"KDC" (space) message & send to 7575

نادرا کی تصدیق سے الیکشن کے نتائج تبدیل ہونے کا امکان

11مئی 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے گراں خدمات سر انجام دیں ۔ووٹروں کی جانچ پڑتال کے لیے نادرا نے خصوصی سیاہی کے پیڈ تجویز کیے جس سے انگوٹھے کے نشان کی بائیو میٹرک تصدیق ہوسکتی تھی۔ لیکن اب ووٹروں کو مایوسی ہورہی ہے کہ انگوٹھوں کے نشان کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہورہی۔ قومی انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق پونے پانچ کروڑ کے لگ بھگ ووٹروں نے پہلی مرتبہ حق رائے دہی استعمال کیا۔ لیکن کمال مہارت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا۔ تمام فوائد اپنے کھاتے میں اور کمزوریوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے منسوب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس پس منظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کے مابین رابطے کے فقدان کی وجہ سے قوم کے ساتھ کیے گئے کسی وعدہ پر عمل نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن اور نادرا نے انتخابی عمل کے دوران ایک سے زائد مرتبہ قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس بار کوئی جعلی ووٹ پول نہیں ہوسکے گا کیونکہ ہر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان میگناٹائزڈانک کے ذریعے بیلٹ پیپر پر ثبت ہوگا اور انگوٹھے کے نشان کی تصدیق نیشنل ڈیٹا بیس کے بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کرائی جائے گی۔ بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے ووٹر کے انگوٹھے کے نشان کی عدم تصدیق کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب الیکشن کمیشن سے جعلی ووٹ کی صورت میں تقریباً ایک کروڑ ووٹرز کے انگوٹھوں کے مشکوک نشانات کو نادرا کے بائیو میٹرک سسٹم سے ملانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عمران خان نے تیس کے لگ بھگ حلقوں میں بائیومیٹرک تصدیق کا مطالبہ کیا تھا۔ ان حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 72لاکھ سے زائد ہے۔ ا لیکشن کمیشن نے جب نادرا سے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کے لیے رجوع کیا تو نادرا نے سافٹ وئیر کی ڈویلپمنٹ اور سروسز میں 9کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ نگران وزیراعظم نے فوری طور پر عملدرآمد کرنے کا حکم جاری کیا، لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام سے میڈیا کے نمائندوں نے پوچھا کہ قوم سے وعدہ پر عمل کیوں نہیں ہوا تو اس کا مؤقف تھا کہ اب نادرا کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ سافٹ وئیر کی ڈویلپمنٹ اور سروسز کے لیے کروڑوں روپے درکار ہوں گے جبکہ انتخابی عمل کے دوران نادرا کے حکام نے الیکشن کمیشن اور قوم کو یقین دلایا تھا کہ جعلی ووٹ کی صورت میں بائیومیٹرک کے ذریعے موقع پر ہی تصدیق ہوجائے گی۔ بائیو میٹرک ڈیٹا بیس صرف نادرا کے پاس ہے جبکہ نادرا حکام کا دعویٰ ہے کہ استعدادی صلاحیت موجود ہے مگر لاکھوں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیے بڑا سافٹ وئیر درکارہوگا۔ نادرا حکام کا کہنا ہے کہ جون 2012ء میں نادرا نے الیکشن کمیشن کو اس حوالہ سے سرکاری طور پر آگاہ کردیا تھا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔شاید اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان دنوں الیکشن کمیشن کے ارکان کے حوالے سے قانون سازی کا مرحلہ طے ہو رہا تھا اور قائم مقام چیف الیکشن کمشنرکی پوری توجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی واضح ہدایات کی روشنی میں انتخابی فہرستوں کی تکمیل پر مرکوز تھی۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے امیدواروں اور ووٹرز کی شکایات کے حوالے سے ایک اور دلچسپ حقیقت سامنے آئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے ذریعے انتخابی نتائج جمع کرنے کیلئے جن ایک ہزار ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو تربیت دی تھی آخری وقت میں ملک بھر میں آدھے سے زائد ریٹرننگ افسران نے الیکشن کمیشن کے تربیت یافتہ آپریٹرز کو تبدیل کرکے اپنی مرضی کا غیر تربیت یافتہ عملہ کام پر لگا دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابی نتائج جمع کرنے کا نظام سست روی کا شکار ہوگیا اور ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ تقریباً چالیس فیصد زیادہ شکایات جمع ہوگئیں۔ شکایات کی دوسری بڑی وجہ فارم XIV کی ہے جس میں پریزائیڈنگ افسران نے جمع تفریق میں غلطیاں کیں اور پولنگ کے عملہ نے، جن کی اکثریت سیاست کا شکار ہے بعض ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت کے ساتھ سارا الزام الیکشن کمیشن پر ڈال دیا ، تاہم الیکشن کمیشن کے وضع کردہ آٹومشین اور کمپیوٹرائزیشن الیکٹرانک سسٹم نے کسی حد تک مخفی غلطیاں پکڑ لیں۔ بہرحال اس حقیقت کوجھٹلایا نہیں جا سکتا کہ رابطے کے فقدان اور مفاد پرستانہ سوچ کی وجہ سے الیکشن میں کرائی گئی گڑبڑ کی تصدیق پونے پانچ کروڑ سے زائد ووٹرز میں سے کسی ایک کی بھی نہیں ہو سکی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کی اکثریت کی جانب سے کیے گئے مسلسل مطالبوں کے پیش نظر چاروں صوبوں میں الیکشن ٹربیونلز کی تعداد دگنی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اورریٹائرڈ سیشن ججوں کو متعلقہ ہائی کورٹس کے معزز چیف ججوں کی جانب سے ناموں کی فہرستیں موصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 57 کے تحت یہ کارروائی کی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان میں پہلی مرتبہ 35 کے لگ بھگ الیکشن ٹربیونلز مقرر کیے تھے جو متعلقہ ہائی کورٹس کے تجربہ کار حاضر سروس جج تھے۔ نادرا نے انتخابی عمل سے قبل بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ نیب، فیڈرل بیورو آف ریونیو، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر نجی و سرکاری بینکوں کے نادہندگان کے ریکارڈ کو ویب سائٹ پرمنتقل کرکے ان کا براہ راست رابطہ ریٹرننگ افسران کے کمپیوٹرز سے کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیلٹ پیپرز کیلئے خصوصی کاغذ جرمن سے منگوانے کے بارے میں قوم کو بتایا تھا، لیکن اس طرح کا کوئی عمل بظاہر دیکھنے میں نہیںآیا۔ ریٹرننگ افسران کا جو عملہ پریذائیڈنگ آفیسران کے مرتب کردہ نتائج کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے Feed کر رہا تھا، ان کی بے عملی سے پاکستان میں انتخابی نتائج کے بارے میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح الیکشن ٹربیونلز میں جو ریکارڈ جمع کرایا جا رہا ہے اس کی تصدیق نادرا نے ہی کرنی ہے، لیکن نادرا12 مئی کے نتائج کو دیکھ کر اپنی ٹیکنالوجی سے ہی منحرف ہوگیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نادرا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں جو ایک کروڑ سے زائد ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ان ریٹرننگ افسران کی باز پرس ہونی چاہیے جنہوں نے یو این ڈی پی کے تربیت یافتہ عملے کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے پارٹیوں کے نامزد ڈیٹا انٹر ی آپریٹر کے ذریعے نتائج مرتب کیے۔ اصولی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان کے ارسال کردہ نتائج ویسے ہی پر وفارموں پر لینے چاہئیں تھے جیسے ماضی کے تمام انتخابات میں استعمال کیے جاتے تھے اور جن پر ریٹرننگ افسران کے دستخط اور ڈسٹرکٹ افسران کے تصدیقی دستخط ہونا لازمی تھے۔ ریٹرننگ افسران کے کمپیوٹرز کے ذریعے نتائج بھجوانے کی تجویز 12اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں سامنے آئی تھی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبئی سے سخت تنقیدی بیانات جاری کیے تھے اور اس عمل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ جس پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس(ر)ارشادحسن خان نے ریٹرننگ افسران ،صوبائی الیکشن کمشنر اور مرکزی الیکشن کمیشن کے لیے کمپیوٹروں کا استعمال ممنوع قرار دے دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں