'نیک حکیم خطرہ جان‘ نیم ملا خطرہ ایمان‘۔
یہ محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہے۔ ذرا اس بربادی کا تصور کیجئے جب یہ دونوں ایک ذات میں جمع ہو جائیں! ایک فرد بیک وقت نیک حکیم ہو اور ساتھ نیم ملا بھی۔ سوشل میڈیا پر اِن دنوں یہ اجتماع بکثرت پایا جاتا ہے۔ انسانی نفسیات سے کھیلنے کے فن میں طاق یہ لوگ‘ عوام کی مذہبی جذباتیت اور کم علمی سے اتنی بے رحمی کے ساتھ فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ان کی اس جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔
انسان کی خواہشات عمر بھر اس کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ قویٰ مضمحل ہو جائیں تو جسم سے لپٹی ہوئی خواہشات کو کم ہو جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ انسان ایسے سہارے ڈھونڈتا ہے جو اعضا کی کمزوری کا موادا کر سکیں۔ اس کی یہ کمزوری وہ روزن ہے جہاں سے نیم حکیم داخل ہوتے ہیں۔ وہ اسے 'مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘ جیسے دل فریب 'اقوالِ زریں‘ سناتے ہیں۔ اپنا اعتبار بڑھانے کے لیے انہیں حکیم لقمان سے منسوب کرتے ہیں۔ آدمی اس فریب میں آ کر ان کا شکار بن جاتا ہے۔
اس شکار کے بچنے کا امکان اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اسے 'مذہبی ٹچ‘ دے دیا جاتا ہے۔ کیا سیاست اور کیا صحت‘ یہ نسخہ تو ہر جگہ کامیابی سے برتا جاتا ہے۔ نیم حکیم اور نیم ملا اسے جمع کر دیتے ہیں۔ وہ نماز جیسی عبادت کے ارکان کو بھی جسمانی صحت سے جوڑ دیتے ہیں۔ رکوع و سجود قربتِ الٰہی کے ایسے مظاہر ہیں جو انسان کے داخلی وجود میں جنم لینے والے شکر اور احسان مندی کے گہرے احساس کو‘ جو پروردگار کے لیے خاص ہے‘ اظہار کا پیرہن عطا کرتے ہیں۔ جس کی عظمت اور نعمتوں کے اعتراف میں انسان کا دل جھک جاتا ہے‘ اس کا جسم بھی اسی طرح جھک جاتا ہے۔ نماز قلب و جسم کا اظہارِ بندگی ہے۔
مذہبی ٹچ دینے والا نیم حکیم کیا کرتا ہے؟ وہ سجدے کو اعضائے رئیسہ کی صحت سے جوڑ دیتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر سجدے کو منظر بند کرتا اور بتاتا ہے کہ اس زاویے سے بیٹھیے تو فلاں عضو صحت مند رہتا ہے۔ یہ اعضا بھی وہ ہیں جو انسان کی ایک منہ زور جبلت سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کا اضمحال اسے فکر مند رکھتا ہے۔ وہ یہ منظر کشی مسجد میں کرتا ہے۔ اب جسے نماز کے حقیقت کا کچھ بھی شعور ہے‘ وہ سر پیٹ کے رہ جاتا ہے۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے: 'استغفراللہ‘۔ کہاں نماز جیسی اعلیٰ و ارفع عبادت اور کہاں اس کی یہ نیم حکیمانہ اور نیم ملائی تعبیر!
اب ایک نظر ایسے نیم حکیموں کے نسخوں پر ڈالیے۔ یہ بتاتے ہیں کہ کینسر سے لے کر نامردی تک‘ دنیا کے ہر مرض کا علاج تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لونگ‘ لہسن کے عجب اور مضحکہ خیز طرح سے استعمال کے طریقے بتائیں گے‘ اس تاثر کے ساتھ کہ یہ ان کی برسوں کی ریاضت اور 'تحقیق‘ کا حاصل ہے۔ ساتھ مذہب کا ٹچ یوں دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیا میں جو خواص رکھ دیے‘ انہیں یہ الہامی علم کی مدد سے دریافت کر لائے ہیں۔ کھجور اور شہد کو ایسے پیش کریں گے جیسے ان کا استعمال کوئی مذہبی فریضہ ہے۔ یہ ذیابیطس کے مریض کو بتائیں گے کہ شہد اور کھجورکھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شہد میں شفا ہے لیکن شوگر کا مریض اسے زیادہ استعمال کرے گا تو یہ اس کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ ان کا یہ ادھورا طبی اور مذہبی علم ایک مریض کو اخلاقی اور جسمانی موت کی دہلیز پہ لا کھڑا کرتا ہے۔
نباتات کو علاج کے لیے ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جدید طب کے وجود میں آنے سے پہلے چین‘ یونان اور ہندوستان سمیت ساری دنیا میں لوگ انہی سے علاج کیا کرتے تھے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ہاں جو حکمت رائج تھی یا اب بھی ہے‘ یہ یونانی ہے۔ اس کو ایک علم کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ اس کے ماہرین ہی کو یہ حق تھا کہ وہ لوگوں کا علاج کریں۔ جدید علم نے زندگی کے بارے میں انسانی تصورات کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ طب کا علم تو بطورِ خاص حیران کن ہے۔ قدیم طب کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ علم زوال کا شکار ہوا۔ اس کی جگہ جدید طب نے لے لی۔ مسئلہ مگر جدید یا قدیم کا نہیں‘ مہارت اور علم کا ہے۔ میں ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں جو نہ تو دین کے عالم ہیں اور نہ طب کے۔ یہ دراصل انسانی نفسیات اور اس کی کمزوریوں کے سوداگر اور لوگوں کے جان اور ایمان کے لیے خطرہ ہیں۔
میں طب کا تو نہیں مگر مذہب کا ایک سنجیدہ طالب علم ہوں۔ کم و بیش چار دہائیاں ہو گئیں اس دشت کی سیاحی کرتے ہوئے۔ میں یہی سمجھ سکا ہوں کہ مذہب انسان کے اخلاقی تزکیے کے لیے ایک الہامی بندو بست کا نام ہے۔ یہ دنیا اس جوابدہی کے لیے تیاری کا مقام ہے جس کے لیے انسانوں کو ایک دن اپنے پروردگار کی حضور میں کھڑا ہونا ہے۔ جو اس میں کامیاب ہو گا اسے جنت ملے گی جو دائمی آسودگی کا گھر ہے۔ رہی اس دنیا کی زندگی تو اس کا شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدائش کے ساتھ ودیعت کر دیا ہے۔ اس شعورکے زیرِ اثر وہ سماج کو جنم دیتا ہے جو اس کی دنیاوی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ انسان خدا کے ودیعت کردہ اس شعور سے اپنے لیے زندگی کے اسباب پیدا کرتا ہے اور اس کو درپیش خطرات کا سدِ باب کرتا ہے۔ عقل وہ صلاحیت ہے جو خدا ہی کی عطا ہے اور اس حوالے سے اس کے لیے چراغِ راہ ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ اس عقل کے دو معاون ہیں جن کی مدد سے وہ زندگی کو آسودہ بناتا ہے۔
حیوانی زندگی کی بقا کے لیے یہ بندوبست کفایت کرتا ہے۔ تاہم‘ چونکہ وہ ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے اور اس کا فساد‘ سماج اور اس کی زندگی کو اسی طرح برباد کر دیتا ہے جس طرح جسمانی مرض کی وبا اسے برباد کر دیتی ہے‘ اس لیے‘ انسا ن کو اخلاقی وباؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے قدرت نے ایک دوسرا انتظام کیا اور یہ پیغمبروں کی بعثت ہے۔ یہ سلسلہ بھی سیدنا محمدﷺ پر تمام ہو گیا۔ حیوانی وجود کو لاحق امراض اور وباؤں کے علاج کے لیے انسان اس عقل کی مدد سے علاج دریافت کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔ جیسے حال ہی میں اس نے کورونا کی ویکسین بنا لی یا اس سے پہلے جنم لینے والی کئی وبائیں اور امراض اسی طرح ختم کر دی گئیں۔
اخلاقی امراض کے لیے لیکن انسان محض عقل کے استعمال سے کوئی علاج دریافت نہیں کر سکا۔ اس کے لیے وہ پیغمبروں کا محتاج رہا۔ اس اخلاقی وجود کی صحت پر ہمیشہ کی اُس زندگی کا انحصار ہے جس کا آغاز موت کے بعد ایک بار پھر جی اٹھنے سے ہو گا۔ نیم حکیم اور نیم ملا اپنی کم علمی کے سبب اس معاملے کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یوں اس کے حیوانی وجود کے لیے خطرہ بنتے ہیں اور اخلاقی وجود کے لیے بھی۔ سماج کا صحت مند رہنے کے لیے ان کی گرفت سے نکلنا ضروری ہے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے: ایسے لوگوں کا مکمل بائیکاٹ۔ اخلاقی وجود کی شفا کے لیے دین کے اُن جید علما کی طرف رجوع کیجئے جن کے علم اور تقویٰ پر آپ کو بھروسا ہو۔ جسمانی امراض سے نجات کے لیے طب کے جید علما کے پاس جائیے‘ اس یقین کے ساتھ کہ شفا اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اس کے حصول کا یہ طریقہ بھی اللہ کے پیغمبروں ہی نے سکھایا ہے۔