادت دی۔ یہ آپ کی دعوت کی دوسری سطح تھی۔ اللہ نے آپﷺ کے بعد یہ کام اب اُمت کو سونپا ہے کہ وہ دوسروں پر حق کی شہادت دے۔ طریقہ یہ بتایا کہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اٹھیں جو دین سیکھیں اور پھر انذار کریں۔
یہ مقدمہ تو سب کے لیے قابلِ فہم ہے کہ مذہب کا پیغام جوہری طور پر آخرت سے متعلق ہے مگر اس باب میں وضاحت کی ضرورت ہے کہ وجودی اعتبار سے مذہب کا مقدمہ اخلاقی کیسے ہے؟ مذہب چند اخلاقی اقدار سے وابستگی کو لازم قرار دیتا ہے۔ ایک فرد جب خود کو مذہبی کہتا ہے تو یہ اس کا شعوری فیصلہ ہے۔ یہ اعلان ہے کہ میرے فیصلے کسی مادی سود و زیاں یا گروہی و شخصی مفاد کے بجائے ان اخلاقی اقدار کے پابند ہوں گے جن کا احساس میرے داخل میں ہے اور جن کی یاد دہانی اللہ کے پیغمبر کراتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ تم کو ہر صورت میں عدل اور انصاف پر کھڑا رہنا ہے۔ یہاں تک کہ کسی گروہ کے ساتھ دشمنی بھی تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے (المائدہ:8)۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے مسلمان بھائی کی مددکے لیے فرمایا وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جائے۔ اسی طرح مسلح اقدام کے لیے ایک اجتماعی نظم یا ریاست کو ضروری کہا۔ تصادم ناگزیر ہو جائے تو محارب اور غیرمحارب میں تمیز کرنے کی ہدایت کی۔ مذہب کو اس سے کم دلچسپی ہے کہ اس کے ماننے والے مادی طور پر فاتح ہیں یا مفتوح۔ اسلام کو اس سے دلچسپی ہے کہ ان کی اخلاقی شکست کسی صورت میں نہ ہو۔ انسان سے دیگر الہامی مذاہب کا مطالبہ بھی یہی ہے۔
اپنی اس اخلاقی حساسیت کی بنا پر ظلم مذہب کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہ آواز کیسے اٹھائی جائے گی اس کا تعلق حالات اور وسائل سے ہے‘ تاہم مذہب کے لیے ظلم قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ جس اخلاقی وجود کی بات کرتا ہے وہ ظلم کو سندِ جواز دے کر باقی نہیں رہتا۔ مذہب انسان پر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ظلم کا جواب ظلم نہیں۔ دفاع ہر کسی کا حق ہے۔ یہ حق بھی کسی ظلم کے لیے جواز نہیں بن سکتا۔
رہا وہ مقدمہ جو غیرمذہبی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہو تو اس کی بحث کا دائرہ دوسرا ہے۔ ایک گروہ کسی ریاست یا گروہ کے ظلم کا شکار ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے اسے ہر قدم اٹھانے کا حق ہے تو اس بحث میں مذہبی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ گفتگو منطقی یا عقلی دائرے ہی میں ہو سکتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مخالف ریاست کا طیارہ اغوا کر کے ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں تو اس دلیل کا جائزہ عقل اور منطق کی بنیاد پر لیا جائے گا۔ مذہبی دلائل کا مطلب مذہب کے ماخذ سے دلیل لانا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں آج قیامت برپا ہے۔ اس کی بنیاد سرزمینِ فلسطین پر اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کا قیام ہے۔ یہ اُس ظلم کی اساس ہے جو اَب ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کے شکار لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ اگر وہ بحیثیت مسلمان اپنا مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں تو حکمتِ عملی بناتے وقت انہیں لازماً قرآن و سنت سے رہنمائی لینا ہے۔ اگر وہ اسے ایک قومی مسئلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں ان کے ساتھ فلسطینی مسیحی اور دوسرے گروہ بھی شریک ہیں تو انہیں موجود عالمی قوانین اور روایات کے مطابق کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ ماضی میں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ حماس پہلے اور پی ایل او دوسرے کی نمائندہ ہیں۔
آج حماس نے جو راستہ اپنایا ہے یہ جواب میں مسلح اقدام کا راستہ ہے۔ ایران اور ترکیہ وغیرہ اس کو درست سمجھتے ہیں۔ اب لازم ہے کہ حماس کے حق میں ایرانی اور ترکی افواج اور طیارے حرکت میں آئیں۔ ترکیہ نے فلسطینیوں کی مرہم پٹی کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے۔ حماس کو مرہم پٹی کی نہیں‘ فوجی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر اس کو یہ مدد فراہم نہیں کی جاتی تو پھر ایرانی اور دوسری حمایت محض نمائشی ہے۔
حماس کے مقابلے میں ریاست ہے۔ جو ریاستیں حماس کے موجودہ اقدام کو درست سمجھتی ہیں‘ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً اس کی تائید میں آئیں۔ فلسطینیوں کی مرہم پٹی مدت سے ہورہی ہے مگر ان کا زخم آئے دن تازہ ہو جاتا ہے۔ حماس کو آج اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں طیاروں اور فوج کے مقابلے میں فوج کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ نے صرف مرہم پٹی کا سامان نہیں بھیجا‘ طیاروں سے لدا ہوا اس کا بحری بیڑا اسرائیل کی مدد کو پہنچ چکا ہے۔ جو لوگ انہیں یہ مدد نہیں دے سکتے انہیں چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کو تنہا مقتل میں بھی نہ دھکیلیں۔ انہیں سیاسی جدو جہد کا راستہ دکھائیں۔ بصورتِ دیگر کل جب تاریخ فلسطینیوں کے قاتلوں کی فہرست بنائے گی تو اس میں بہت سے دوستوں کا بھی نام ہو گا۔ انسانی جانوں کا معاملہ کھیل تماشا نہیں۔ اس کو گروہی مفادات یا سطحی جذباتیت کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے مذہب کا استعمال توکہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔