"KDC" (space) message & send to 7575

الطاف حسین کے خلاف مقدمہ‘ سندھ حکومت کیلئے خطرہ… (2)

انیس احمد خان متحدہ کے ایسے رہنما ہیں جو جرأت سے اپنا مؤقف پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں دسمبر 2012ء میں مس کنڈکٹ کے باعث رابطہ کمیٹی کی رکنیت سے معطل کر دیا گیا تھا۔ دراصل ان پر شبہ تھا کہ وہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں میٹرو پولیٹن پولیس کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ ان کا رابطہ مقتول ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ سے بھی تھا۔ لندن میں میرے صحافی دوستوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انیس احمد خان ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے اصل محرکات اور اس سازش میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنے کی دھمکیاں دے چکے تھے۔ ان کے بارے میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ انہیں لندن میں محفوظ جگہ پر رکھا گیا ہے۔ لندن پولیس ایسے اشخاص کو اپنی تحویل میں رکھتی ہے جن کو جان کا خطرہ ہو۔ مقامی حکومتی ادارے اس کو اپنی حفاظت میں رکھ کر اس سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں اپنی سرزمین پر ہونے والے جرم کی تحقیقات کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ میں اس وقت تین گروپ کام کر رہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ اور میٹرو پولیٹن پولیس کی کسی بھی کارروائی کے پیش نظر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے رابطے بڑھائے ہیں اور وہ پارٹی قیادت سنبھالنے کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں۔بادی النظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بے بنیاد افواہیں ان کے قریبی حریف پھیلا رہے ہیں۔ دراصل الطاف حسین کی پارٹی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ وہ پاکستان کے وفاق کے بھی زبردست حامی ہیں اور ان کی حب الوطنی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور سندھ کے شہری علاقوں میں ان کو جو مسائل ہیں ان کی وجہ سے وہ برسر اقتدار جماعت کے خلاف کوئی راست قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کو 1992ء اور 1998ء میں سانحات سے گزرنا پڑا۔الطاف حسین کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتیوں کے بھرپور استعمال سے مہاجر قومی موومنٹ اور بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کی شکل میں ایک ایسی جماعت منظم کر کے دکھائی جو ان کی ایک ذرا سی کمانڈ پر اس قدر مستعدی کے ساتھ کام کرتی ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ایسا مربوط نظام موجود نہیں۔ تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ تاریخ میں کسی بڑے سے بڑے روحانی پیشوا کو بھی اپنے پیروکاروں اور مریدوں پر اس قدر مکمل ذہنی کنٹرول حاصل نہیں رہا جتنا الطاف حسین کو اپنے کارکنوں پر حاصل ہے۔ اس کنٹرول کی نوعیت کا اندازہ الطاف حسین کے حکم پر کراچی شہر کے چند منٹوں میں جام ہو جانے کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں الطاف حسین کے خلاف برطانوی نظام عدل کے تحت کوئی کارروائی ہوتی ہے تو کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں جو ردِ عمل سامنے آنے کا امکان ہے اس سے پاکستان میں سیاسی بحران آنے کا خدشہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایم کیو ایم جون 1992ء کی پالیسی کے مطابق قومی و صوبائی اور سینٹ سے مستعفی ہو جائے جس کے بعد کراچی میں ایسے حالات سامنے آجائیں جن پر وفاقی حکومت قابو پانے میں ناکام ہو جائے‘ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ متحدہ قومی موومنٹ عوام کی جماعت ہے۔ ان کا مشاورت کا عمل بھی مثالی ہے۔ ایسا اندرونی سیاسی نظام کسی بھی سیاسی پارٹی میں نہیں پایا جاتا۔ مجھے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کے تمام ارکان سے اگست 1989ء سے نیاز مندی حاصل رہی ہے۔ میری سندھ میں قائم مقام الیکشن کمشنر کی پوسٹنگ کے دوران ایم کیو ایم کے اہم سیاسی رہنماڈاکٹر فاروق ستار، طارق عظیم (مرحوم) کنور خالد یونس، کنور نوید، انیس قائم خوانی، سلیم شہزاد، مصطفی کمال ، انور شعیب بخاری ، رؤف صدیقی ، آفاق محمد، محمد عامر، بدر اقبال، اشتیاق اظہر اور دیگر دوستوں سے ملاقات ہوتی رہی ہے۔ان میں جمہوری اصولوں کی بڑی پاسداری رہی ہے ۔ ان کی سوچ حب الوطنی اور پاکستان کے تمام مظلوموں کی حمایت اور اپنے کارکنوں کے مفادات کی دیکھ بھال پر مبنی ہے اور یہ ان کی پارٹی سسٹم کا اہم حصہ رہا ہے۔ ان کے تھنک ٹینک میں پاکستان کے دانشور، شاعر، میڈیا پرسنز، ماہرین تعلیم و معاشیات اور خارجہ امور کے بارے میں اعلیٰ ذہن کی حامل شخصیات کی ٹیم موجود ہے۔ اپریل 2009ء میں لندن میں قیام کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کی دعوت پر مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ لندن میں انٹرنیشنل سیکرٹریٹ سادہ، پروقار اور جدید ترین انفارمشین ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ ان دنوں جناب الطاف حسین طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہاں پر موجود نہیں تھے۔ ان کی ہدایات پر انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے اہم رہنما محمد انور، سلیم شہزاد، مصطفی عزیزی، انیس احمد خان اور دیگر رہنمائوں سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران سندھ میں لوکل گورنمنٹ کے تحت انتخابات ، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ میں نے اس موقع پر اپنے تجربات کی روشنی میں جو ان کو مشورے دیے انہوں نے اس پر من و عن عمل کیا۔ یہی سیاسی جماعت کی اور جمہوریت کی خوبی ہوتی ہے۔ ایسی عمدہ مثال پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ملتی۔ پنجاب کے سیاسی رہنمائوں نے متحدہ قومی مووومنٹ کو اپنے لئے عظیم خطرہ اسی وقت محسوس کیا جب 23مارچ1991ء کو الطاف حسین نے لاہور میں مینار پاکستان کے زیر سایہ لاکھوں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کر کے متحدہ قومی موومنٹ کا نام تجویز کیا تھا۔ عملی طور پر اب کراچی پر ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی رٹ نہیں ہے اور لگتا ہے کہ جو قوتیں رسمی طور پر کراچی کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں انہیں ریاست کی رٹ قائم کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اگر دلچسپی ہوتی تو وزارت اعلیٰ کا منصب پر جوش نوجوان قیادت کو دیا جاتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ کسی نہ کسی کی نیت میں کوئی بڑا فتور لازماً ہے۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا مقصود ہے تو سب سے پہلے کراچی کو اسلحہ بردار مہم جوؤں کی شدید گرفت سے نکالنا ہوگا اور ان قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کی پیش کش کو قبول کر لینا چاہیے‘ جو کراچی کے حالات ایک ماہ میں درست کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ لیکن سندھ کی حکومت کراچی میں ریاست کی رٹ بھرپور طریقے سے قائم کرنے کے لئے چوہدری نثار علی خان کی پیش کش کو صوبائی خودمختاری میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر چکی ہے۔ کراچی کا حساس معاملہ پاکستان کی ترقی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں