اگر یہ قتلِ عمد نہیں ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اس نام کا کوئی جرم دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ پھر ہر قتل اتفاقیہ ہے اور 'رضائے ربی‘۔ نظامِ عدل کے رکھوالوں سے مطالبہ ہے کہ اس جرم کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ کم ازکم ہمارے ریاستی نظام کے سرپرست مجرموں کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی مشقت سے تو بچ جائیں گے۔
پاپڑ بیچ کر غریب باپ نے اپنی لاڈلی بیٹی کو پڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ رسمی تعلیم کی سیڑھی کے آخری قدم پر جا کھڑی ہوئی۔ پھر اسے ایک سانپ (سپنی) نے ڈس لیا۔ صرف اسے نہیں‘ اس کے باپ کو بھی۔ جس معاشرے میں زندگی لُڈو کا کھیل بن جائے اور ریاست کا تمام نظام 'سانپ‘ کو بچانے نکل پڑے‘ وہاں صرف سانپوں کا راج ہو سکتا ہے۔ اگر آج گلی گلی سانپ پھنکار رہے ہیں تو اس پر شکایت کیسی؟
قاتلوں کا محافظ یہ نظام‘ قاتل کو بچانے کے لیے سرگرم ہو چکا۔ وکیل سے کیا گلہ کہ اپنے مؤکل کا دفاع اس کی 'اخلاقی‘ ذمہ داری ہے‘ ڈاکٹر نے بھی گواہی دی ہے کہ ملزمہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں۔ اخبار میں لکھا ہے: ''ملزمہ کنفیوزڈ ہے۔ ہوش و حواس میں نہیں۔ اسے عدالت میں پیش کیا جا سکتا نہ بیان ہی لیا جا سکتا ہے‘‘۔ ایک وڈیو گردش میں ہے جس سے حواس سے بیگانگی عیاں ہے۔ معلوم نہیں یہ ڈرامہ ہے یا نشہ۔ نشہ ہے تو کس کا؟ دولت کا؟ مشروبِ خاص کا؟ عدالت نے انصاف کا شاندار آغازکرتے ہوئے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اگر آغاز یہ ہے تو مقدمے کا انجام آپ خود جان لیں۔ درمیان کی متوقع کڑیاں میں بیان کر دیتا ہو۔
اس واقعے کا کوئی سو موٹو نوٹس نہیں لیا جائے گا۔ ہمارے نظامِ عدل کو اس سے کہیں بڑے آئینی عقدے ابھی حل کر نے ہیں۔ یہ طے کرنا ہے کہ کوئی جماعت پارلیمان میں نہیں تو کیا اسے مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں؟ عدالتِ عظمیٰ اس سوال کا فیصلہ اثبات میں دے چکی۔ اب اس پر اپیل کی کارروائی ہو گی۔ اس نوعیت کے نہ جانے کتنے اہم مسائل ہیں جو ایوان ہائے عدل میں زیرِ سماعت ہیں۔ پھر یہ نظام اپنی تھکاوٹ اتارنے کے بعد ابھی ابھی چھٹیاں گزار کے لوٹا ہے۔ یہ 'حادثہ‘ کسی نچلی عدالت میں زیرِ سماعت رہے گا۔ گمان یہی ہے کہ فریقین میں صلح ہو جائے گی۔ سنا ہے ملزمہ کا تعلق ایک ثروت مند خاندان سے ہے۔ اگر خاندانی دولت آج کام نہ آئی تو کب آئے گی؟ آپ کو شاہ نواز جتوئی کا مقدمہ تو یاد ہے نا؟ نور فاطمہ کو بھی ذرا یاد کر لیجیے۔ اس کا قاتل بھی ایک دن رہا ہو جائے گا۔ آمنہ بے چاری تو ایک پاپڑ فروش کی بیٹی تھی۔ پاپڑ فروش بھی مر چکا۔ اس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل کہاں کہ وہ عدالت سے انصاف خریدتا پھرے۔ وسائل تو دور کی بات‘ خاندان ہی اب کہاں ؟
پولیس‘ ڈاکٹر‘ وکیل سب مل کر ملزمہ کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ ان کوششوں نے ضائع تو نہیں جانا۔ سب سے پہلے تو یہ قتل 'حادثہ‘ شمار ہو گا۔ قانون یہی کہتا ہے۔ لہٰذا قتلِ عمد کی سزا کا تو سوال ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کر دیں گے کہ ملزمہ ذہنی مریضہ ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھائے گا کہ ذہنی مریضہ کو گاڑی چلانے کی اجازت کس نے دی؟ اسے ڈرائیونگ لائسنس کس نے جاری کیا؟ اور اگر اس کے پاس گاڑی چلانے کا اجازت نامہ نہیں تھا تو اسے یہ گاڑی کس نے دی؟ وہ مجرم کیوں نہیں ہے؟ اگر یہ سوال اٹھے بھی تو ان سب کے جواب قانون کے پاس موجود ہیں۔ قانون کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ شک کی بنیاد پر مجرموں کی سرپرستی کرے۔
میڈیا بھی اس خبر کو ایک آدھ دن میں بھول جائے گا۔اس کے پاس اس سے کہیں زیادہ دلچسپ واقعات موجود ہیں جن کی سنسناہٹ سے وہ عوام کو اپنی سکرین کے ساتھ جوڑے رکھے گا۔ کس کا نکاح‘ عدت گزرنے سے پہلے ہوا؟ کون سی بھارتی اداکارہ کا پاؤں بھاری ہو گیا؟ کس گلوکارہ کی 125ویں سالگرہ ہے؟ اتنی اہم قومی اور بین الاقوامی خبروں کی موجودگی میں آمنہ کا قتل کتنے دن خبر بن سکتا ہے؟ خونِ خاک نشیناں کا مقدر تو یہی ہے کہ وہ رزقِ خاک ہو جائے۔
مذہبی جماعتوں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے ملک کی کسی آمنہ کے لیے دھرنا دیں۔ انہیں امتِ مسلمہ کے مسائل حل کرنے ہیں۔ ان کی فکری پرواز اتنی بلند ہے کہ وہاں سے صرف اُمت دکھائی دیتی ہے‘ عام لوگ نہیں۔ مقامی ظلم ان کے خیال میں امت پر ہونے والے مظالم میں شامل نہیں۔ آمنہ اس امت کی بیٹی نہیں۔ تاریخ میں کبھی مقامی بیٹیوں پر ہونے والے ظلم پر کوئی دھرنا نہیں دیا گیا۔ بلوچستان میں بیٹیاں زندہ درگور کر دی گئیں اور کسی مذہبی جماعت نے احتجاج نہیں کیا۔ آج بھی دارالافتا سے بھی یہی فتویٰ جاری ہو گا کہ یہ قتلِ عمد نہیں ہے۔
یہ سب درمیان کی متوقع کڑیاں ہیں۔ ان کو جوڑ کر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ آمنہ اور اس کے باپ کا قتل طاقِ نسیاں کی نذر ہو جائے گا۔ اس پیش گوئی کے لیے کسی الہام کی ضروت ہے نہ علمِ غیب کی۔ جو آدمی اس ملک کی تاریخ کو جانتا ہے‘ وہ بتا سکتا کہ فلاں مقدمے کا کیا انجام ہو گا۔ عام آدمی کے ساتھ ہمارے نظامِ عدل کا سلوک ہم جانتے ہیں۔ پولیس ہماری اپنی ہے۔ ہمارے ہی بھائی عزیز اس میں شامل ہیں۔ وکیل بھی ہمارے بھائی ہیں اور جج حضرات بھی میری اور آپ کی برادری کے ہیں۔ ہم سب نے مل کر جو نظام بنایا ہے‘ اس میں مظلوم کی داد رسی کا کوئی امکان نہیں۔ ایف آئی آر درج ہو چکی مگر اس کا فیصلہ بھی سمجھیے کہ ساتھ ہی لکھا جا چکا۔
اس ملک کی سڑکوں پہ اتنے لوگ مر چکے جتنے دہشت گردی میں نہیں مرے۔ اگر کوئی تحقیق کرے تو ان میں سے اکثر قتلِ عمد میں آتے ہیں۔ سڑکیں بنانے والے ٹھیکے دار سے لے کر نو دولتیوں کی بگڑی اولاد تک‘ کتنے لوگ ہیں جو عام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ان کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ سڑک کی خرابی سے کیا حادثہ ہو سکتا ہے۔ تیز رفتاری سے کیسے بے شمار جانیں خطرات میں گھر جاتی ہیں۔ روز حادثے ہوتے ہیں۔ روز لوگ مرتے ہیں۔ روز گھر اجڑتے ہیں۔ اس نظام کو مگر ان کی کوئی فکر نہیں۔
یہ وہ معاشرہ ہے جس میں بسنے والی 96 فیصد آبادی قرآن مجید پر ایمان رکھتی ہے۔ اللہ کی یہ کتاب صدیوں سے پکار رہی ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کوئی اس آواز پر کان نہیں دھرتا۔ انسانی جان کی اس معاشرے میں کوئی حرمت نہیں۔ کسی کو احساس نہیں کہ ایک انسان کی حادثاتی موت کتنے لوگوں کو زندہ در گور کر دیتی ہے۔ وحشت کا مکمل راج ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست کا نظام انسانی جان کی حرمت کے معاملے میں بے حس ہے۔
میں نے جب آمنہ کے حادثے کی خبر سنی‘ میں گھنٹوں اس کی تاب نہیں لا سکا۔ ایک بیٹی کا باپ ہی جان سکتا ہے کہ یہ کیسا حادثہ تھا جو اس خاندان پر گزر گیا۔ میرے بس میں ہو تو میں ایسے حادثات کو قتلِ عمد قرار دوں اور ان کے مجرموں کے لیے وہی سزا تجویز کروں جو اللہ کی کتاب نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سنائی ہے۔ کاش میں چیخ چیخ کر نظامِ عدل و حکومت کے رکھوالوں‘ میڈیا پر سطحی سیاسی مباحث میں لتھڑے نام نہاد دانشوروں اور محراب و منبر کے وارثوں کو بتاؤں کہ جس سماج میں انسان کی جان اتنی ارزاں ہو جائے‘ زندگی اس سے روٹھ جاتی ہے۔ خدا کی رحمت اس سے منہ موڑ لیتی ہے۔