'نارسس‘ یونان کی ایک دیومالائی کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ ایک خوبصورت ہیرو۔ اپنے ارد گرد سے بے نیاز اور اپنی تعریف میں مگن۔ اس کے چاروں طرف لوگ تھے جو ہمہ وقت اس کی مدح کرتے‘ اس کے قصیدے پڑھتے اور اسے مافوق البشر سمجھتے۔ اپنی تعریف سن سن کر وہ ایسا خود پسند ہوا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہو گیا۔ دن رات خود کو دیکھتا رہتا۔ پانی کو چھوتا نہیں تھا کہ کہیں اس کا عکس بکھر نہ جائے۔ ایک دن اسی طرح بھوک پیاس سے مر گیا۔ مر نے کے بعد دیوتاؤں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا۔ نفسیات دان اسی سبب سے خود پسندی کے عارضے کو 'نرگسیت‘ کہتے ہیں۔
نرگسیت فرد کو برباد کرتی دیتی ہے۔ اگر نرگسیت زدہ آدمی لیڈر بن جائے تو سماج کو برباد کر دیتا ہے۔ ذہنی مریضوں کا ایک گروہ اس کے پیچھے چل پڑتا ہے جو ہر لمحہ اس کی خود پسندی کو ہوا دیتا ہے۔ اسی سے کلٹ وجود میں آتے ہیں جو ایک گروہ کی شعوری موت کا اعلان ہوتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین نے اس کا تجزیہ کیا ہے کہ ایک خود پسند لیڈر کیسے پوری اجتماعیت کو لے ڈوبتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم متنبہ رہیں۔ کہیں ہم بھی کسی نرگسیت زدہ قیادت کی خود پسندی کا ایندھن نہ بن جائیں۔
جنوری2009ء میں مبارک حیدر صاحب کی کتاب 'تہذیبی نرگسیت‘ شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے ایک باب باندھا ہے: 'نرگسیت کا مرض‘۔ چند صفحات میں انہوں نے ماہرینِ نفسیات کی تحقیق کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ اس میں وہ ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ نرگسیت کے مریض کی پہچان آسان نہیں: ''یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی اَنا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بنائے رکھتا ہے۔ چنانچہ نرگسیت کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں۔ ان کو پہچاننا اس لیے از حد ضروری ہے کیونکہ یہ اپنے منفی رویوں سے تنظیم (سماج) کی کارکردگی خراب کرتے ہیں‘‘۔
مبارک حیدر صاحب نے اس مرض کی کچھ علامات بیان کی ہیں جو ماہرینِ نفسیات کی تحقیق کا حاصل ہیں۔ میں یہ علامات انہی کی کتاب سے نقل کر رہا ہوں:
''نرگسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضروریات کو اپنی ضروریات پر اوّلیت دے۔ وہ دوسروں کے لیے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے۔ مثلاً جب وہ آپ کی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسے حقیقت میں آپ کی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہو جائے تو وہ صحت مند آدمی سے زیادہ جذباتی ردِ عمل کامظاہرہ کرتا ہے۔ جب کسی تقابلی جائزے کی نتیجے میں وہ دوسروں سے کم تر نظر آئے تو عام آدمی سے کہیں زیادہ غم و غصہ اور جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے مزاج کے اتار چڑھاؤ کا تعلق اسی بات سے ہوتا ہے کہ سماجی تقابل میں اسے اپنے بارے میں کیا خبر آئی ہے۔ تعریف ہوئی تو اتراتا ہے اور اگر کم تر قرار دیا گیا تو آپے سے باہر ہوتا یا پھر احساسِ مظلومیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
نرگسی شخص اپنی ناکامی کو اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے۔ یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے شخص میں اپنی ناکامی کو شرمناک بنا کر اپنی نفسیات میں مستقل گوندھ لینے کا رجحان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی ناکامی کو ہر صورت میں اپنے اوپر سے ہٹا کر کسی اور پر ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ البتہ جب کسی نرگسی شخص کی نظر میں اپنا مقام بہت ہی بلند ہو اور اسے اپنا مقام پست ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کر لے‘ تاہم اس میں اپنی اعلیٰ ظرفی کی دھاک بٹھانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی کوتاہی قبول کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیتا ہے کہ اس کا ثمر اسے تعریف و توصیف کی صورت میں ملے گا۔
تکبر‘ خود نمائی‘ فخر اور فنکارانہ مطلب براری نرگسی شخص کی صفات ہیں جن کا مظاہرہ وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی نفاست سے کرتا ہے۔ وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے۔ نرگسی طیش‘ دوسروں کی کردار کشی اور اپنی نمائش‘ نرگسی شخصیت کے طرزِ عمل کے ظاہری حصے ہیں۔ندامت اور تشکر سے انکار نرگسی شخصیت کا وہ نفیس ہتھکنڈہ ہے جس سے وہ اپنی فضیلت اور عظمت کا تحفظ کرتا ہے۔ یعنی اگر اپنی کوتاہی پر نادم ہو یا دوسروں کی نوازشات کا شکر گزار ہو تو اسے اپنی عظمت جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
مبارک حیدر صاحب ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کی 'پی ایچ ڈی پروفائل سائٹ‘ سے نرگسی شخصیتوں کے کچھ اور اوصاف بھی ڈھونڈھ کر لائے ہیں۔
''دوسرے کے مسائل و جذبات سے لاتعلقی کے نتیجے میں انہیں دوسروں کی بات کاٹنے اور اپنی سنانے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسرے کی بات سمجھنے کیلئے نہیں سنتے بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ اس کے جواب میں انہیں کیا کہنا ہے۔ لہٰذا ان کے سیکھنے کا عمل محدود اور ان کا علم اَنا سے رنگا ہوتا ہے۔ان کے خیال میں قواعد کی پابندی ان پر لازم نہیں ہوتی۔ اگر انہیں یقین ہو کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے۔
جب موضوع گفتگو یہ خود ہوں تو دیر تک سنتے ہیں اور کبھی روکتے نہیں‘ تھکتے نہیں۔ لیکن اگر گفتگو کا موضوع کوئی دوسرا ہو یا ایسا مسئلہ زیرِ بحث ہو جس میں ان کی ذات کا ذکر نہیں آتا تو یہ دورانِ گفتگو بے قرار یا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔نرگسی شخص کے ساتھ کام کرنے والوں پر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے‘‘۔
یہ کتاب 2008ء میں یا اس سے پہلے لکھی گئی۔ یہ اس موضوع کا ایک علمی مطالعہ ہے۔ مبارک حیدر صاحب کے پیشِ نظر تو مسلم سماج کے زوال کے اسباب تھے۔ انسانی نفسیات کا یہ جائزہ برسوں کی تحقیق کا حاصل ہے۔ یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو پہچانیں اور ساتھ ان لوگوں کو بھی ہم جن کی محبت‘ عقیدت یا شخصی وجاہت کا شکار ہوکر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔
انسانی نفسیات بہت پیچیدہ ہے۔ اس کو سمجھنا آسان نہیں۔ اسی لیے قومی زندگی میں محفوظ طریقہ یہی ہے کہ لیڈر کا انتخاب عقلی بنیادوں پر کیا جائے۔ ہم اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ کسی سے وابستہ ہوں کہ وہ انسان ہے اور اس میں کمزوریاں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی کمزوری ایسی ہو جو اجتماعیت کے لیے تباہ کن ہو۔ نرگسیت بھی ایسا ہی ایک مرض ہے۔ تاریخ میں ایسا ہوا کہ اپنی محبت میں گرفتار شخص نے پوری قوم کے مستقل بلکہ دنیا کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔ ہٹلر اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا پھیلایا ہوا فساد آج تک سمیٹا نہیں جا سکا۔ اسرائیل کا وجود بھی اسی کے اعمال کا ایک نتیجہ ہے۔
شخصی زندگی میں بھی ہمیں متنبہ رہنا چاہیے کہ کہیں اس مرض کا شکار نہ ہو جائیں۔ شخصی وقار کا خیال رکھنا اور نرگسیت‘ دو مختلف رویے ہیں۔ ان میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ خود کو نیک سمجھنا نرگسیت ہی کی ایک خطرناک علامت ہے جس کا لوگوں کو کم شعور ہوتا ہے۔ زعمِ تقویٰ میں مبتلا آدمی ہر وقت دوسروں کے عیب تلاش کرتا اور ان کے بیان میں لذت محسوس کرتا ہے۔ اس تذکرے میں وہ درپردہ اپنی نیکی ہی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔