"KDC" (space) message & send to 7575

نئے دور کا سورج اُفق پر

قوم نئے دور کا سورج افق پر نمودار ہوتا دیکھ رہی ہے۔ مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ قوم کو امیدوں کا پودا سیراب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس مرتبہ صبح کے تعاقب میں ویسے اندھیرے نہیں ہوں گے جیسے اندھیروں میں بھٹک بھٹک کر ہم روشنی کی پہچان سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ اگر اس مرتبہ بھی ہماری قیادتوں نے وہی کچھ کر دیا جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں تو پھر قوم کے سامنے ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ ملک کا مقدر ان سیاسی قیادتوں سے چھین کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ 28مئی کو یومِ تکبیر منایا گیا۔ ایک نئی تاریخ جنم دینے والے اس عہد ساز لمحے کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو ضرور ملنا چاہیے‘ کیونکہ تب وہی وزیراعظم تھے اور مغربی دبائو کا مقابلہ انہوں نے ہی کیا تھا‘ لیکن پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے پیچھے جو ولولہ انگیز تاریخ رقم ہے اس میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ ان کے بعد جنہوں نے اس عظیم منصوبہ کی آب یاری کی وہ جنرل ضیاء الحق (مرحوم) اور جناب غلام اسحاق خان (مرحوم) تھے۔ ہمارے قومی ہیروز کی اس فہرست میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری بھی تھے جنہوں نے 1950ء۔ 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے ایماء پر لاہور میں سب سے پہلے ایٹمی سنٹر کی بنیاد رکھی اور جن کے شاگردوں میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند، منیر احمد خان، ڈاکٹر اشفاق احمد خان اور ڈاکٹر سید طاہر حسین شامل تھے۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق ہے‘ انہوں نے بھی پاکستان کو ایک ناقابلِ تسخیر قیام تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ کردار میزائل پروگرام کے فروغ میں ادا کیا گیا۔ آج جہاں ہمیں وزیراعظم میاں نواز شریف کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے وہاں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کی خدمات کو بھی بھولنا نہیں چاہیے۔ جہاں تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق ہے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور قوم کے لیے باعث صد افتخار شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ امریکی اخبارات اور یورپی یونین کے میڈیا نے پاکستان کے 11مئی 2013ء کے انتخابات کے انعقاد سے پیشتر ہی یہ انکشاف کر دیا تھا کہ پاکستان کے اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ بڑی طاقتوں نے جولائی 2007ء میں این۔آر۔او مرتب کیا تھا‘ جس کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سپرد کرنا تھا۔ اس این۔آر۔او کے مرتب ہونے سے ایک سال پیشتر ہی امریکی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے راہ ہموار کر رہی تھی۔ جولائی اگست 2006ء میں ہی امریکی خارجہ اور داخلہ امور کی اہم شخصیتوں نے جس میں سائوتھ ایشیاء کے اسسٹنٹ سیکرٹری کرسٹنا روکا اور بعدازاں مسٹر رچرڈ بائوچر امریکی یو۔ایس۔ایڈ کے سربراہ، امریکی سفیر مسٹر کروکر اور این پیٹریسن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چکر لگانے شروع کر دیے تھے اور ان کا مؤقف یہی تھا کہ آئندہ کے الیکشن میں پاکستان سے باہر بیٹھی ہوئی سیاسی شخصیت کا حصہ لینا بین الاقوامی مفادات میں ہے اور ان کا اشارہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف ہی تھا۔ امریکی سینیٹ کے بھی جو وفود الیکشن کمیشن کا دورہ کر کے آئندہ کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے اور بریفنگ کے لیے آتے رہے‘ ان کا ایک ہی مضبوط مؤقف تھا کہ پاکستان کے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت بہت ہی ضروری ہے۔ امریکی تھنک ٹینک نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دبائو ڈالا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پولیٹکل پارٹیز ایڈوائزری سیل قائم کیا جائے‘ جس میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اس نقطہ نظر کو تسلیم کرانے کے لئے امریکی تھنک ٹینک نے پاکستان میں بیرونی امداد حاصل کرنے والی این۔جی۔اوز کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر یلغار کردی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد فاروق نے ان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کی رو سے الیکشن کمیشن میں سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایڈوائزری سیل کی تشکیل کی جائے۔ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس آئینی مؤقف کو امریکی تھنک ٹینک سے منظور کروایا اور ان کو یہ باور کرایا کہ چونکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے موقف سے متضاد رویہ رکھے ہوئے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے گا۔ امریکی تھنک ٹینک نے ہمارے مؤقف کو تسلیم کر لیا۔ پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے بدقسمتی سے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ان پر نگاہ رکھی اور اپنے مہروں کو آگے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی حکومت نے پاکستان میں 1954ء سے سیاسی مداخلت شروع کر دی تھی جب انہوں نے پاکستان کی بڑی سیاسی شخصیات سے روابط قائم کیے ہوئے تھے جن میں سہروردی، ممتاز دولتانہ اور مولانا مودودی جیسی اہم شخصیات شامل تھیں۔ انہوں نے ان اعلیٰ عسکری افسران پر کام کیا جو اعلیٰ تربیت کے لیے امریکہ جایا کرتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان ائر فورس کی ایسی شخصیات پر نظر رکھی جنہوں نے بعد ازاں سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ اِسی طرح 1970ء کے انتخابات میں انڈیا، سوویت یونین ، ایران اور امریکہ نے پاکستان عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان میں شیخ مجیب الرحمن کی وساطت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا گیا۔ مارچ1977ء کے الیکشن سے پیشتر امریکہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو انتخابی عمل میں شکست دلوانے کے لیے پاکستان نیشنل الائنس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اندرونی اور مقامی قیادتوں میں بھی امریکہ کا اثر و رسوخ تھا جن میںبقول رائو عبدالرشید خان رفیع رضا کا اہم کردار تھا۔ 1985ء، 1988ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں بھی بین الاقوامی اثر و رسوخ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا‘ لیکن چونکہ ان انتخابات میں پاکستان کی مقتدر قوتوں نے بھی اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے بیرونی قوتیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں قیاس آرائیاں اور پاکستان کی افواج کو کمزور کرنے اور متنازعہ بنانے کے عمل میں مصروف طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے اور انہیں اپنے راہ پر لانے کے لیے کوشاں ہیں سو‘ وفاق اور خیبر پختون خوا میں طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ یہ وہی حکومتیں ہیں جن کی وہ ضمانتیں چاہتے تھے‘ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ این۔آر۔او کے تحت لائی جانے والی حکومت سے تو افغانستان اور طالبان کے بارے میں اسے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے اور اسی لیے امریکہ نے صدر پرویز مشرف کی تبدیلی کے لیے پاکستان میں اپنی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی اور اس مقصد کے لیے مارچ 2009ء میں جہاں تعمیری انداز میں بعض سول سوسائٹیوں نے اہم کردار ادا کیا‘ وہاں پر انڈیا نے اپنی مخصوص این۔جی۔او کے ذریعے پاکستان میں صدر مشرف کے خلاف منظم تحریک ایسے ہی شروع کرائی جیسا کہ گوربا جوف کے سوویت یونین کا شیرازہ منتشر کرنے کیلئے سائنٹیفک انداز میں تحریک چلائی گئی تھی۔ امریکی صدر پرویز مشرف کو انتخابات کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور اس بارے میں امریکی اور یورپی یونین کے سفارت کار کھل کر میرے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں