کل ہم نے یومِ کشمیر منایا۔ عالمی سطح پر مگر اہلِ کشمیر پر ہونے والے بھارتی ظلم پر اس طرح احتجاج نہیں ہوا جس طرح اہلِ فلسطین کے خلاف اسرائیل کے مظالم پر کیا گیا۔
گزشتہ برس اکتوبر سے اہلِ فلسطین ایک مسلسل عذاب کا شکار ہیں۔ ایک آگ ہے جس نے ان کے جان و مکان کو گھیر رکھا ہے۔ کم و بیش 30ہزار جانیں اس کا ایندھن بن چکیں۔ جسمانی معذوریوں اور اموال کے نقصان کا کوئی شمار نہیں۔ بایں ہمہ‘ اس ظلم کے خلاف عالمی برادری نے غیرمعمولی احتجاج کیا ہے۔ حکومتوں نے بھی اور عوام نے بھی۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ نے بھی۔ اضطراب کی ایک لہر ہے کہ شرق و غرب میں پھیل گئی۔ کشمیر پر مگر ہم نے کبھی ایسا عالمی ردِ عمل نہیں دیکھا‘ باوجود اس کے کہ دونوں میں غیرمعمولی مماثلت ہے۔
اہلِ فلسطین 1948ء سے اضطراب میں ہیں۔ وہ اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بارہا تجاوز کر چکا جو اقوامِ متحدہ نے اس کے لیے طے کی تھیں۔ فلسطینیوں کی سرزمین مسلسل سمٹتی جا رہی ہے۔ ان کو ان کے اپنے ہی گھروں میں مارا جا رہا ہے۔ اہلِ کشمیر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کشمیر کے علیحدہ تشخص کو تسلیم کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں یہ طے کر چکی ہیں کہ ان کی خصوصی حیثیت کا احترام کیا جائے گا۔ بھارت نے ان قرادادوں کو پرِ کاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔ 5 اگست 2019ء کو تو حد کر دی گئی۔ اس کا خصوصی تشخص ختم کر دیا گیا۔ سب کو معلوم ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل رہا ہے‘ بالکل فلسطین کی طرح۔ یہاں باہر سے لائے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ کشمیری اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہو جائیں۔ بھارت کے ریاستی ادارے اسرائیل کی طرح عوام کا قتلِ عام کرتے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اس غیرمعمولی مماثلت کے باوجود کشمیر پر عالمی سطح پر وہ ردِ عمل کیوں نہیں ہوتا جو فلسطین کے معاملے میں سامنے آیا۔ نہ عالمی سطح پر نہ عالمِ اسلام کی سطح پر۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندی ہے اور عالمی سطح پر تشدد کو پسند نہیں کیا جاتا؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ فلسطین میں عسکریت کشمیر سے کہیں زیادہ ہے۔ فلسطین کے قوم پرست اور اسلام پسند دونوں عسکری جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی عسکریت پسندی کی تاریخ کشمیر سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ اگر دنیا اس کے باوجود ان کو مظلوم سمجھتی ہے تو اہلِ کشمیر کو کیوں نہیں سمجھتی؟ دنیا اگر فلسطین کے مسئلے کو حماس اور پی ایل او سے ہٹ کر دیکھتی ہے تو کشمیر کے مقدمے کو یہاں کے عسکریت پسندوں سے ہٹ کر کیوں نہیں دیکھ رہی؟
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ کشمیر کی اکثریت اپنا مقدمہ مذہبی بنیادوں پر لڑ رہی ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ فلسطینیوں کی اکثریت بھی اپنا مقدمہ مذہبی بنیادوں پر پیش کرتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شیخ احمد یاسین سے حماس کی موجودہ قیادت تک سب ایک مذہبی جذبے کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہیں اور فلسطین کو مسلمانوں کا ملک سمجھتے ہیں۔ اگر اس بات نے فلسطینیوں کے مقدمے کو متاثر نہیں کیا تو کشمیر کا مقدمہ کیوں متاثر ہو گا؟
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے کشمیر کا مقدمہ اس اہتمام کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے پیش نہیں کیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا؟ اس سوال کا جواب اثبات میں مان لینے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ فلسطین کا مقدمہ کس ملک نے عالمی سطح پر اہتمام کے ساتھ پیش کیا؟ اب تو وہ ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں جو کل فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ فلسطینی سفارتی سطح پر تنہا ہیں۔ وہ بھی اسی اجنبیت کا شکار ہیں جس اجنبیت کا کشمیری شکار ہیں۔ اس حوالے سے بھی اگر دونوں میں کوئی فرق نہیں تو پھر عالمی ردِ عمل میں فرق کیوں ہے؟
حکومتوں کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہیں مگر عوام کا معاملہ مختلف ہے۔ امریکہ اور یورپ کے کسی قابلِ ذکر ملک کی حکومت نے کبھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے باوجود وہاں کے عوام فلسطینیوں کے حق میں نکلتے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ وہ حماس کے حامی نہیں لیکن اسرائیل کے ظلم کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مسلمان ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ اس کا نقصان ان ریاستوں کو ہوتا ہے‘ صرف حکومتوں کو نہیں۔ اس کے باوجود ان ریاستوں کے شہری اسرائیل کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ ان کا یہ ضمیر کشمیر کے معاملے میں کیوں خاموش ہے؟
اس تجزیے سے واضح ہے کہ یہاں کسی تعصب کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ کوئی سبب نہیں کہ عالمی برادری کشمیر کے بارے میں کسی تعصب میں مبتلا ہو۔ بھارت کے ساتھ بھی ان کی محبت کی کوئی خاص وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ دیگر مذہبی اور تہذیبی مماثلتوں کو اگر شمار کیا جائے تو وہ اسرائیل سے زیادہ قریب ہیں۔ اس کے باوصف امریکہ اور یورپ کے شہری اسرائیلی مظالم کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔ بھارت کے مظالم مگر انہیں متاثر نہیں کرتے۔ کشمیر میں مارے جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ بہتا لہو مگر انسانی ضمیر کو بے چین نہیں کر سکا۔
اس میں شبہ نہیں کہ ایک دور میں اشتراکی بلاک نے فلسطینیوں کی عالمی سطح پر حمایت کی۔ یاسر عرفات سوویت یونین کے قریب تھے۔ ہمارے ہاں کے اشتراکی بھی اسی وجہ سے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ برصغیر کے اشتراکی من حیث الجماعت کشمیر کے بارے میں اس طرح جذباتی کبھی نہیں ہوئے جیسے فلسطین کے معاملے میں رہے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ایران کی حمایت کے بعد ایک خاص مسلک کے لوگ فلسطین کے بارے میں گرم جوش ہو گئے۔ یہ مگر کشمیر کے بارے میں کبھی اس طرح حساس دکھائی نہیں دیے۔ عالمی منظر نامہ مگر اب تبدیل ہو چکا ہے۔ مغرب میں سرمایہ دارانہ معاشرے کے عام لوگ اسرائیل کے خلاف نکلے ہیں جو کسی نظریاتی تقسیم کے قائل نہیں۔
میں عالمی برادری کے رویے میں اس فرق پر غور کرتا رہا ہوں مگر کوئی ایسی توضیح تلاش نہیں کر سکا جو عقلی طور پر متاثر کن ہو۔ میں نے پاکستانی عصبیت سے بلند ہو کر اسے سمجھنے کی کوشش کی مگر پھر بھی سمجھ نہیں پایا۔ صرف ایک پہلو ایسا ہے جس پر میں معلومات کی کمی کے باعث کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ کیا بھارت کی خارجہ پالیسی اتنی مؤثر ہے کہ وہ عالمی برادری کو کشمیر کے باب میں حساس نہیں ہونے دیتی؟ کیا بالی وُڈ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے؟ میں ان سوالات کے جواب تلاش نہیں کر سکا کہ اس موضوع پر میری معلومات ناقص ہیں۔ بھارت کی خارجہ پالیسی اگر مؤثر ہو تو بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ معلومات کی فراوانی کے اس دور میں بھارت لوگوں کے کان اور آنکھیں کیسے بند کر سکتا ہے؟
میں نہیں جانتا کتنے لوگوں نے اس سوال پر غور کیا ہے۔ کل 5فروری تھا۔ پاکستان نے یہ دن کشمیریوں کے نام کر رکھا ہے۔ اس دن یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہماری ان کاوشوں کا حاصل کیا ہے؟ کیا ہماری آواز‘ صدائے بازگشت کی صورت کہیں اور بھی سنائی دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ہمارا احتجاج گنبد کی صدا کیوں بن گیا ہے؟ ایسی صدا جسے صرف ہم ہی سنتے ہیں۔ دنیا فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کے درد کو کیوں محسوس نہیں کرتی؟