وہ قضیہ جو کبھی 'عرب اسرائیل تنازع‘ کا عنوان تھا 'ایران اسرائیل معرکے‘ کی سرخی کیسے بن گیا؟
مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں عرب ایران تنازع کی جڑیں اس طرح پیوست ہیں کہ اسے تاقیامت ختم کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مذہبی تعبیرات نے اس کو لاینحل بنا دیا ہے۔ عربوں کی غالب اکثریت سنی ہے مگر ان میں شیعہ بھی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایران میں اکثریت شیعہ ہے لیکن ایرانی سنی بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ عرب دنیا کی مذہبی شناخت سنی اور ایران کی شیعہ ہے۔
عرب شیعہ‘ تاریخی اعتبار سے عرب قوم پرست جماعتوں سے وابستہ رہے یا پھر اشتراکی تحریکوں سے۔ وہ کبھی شیعہ شناخت کے ساتھ‘ عرب کی سیاسی زندگی میں متحرک نہیں تھے۔ عراق‘ شام‘ لبنان‘ بحرین اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک میں نہ صرف شیعہ آباد ہیں بلکہ بعض ممالک میں ان کی اکثریت ہے‘ جیسے عراق اور بحرین۔ عالمِ عرب کا سیاسی نظم جمہوری نہیں‘ اس لیے وہاں کسی کو آبادی کے تناسب کے مطابق اقتدار میں حصہ نہیں ملا۔ عراق میں اہلِ تشیع کیلئے اقتدار کا دروازہ تب کھلا جب صدام حسین کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔
عربوں کی اکثریت نے اپنے ہاں کے اہلِ تشیع کو 'خارجی‘ (outsider) اور 'عجمی‘ سمجھا اور ان کی عرب شناخت کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔ عرب میں بہت سے شیعہ ایسے تھے جن کے آبائو اجداد سولہویں صدی میں ایران سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب جدید عراق کی تعمیر ہوئی تو کربلا کی 75 فیصد آبادی ایرانی نژاد تھی۔ عرب دنیا میں‘ اسی سبب سے شیعہ ایک اقلیت شمار ہوئے اور بنیادی حقوق سے محروم رکھے گئے۔ یہ محرومی تاریخی عمل پر اثر انداز ہوئی اور اس نے تاریخ کا راستہ بدل دیا۔ اس کے لیے دو مقامات مرکز بنے۔ ایک لبنان‘ دوسرا ایران۔
لبنان میں شیعہ محرومی کو موسیٰ الصدر نے زبان دی۔ یہ 1960ء کی دہائی کا غروب تھا جب ان کا ظہور ہو رہا تھا۔ تہران یونیورسٹی سے سند یافتہ‘ وہ شیعہ الٰہیات اور مغربی فکر کے ایک عالم تھے جنہیں قدرت نے کرشماتی شخصیت عطا کی تھی۔ انہوں نے غالباً پہلی مرتبہ شیعہ شناخت کے ساتھ سماجی حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔ بہت جلد وہ منظر پر چھا گئے اور شیعوں نے عرب قومیت سے نکل کر اجتماعی سطح پر اپنی نئی شناخت کے ساتھ ابھرنا شروع کیا۔ ان کی تحریک 'اَمل‘ نے عرب شیعوں کو ایک نیا جذبہ دیا۔ امل نے عراقی‘ سعودی اور دوسرے ممالک کے شیعہ عربوں کو مسلح ٹریننگ دی۔ ایران کے انقلابی گارڈز کو بھی ابتدا میں یہاں کے ماہرین ہی نے تربیت دی۔
لبنان ہی سے اہلِ تشیع اور فلسطینیوں کے مابین ایک تعلق کا آغاز ہوا جو ابتدا میں خوشگوار نہ تھا۔ 1970ء کے معرکے 'بلیک ستمبر‘ کے بعد‘ اُردن کے ہاشمی بادشاہ‘ شاہ حسین نے اپنی سرزمین سے پی ایل او کے مراکز کو ختم کر نے کا فیصلہ کیا اور ان کو یہاں سے نکال دیا۔ بہت سے فلسطینی بیروت جا آباد ہوئے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد‘ اہلِ فلسطین نے مذاکراتی عمل سے اظہارِ برأت کرتے ہوئے خود کو نئے سرے سے مسلح مزاحمت کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ جنوبی لبنان ان کا مرکز بنا۔ ان کی اکثریت سنی تھی۔
جنوبی لبنان کو مرکز بنانے کے بعد‘ یہاں مسلح جدوجہد کے لیے تربیتی مراکز بنے۔ یہاں پہلے سے شیعہ آباد تھے جن کے فارم ہاؤسز اور بستیوں پر ان فلسطینیوں نے قبضہ کرنا شروع کیا اور شیعہ نوجوانوں کو اپنے ساتھ بزور شامل کیا۔ اس سے شیعوں میں فلسطینیوں کے خلاف ردِعمل پیدا ہوا۔ موسیٰ الصدر کی تحریک نے عرب حکمران طبقے کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا اور اس نے اس شیعہ بیداری کو ایک خطرہ سمجھنا شروع کیا۔ موسیٰ الصدر چونکہ ایرانی نژاد تھے‘ اس لیے اس خطرے کی شدت کو تاریخی پس منظر میں دیکھا گیا۔ 1978ء میں انہوں نے لیبیا کے دورے کا ارادہ کیا۔ اس وقت شام میں حافظ الاسد کی حکمرانی تھی۔ ان کا بھائی رفعت الاسد شامی سکیورٹی کا سربراہ تھا۔ اس نے ایرانی سفیر کو بلایا اور اسے یہ 'اطلاع ‘دی کہ کرنل قذافی موسیٰ الصدر کو لیبیا میں قتل کرا دے گا۔ موسیٰ کے پاس ایرانی پاسپورٹ تھا۔ موسیٰ الصدر لیبیا میں جا کر کہیں غائب ہو گئے۔ ان کے متاثرین ان کی اس غیبت کو روحانی طور پر دیکھتے ہیں۔
اس دوران عرب قومیت اور شیعہ شناخت کا یہ تنازع گہرا ہو رہا تھا جس کا اثر مسئلہ فلسطین پر بھی پڑا۔ 'امل‘ اور موسیٰ الصدر کے متاثرین فلسطینیوں کے مخالف تھے جس کی وجہ مقامی حالات تھے۔ جب اسرائیل لبنان میں فلسطینیوں کے مراکز پر حملہ آور ہوا تو انہوں نے اسرائیل کا خیر مقدم کیا اور اسرائیلی سپاہیوں کو ہار پہنائے۔ محمد حسین فضل اللہ نے‘ جو بعد میں حزب اللہ کے روحانی راہ نما قرار پائے‘ کہا: ''فلسطینیوں کا پھیلاؤ خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ لبنان کی سرزمین کو فلسطینیو ں کے بوجھ سے چھٹکارا دلایا جائے‘‘۔ اس دوران امل کے راہنما نبیہ بیری نے فلسطین مخالف قانون سازی میں بھی معاونت کی۔
اس تاریخی عمل کی تفہیم کے لیے یہ بھی ذہن میں رہے کہ 1994ء میں جب لبنان نے فلسطینی مہاجرین کو اپنی آبادی کا حصہ بنایا تو موجود آبادی کے تناسب کو بر قرار رکھنے کے لیے ان فلسطینیوں کو شیعہ‘ سنی‘ دروزی اور مسیحی آباد ی کا مساوی طور پر حصہ بنا دیا‘ قطع نظر کہ ان کا اصل مذہب کیا تھا۔ ابتدا میں جنونی لبنان میں تیس ہزار فلسطینی شیعہ قرار پائے جو اب حزب اللہ کے ووٹر ہیں۔
یہ حزب اللہ کا ابھرنا اور امل کی جگہ لیناہے جس نے اسرائیل اور لبنانی شیعوں کے تعلقات کو یکسر بدل دیا۔ ولی رضا نصر کے الفاظ میں ''جب حزب اللہ لبنان میں شیعہ سیاست کے نئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوئی اور اس نے لبنان سے اسرائیل کے انخلا کا عَلم اٹھایا تو اسرائیل کی حمایت ا ور فلسطینیوں پر حملوں کا 'گناہ‘ دھل گیا‘‘ (The Shia Revival, p.114)۔
عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی کا دوسرا مرکز ایران ہے۔ ایران کے انقلاب نے شیعہ شناخت کو مستحکم کیا۔ حزب اللہ اور ایران کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ 2006ء کے واقعات نے حزب اللہ کو مسئلہ فلسطین کا چیمپئن بنا دیا۔ اس سے عرب دنیا میں اس کی مقبولیت بڑھنے لگی۔ دوسری طرف عرب حکمران طبقے میں یہ سوچ غالب آ رہی تھی کہ فلسطین ان کیلئے بوجھ ہے۔ یہ تاثر پھیلنے لگا کہ وہ اسرائیل سے معاملات کرنا اور اس مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے ان کے بارے میں مایوسی بڑھنے لگی۔ ایک شامی سلفی راہنما ابو بیر الطرطوسی نے 2006ء ہی میں عربوں کو اس سے خبردار کر دیا تھا۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایران اور حزب اللہ نے اہلِ تشیع کو عرب دنیا کی ایک متحرک سیاسی قوت بنا دیا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے اہلِ عرب کی دوری نے جو خلا پیدا کیا‘ ایران نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نومبر سے فلسطین میں جو مقتل آباد ہے‘ اس سے فلسطینیوں کو تو لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملا لیکن ایران نے اپنے پاؤں مزید مضبوط کر لیے ہیں۔ ایران نے فلسطینیو ں کی حمایت میں اسرائیل پر حملہ نہیں کیا مگر اپنے سفارتخانے پر حملے کاجواب ضروردیا جس کا وہ حق رکھتا تھا۔
ایران نے کامیابی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ جدید تاریخ میں شیعہ احیا کا سفر‘ جو موسیٰ الصدر سے شروع ہوا‘ جسے ایرانی انقلاب نے مہمیز دی‘ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کو اگر منفرد واقعے کے بجائے‘ اس تاریخی تسلسل میں سمجھا جائے تو اس تاریخی عمل کی تفہیم آسان ہو جائے گی۔