جب سیاسی راہنما اوتار اور مرشد قرار پائیں اور صحافت سطحی مباحث میں لتھڑی ہو تو ایسے لوگ بابرکت ہوتے ہیں جو قومی مباحثے کا رُخ علم وتحقیق کی طرف موڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ برادرم وجاہت مسعود بھی 'تحویلِ قبلہ‘ کے ایسے علمبرداروں میں سے ہیں۔ اسی لیے میں ان کا قدردان ہوں۔ انہوں نے ایک پامال موضوع کو پھرسے تازہ کیا ہے اور اس بار وہ اپنے ترکش سے کچھ نئے تیر نکال کر لائے ہیں۔ یہ سوئے اتفاق ہے یا حسنِ اتفاق کہ صف کی دوسری طرف جو لوگ کھڑے ہیں‘ ان میں ایک میں بھی ہوں۔ لہٰذا میرا 'گھائل‘ ہونا لازم تھا۔
ہم دونوں جنگ کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس میدان میں علم وتحقیق کی تیر اندازی سے جو معرکہ گرم ہوتا ہے‘ اس کا مآل کارِ خیر ہوتا ہے۔ دلیل کی جراحی زخمی تو کرتی ہے مگر یہ اس سرجری کی مانند ہے جس کا انجام صحت مندی ہے۔ اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر‘ سماج میں مکالمے کا آگے بڑھنا ایک نیک اور صحت مندانہ عمل ہے۔ میدانِ جنگ اور سماج میں یہی فرق ہوتا ہے۔ جنگ کا نتیجہ نوحۂ مرگ ہے۔ مکالمے کا نشاطِ فکر۔
وجاہت مسعود اور مجھ جیسوں کو ایک مسئلہ درپیش ہے۔ 'ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے‘۔ وجاہت کا شمار لبرلز میں ہوتا ہے اور میں اس مذہبی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جسے اصلاح پسند (Reformists) کہا جاتا ہے۔ سماج کا فکری ڈھانچہ اور عوامی مذاق‘ دونوں کے لیے سازگار نہیں۔ دونوں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ادھر د ل کی بات زباں پر آئی‘ اُدھر شمشیر نیام سے باہر آئی۔ اس کیفیت میں تمثیل‘ تلمیح اور استعارہ کام آتے ہیں۔ 'جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں‘۔ تاہم کبھی کبھی یہ شمشیریں بھی اس معرکے میں کام نہیں آتیں۔ ذرا ڈاکٹر محمد فاروق شہید کو یاد کر لیجیے۔ ان جیسا خوش گفتار کہاں سے لائیں؟ وہ یہ پیغام دیتے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ 'مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر‘۔
ہم لوگ کیا اور ہماری اوقات کیا‘ سیدنا مسیح علیہ السلام سے بڑھ کر تمثیل کس کے بیان کا حصہ ہو گی؟ سماج اور مذہب کے نمائندوں نے مگر انہیں اپنے تئیں مصلوب کر ڈالا۔ یہ الگ بات ہے کہ زندگی تاقیامت اُن کے لیے دیوارِ گریہ بنا دی گئی جہاں سر رکھے وہ روتے رہیں گے۔ کاش انہیں خبر ہوتی کہ جو مسیح جیسے خیر خواہوں کو سولی چڑھا دیتے ہیں‘ انہیں کبھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ پھر آنسو بہانے کے لیے ایک دیوار کفایت نہیں کرتی۔
وجاہت مسعودکی لہٰذا یہ مجبوری ہے کہ وہ کوئی استعارہ تلاش کریں جس کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائیں۔ عام طور پر اس مشکل میں‘ اورنگزیب عالمگیر‘ قائداعظم اور ضیا الحق ان لبرل دوستوں کے کام آتے ہیں۔ وہ جب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے تو یہ ثابت کرنے پہ اپنے توانائیاں صرف کر دیتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ چند دن پہلے ایک کالم نگار خاتون‘ جن کا میں بہت احترام کرتا ہوں‘ اپنے کالم میں اس پر آتش زیرپا تھیں کہ اسلامیات کو نصاب میں بطور لازمی مضمون کیوں شامل کیا گیا۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی بندوق ضیا الحق مرحوم کے کاندھے پر رکھ دی کہ انہوں نے تاریخ کو نصاب سے نکالا اور اسلامیات کو داخل کر دیا۔ ان جیسی ذی علم شخصیت کی نظر سے یہ حقیقت نہیں معلوم کیسے اوجھل ہو گئی کہ یہ' جرم‘ تو بھٹو صاحب کے نامۂ اعمال میں لکھا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ‘ اسلام پسند بھی پاکستان کو اپنی تعبیر کے مطابق 'اسلامی ریاست‘ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ تحقیق فرماتے ہیں کہ قائداعظم بھی یہی چاہتے تھے۔ پھر اس سادہ سوال کا جواب ان پر لازم ہوتا ہے کہ اگر قائداعظم بھی وہی چاہتے تھے جو آپ چاہتے ہیں تو آپ نے ان کی مخالفت کیوں کی؟ ان کی قیادت کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟
وجاہت اس پامال مضمون کو کچھ عرصے بعد پھرموضوع بناتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اگر میں مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ مستعار لوں تو وہ ہر چند ماہ بعد اس بلی کو اپنے تھیلے سے نکال لاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے تئیں اس کو مار دیتے ہیں مگر وہ اس پر کچھ منتر پڑھتے اور اسے پھر سے زندہ کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے دلائل کے تیروں سے اس کو پھر مارتے ہیں لیکن یہ پھر سے زندہ ہو جاتی ہے۔ یوں ایک طرف گربہ کشی جاری ہے اور دوسری طرف فسوں کاری۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس بلی کا انجام کیا ہو گا۔
اس بار وجاہت بھائی نے اپنی بندوق مولانا شبیر احمد عثمانی کے کندھے پر رکھی ہے۔ بہت تحقیق کے بعد کچھ خواب نکال لائے ہیں اور سردار شوکت حیات جیسے 'ثقہ‘ لوگوں کی شہادتیں۔ ڈاکٹر کائسلر کی گواہی بھی اس مقدمے کے حق میں پیش کی ہے اور پھر یہ نتیجہ برآمد کیا ہے کہ مولانا عثمانی کچھ اور کہتے تھے اور قائداعظم کچھ اور۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی سنایا کہ مولانا‘ قائداعظم پر حرفِ دشنام دھرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اگر مولانا شبیر احمد عثمانی اور قائداعظم کے مؤقف کا فرق واضح ہو جائے تو وہ عمارت دھڑام سے گر جائے گی جس پر 'اسلامی ریاست‘ کی تختی لگی ہے۔
یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے لبرل ہوں یا اسلام پسند‘ دونوں قائداعظم کو اپنا ہمنوا ثابت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس تائید کے بغیر وہ اپنا مقدمہ عوام تک نہیں پہنچا سکتے۔ میں اس مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں۔ اگر ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے جہاں اپنی بات کہنے کی آزادی ہوتی اور کسی کو مذہبی یا سیاسی فتوے کا خوف نہ ہوتا تو تاریخ کی خود ساختہ تعبیر کی بھی ضرورت نہ رہتی۔ اگر سماج کو ہم یہ تربیت دے سکتے کہ کسی سے اختلاف کرنے کے بعد بھی اس کا احترام ممکن ہے یا نظریاتی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے تاریخی کارنامے کا انکار کر دیا جائے تو یہ حاجت باقی نہ رہتی کہ کوئی تاریخ کو اپنے افکار کے سانچے میں ڈھالے۔ قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم ہوا۔ یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر آج کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہمیں کسی ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جسے قائد کی تصویب حاصل نہیں تو اسے یہ کہنے کا حق ہونا چاہیے۔
چونکہ ہم یہ حق نہیں دیتے‘ اس لیے قائداعظم ہوں یا علامہ اقبال‘ ہم ان کے خیالات کو اپنا فکری لبادہ اوڑھانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان تاریخ کو ہوتا ہے جو مسخ ہو جا تی ہے۔ صحیح بات تک رسائی کے لے لازم ہے کہ ایک مورخ‘ مورخ رہے‘ نظریہ ساز نہ بنے۔ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ یہ سوال تاریخ کا موضوع ہے۔ پاکستان کی ترقی کون سا ماڈل سازگار ہے؟ یہ سوال علمِ سیاسیات کا موضو ع ہے۔ اگر ہم اس فرق کو جان لیں تو تاریخی اور فکری بحثیں ایک ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔
وجاہت مسعود صاحب نے مولانا عثمانی کو عمود بنا کرجس بحث کا ایک بار پھر آغاز کیا ہے‘ وہ پانچ کالموں کے بعد بھی جاری ہے۔ پہلے میں نے خیال کیا کہ میں اس سلسلۂ مضامین کی تکمیل کا انتظار کروں۔ پھر سوچا کہ یہ غزل میں بارہا سن چکا۔ مجھے معلوم ہے کہ مقطع میں کیا ہے۔ اس لیے مجھے جواب آں غزل لکھ دینا چاہیے۔ غالب کا کہنا یہ ہے کہ جواب معلوم ہو تو قاصد کے آنے سے پہلے بھی خط لکھا جا سکتا ہے۔ میں قسطوں میں کالم نگاری کو درست نہیں سمجھتا‘ اس لیے یہ کالم نہیں‘ ایک مضمون ہے۔ اس تمہید کے بعد میں یہ عرض کروں گا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور بعض علما نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ کیوں دیا اور قائداعظم کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے؟