"KDC" (space) message & send to 7575

الطاف حسین کے خلاف مقدمہ‘ سندھ حکومت کیلئے خطرہ… (1)

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے حوالے سے جو بھی کیس یا معاملہ چل رہا ہے وہ پاکستان میں نہیں لندن میں ہے؛ البتہ حکومت پاکستان کو اِس سے باخبر رکھا جارہا ہے۔ حکومتی یا سرکاری سطح پر حکومت پاکستان سے کوئی امداد یا ان کے بارے میں کوئی رپورٹ برطانیہ نے نہیں مانگی۔ اگر سرکاری سطح پر اس حوالہ سے کوئی مطالبہ کیا جائے گا تو پاکستان کے مروجہ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ برطانوی پولیس اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے جون کے مہینے میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں تواتر سے پیش رفت نے متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی اور لندن میں مقیم رہنمائوں کو سوچ و بچار میں مبتلا کر دیا ہے۔ جاری تفتیش پر پہلی بار پاکستانی حکومت کی جانب سے لندن پولیس کو کراچی میں زیر حراست مبینہ دو ملزموں تک براہِ راست رسائی دی گئی ہے‘ جس کے بعد گذشتہ دنوں سکاٹ لینڈ یارڈ کے حکام پاکستان آکر ان زیر حراست افراد سے کئی دن تک تفتیش کرتے رہے ہیں۔ بعض دوسرے مبینہ ملزمان کی گرفتاری اور کیس کی تفتیش ستمبر تک مکمل کر کے مقدمہ برطانوی عدالت کے سپرد کئے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دورہ پاکستان کے موقع پر اعلیٰ ترین سطح پر بھی اس بارے میں تبادلہ خیالات کیا گیا۔ اس موضوع پر میری ذاتی رائے کے مطابق ایسی کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہو گی کیونکہ برطانوی حکام پولیس انکوائری اور مقدمات کو کبھی بات چیت کا موضوع نہیں بناتے۔ اس کے باوجود سفارتی حلقوں میں یہ ذکر ضرور ہو رہا ہے کہ عمران فاروق قتل کیس کے حوالہ سے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان غیر معمولی رابطے ہوئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ لندن پولیس کو حکومت پاکستان نے کراچی میں ان دوگرفتار نوجوانوں تک براہِ راست رسائی دی ہے تاکہ لندن پولیس کے تفتیش کار ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلہ میں ان سے تفتیش کر سکیں۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے دور میں گرفتار ہونے والے ان دو مبینہ ملزموں تک برطانوی اداروں کو براہِ راست رسائی نہیں دی گئی تھی کیونکہ متحدہ حکومت میں شامل تھی اور انہوں نے گیلانی حکومت کو یہ باور کروایا ہو گا کہ وہ ایسی صورت میں حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے ان کو تحریکِ عدم اعتماد کی شکل میں پریشان کن حالات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اِسی لئے حکومت پاکستان نے بڑی راز داری سے پاکستانی اداروں کی طرف سے کی گئی تفتیش سے برطانوی پولیس کو کسی قدر آگاہ ضرور کیا ہوگا۔ اب کراچی کے حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ لندن پولیس کے حکام پاکستان آکر ان زیر حراست افراد سے کئی دن تک تفتیش کرتے رہے ہیں۔ اس ساری پیش رفت کے بعد یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ برطانوی پولیس ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش ماہ ستمبر تک مکمل کر کے کیس عدالت میں پیش کر سکتی ہے۔ اِسی طرح برطانوی ادارے منی لانڈرنگ کے حوالہ سے بھی متحدہ کے لندن میں مقیم رہنمائوں سے باز پرس کر رہے ہیں۔ جبکہ لندن پولیس کے علاوہ بھی برطانوی ادارے سرحد پار سے آنے والی اشیاء اور افراد کے بارے میں نگرانی سخت کیے ہوئے ہیں۔پاکستان اور برطانیہ دونوں کے ادارے بعض امور کے بارے میں بڑی رازداری سے باہمی رابطے میں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کے حساس اداروں کو تمام حقائق سے مکمل آگاہی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اُٹھائی جاسکتی کیونکہ متحدہ 1988ء سے 2008ء کے مختلف ادوار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اہم حصہ رہی ہے اورڈاکٹر عشرت العباد ابھی تک وفاق کے نمائندہ کے طور پر گورنر سندھ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں میری ملاقات باخبر صحافیوں سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ کے رہنمائوں کو شک ہے کہ منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے حوالے سے برطانوی پولیس کو معلومات متحدہ قومی موومنٹ کے ناراض کارکنوں نے فراہم کی ہیں۔ اِسی لئے متحدہ نے برطانیہ کے انٹرنیشنل سیکرٹریٹ سے ایسے مشکوک افراد کو فارغ کر دیا ہے۔ برطانوی پولیس نے منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ایجوئر روڈ کے دو منی چینجرز کے دفاتر اور بنک اکائونٹس بھی منجمد کر دیے ہیں۔ کراچی کے سیاسی حلقوں اور میڈیا میں یہی تاثرات بیان کیے جارہے ہیں کہ الطاف حسین کو منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی عدالت میں لایا جاتا ہے تو متحدہ قومی موومنٹ کا تین حصوں میں تقسیم کا خطرہ ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں نچلی سطح کے افراد میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت طاری ہے۔ برطانیہ میں اس وقت اسکاٹ لینڈ یارڈ اور میٹرو پولیٹن پولیس منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات میں مصروف ہے اور گذشتہ ہفتے جن دو گھروں کی تلاشی لی گئی تھی اس میں ایک قیمتی گھر الطاف حسین کا بھی تھا۔ مبینہ طور پر وہاں سے پولیس کو منی لانڈرنگ کے بارے میں اہم دستاویزات اور شواہد ملے جس کی روشنی میں تحقیقاتی عمل میں تیزی آگئی ہے اور اس کے فوراً بعد برطانیہ کے ایک بنک میں موجود اکائونٹس کو بھی منجمد کر دیا گیا اور اس میں رقم کی منتقلی کا قانونی جائزہ لیا جارہا ہے۔ منی لانڈرنگ کے حوالہ سے بعض لاکرز سے نقدی، ہیرے، جواہرات ملنے کے بعد متحدہ کے کارکن پولیس سے رابطہ کر کے اپنی شہریت بچانے کی فکر میں ہیں اور وہ برطانوی پولیس سے تعاون کر رہے ہیں۔ ان ’’بے وفا‘‘ کارکنوں میں ایسٹ لندن کے چھوٹی سطح پر کرنسی کا کاروبار کرنے والے بھی شامل ہیں جو ایجوئر روڈ پر واقع منی چینجرز جنہیں بند کردیا گیا‘ کے ساتھ ملک کر کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں پاکستانی سیاسی جماعت کے ایک عہدیدار بھی اس منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ میٹرو پولیٹن پولیس اور میڈیا پر ان کی خفیہ جائداد کی تفصیل آنے اور گھروں پر چھاپوں کے دوران برطانیہ کی پولیس کے ہاتھ آنے والے شواہد کے پیش نظر متحدہ اس اہم شخصیت کی تلاش میں ہے جو ان کے راز ان اداروں کو پہنچا رہا ہے۔ متحدہ نے اپنی سیاسی جماعت کو مربوط و مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لئے ان افراد پر نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔ جب کسی سیاسی جماعت کو زوال نظر آتا ہے تو اپنے ہی وفادار ساتھیوں پر شک و شبہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ شاید اِسی لئے متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے جانثار ساتھی انیس احمد خان ایڈووکیٹ جن کا تعلق میر پور خاص سے ہے اور جو متحدہ کے ٹکٹ پر نومبر 1990ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے کی بھی تلاش جاری ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں