"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی قواعد میں تبدیلی کی ضرورت

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 223اور 224کے تحت 22اگست کو 41کے لگ بھگ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخابات کرائے۔ اخبارات میں اِس الیکشن کی گہما گہمی اور عوام کی دلچسپی کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ ملک کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں؛ حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جون 2008ء میں بھی آئینی استحقاق کے تحت اِسی طرز کے ضمنی انتخابات کروائے تھے۔ ملک میں انتخابی عمل کی راہ میں مشکلات ، ذہنی دبائو یا حکومت کے نادان مشیروں کی حکمت عملی کے باعث بعض اوقات عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ 18فروری2008ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد پارلیمنٹ کی تشکیل اور صوبائی اسمبلیوں کے تعارفی اجلاس منعقد ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 223اور 224کے تحت خالی نشستوں پر انتخابی شیڈول جاری کرنے کے لئے حکومتی حلقوں کی طرف سے الیکشن کمیشن پر یہی دبائو چلا آ رہا تھا کہ فی الحال ضمنی الیکشن کے لئے انتخابی شیڈول جاری نہ کیا جائے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے چاروں صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر ملک میں امن و امان کے حوالے سے ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوادیے۔ چونکہ آئین کے آرٹیکل 219کے تحت ضمنی الیکشن منعقد کروانے کی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو ہی تفویض تھی اور آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ضمنی انتخابات کروانے کے فرائض الیکشن کمیشن کو سپرد کر دئیے گئے ہیں‘ لہٰذا چیف الیکشن کمشنر نے ان کے جواز کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا۔ جون 2008ء کے وسط میں مجھے بھی ایوانِ صدر کی طرف سے اشارے دیے جارہے تھے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ضمنی انتخابات کروانے کے لئے آئینی ذمہ داریاں بروئے کار لائے۔ میں نے بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن‘ چیف الیکشن کمشنر کو من و عن پیغامات پہنچا دیے۔ دراصل ضمنی الیکشن کروانے کے لئے عموماً ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے اور آئینی تقاضے کے مطابق نوے روز میں ضمنی انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ لہٰذا چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے ملک بھر میں 41کے لگ بھگ صوبائی اور قومی اسمبلی کے لئے ضمنی انتخابات کروانے کا الیکشن شیڈول جاری کر دیا۔ الیکشن شیڈول کے جاری ہونے کے دون دن بعد مجھے رات دو بجے دو بئی سے میرے موبائل فون پر ملک کی ایک اہم اور طاقتور شخصیت کی کال آئی اور ضمنی انتخابات ملتوی کروانے کے لئے جناب آصف علی زردار کی جانب سے پیغام پہنچایا۔ میں نے ان کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اشارہ ملنے پر پہلے بھی الیکشن شیڈول تبدیل کئے گئے تھے‘ اب کسی صورت میں بھی ضمنی انتخابات کا التوا ممکن نہیں۔ اس اہم شخصیت نے مجھے باور کرایا کہ آصف علی زرداری نے یہ فرمائش محترم نواز شریف کی ایماء پر کی ہے۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ جب تک چاروں صوبائی حکومتوں کے چیف سیکرٹریوں کی جانب سے التوا کی سفارشات نہیں کی جاتیں اس وقت تک چیف الیکشن کمشنر ضمنی انتخابات کے جاری کردہ شیڈول کو مؤخر نہیں کریں گے۔ اس شخصیت نے مجھے یقین دلایا کہ چند روز تک صوبائی حکومتوں کی جانب سے ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وصول ہو جائے گا۔میں نے چیف الیکشن کمشنر کو یہ پیغام پہنچا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایسا ریفرنس موصول ہونے کے بعد غور و غوض کیا جائے گا۔ اسی اثنا میں حکومتی شخصیت مجھے بار بار مجبور کرتی رہی کہ چیف الیکشن کمشنر ضمنی انتخابات کو ملتوی کریں۔ جب میری طرف سے سرد مہری دکھائی گئی تو موصوف نے چیف الیکشن کمشنر سے رجوع کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے ان کو آگاہ کیا کہ ضمنی انتخابات کے التوا پر ملک بھر کی اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) شدید احتجاج کرے گی اور صوبائی حکومتوں میں سے صرف صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری کی جانب سے واجبی قسم کا ریفرنس موصول ہوا ہے۔ اس شخصیت نے چیف الیکشن کمشنر کی منت سماجت کی اور وفاقی حکومت کی مجبور یوں سے آگاہ کیا کہ ان کو ایجنسیوں کی جانب سے رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں کہ ضمنی انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے‘ ملک کی اہم شخصیتوں کو انتخابی جلسوں کے دوران نشانہ بنائے جانے کی رپورٹیں ان کی وزارت کو موصول ہو رہی ہیں۔ اگر اہم شخصیتوں کو نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان پر آئے گی۔ چیف الیکشن کمشنر نے ان کے خدشات کے پیشِ نظر الیکشن کمیشن کے ارکان کو اعتماد میں لے کر ضمنی الیکشن کا شیڈول دو ہفتے کے لئے مؤخر کر دیا۔ قارئین حیران ہوں گے کہ جونہی الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی انتخابات کو مؤخر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا‘ اسی لمحے سب سے پہلے فیصلے کی مذمت میں جناب آصف علی زرداری کا بیان سامنے آیا۔ ان کے بعد شیری رحمن اور دیگر حکومتی ارکان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صدر پرویز مشرف کی سازش قرار دیا۔ اس وقت صدر پرویز مشرف ملک کے سربراہ تھے۔ اِسی دوران میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھرپور تنقید کی جانے لگی۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر کے کہنے پر اس حکومتی اہم شخصیت کو باور کرایا کہ انہوں نے آصف علی زرداری کی جانب سے الیکشن شیڈول کی تبدیلی کیلئے الیکشن کمیشن سے درخواست کی تھی تو موصوف نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ وہ پارلیمنٹ کے فلور پر اس کی وضاحت کر دیں گے۔ ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ صورتحال بڑی گھمبیر ہو گئی۔ چیف الیکشن کمشنر کی عزت دائو پرلگی ہوئی تھی کہ صوبہ سرحد کے مرد آہن صوبائی وزیر اطلاعات افتخار حسین اور بشیر احمد بلور (مرحوم) نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے حکومت کے وفاقی وزیر کی کارروائی کا بھانڈا پھوڑ کر اسے اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹا، مکار اور دغا باز قرار دیا۔ اس دوران اسی موصوف وفاقی وزیر نے اسمبلی کے فلور پر بیان جاری کر دیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر پرویز مشرف کے ایما پر ضمنی انتخابات ملتوی کیے تاکہ صوبائی حکومتیں اور وفاق میں کشمکش شروع ہو جائے۔ قارئین کی رہنمائی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ جب چیف الیکشن کمشنر نے اس ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اسی رات انتخابی شیڈول مؤخر ہونے کا نوٹیفکیشن چھ گھنٹوں کے اندر اندر واپس لے لیا تو میں نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، مسٹر آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت حسین اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ حیدر ہوتی کو اعتماد میں لے کر صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ سید یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کو یاد ہو یا نہ ہو، انہوں نے مجھے بتایا اس شخصیت نے الیکشن کمیشن کو ان کی جانب سے غلط پیغام پہنچایا۔ بہرحال ریکارڈ کے لئے قارئین کو آگاہ کرتا جائوں کہ ضمنی الیکشن انتہائی صاف و شفاف کروائے گئے اور بین الاقوامی میڈیا اور سفارتی حلقوں نے انہیں انتہائی غیر جانبدار قرار دیا۔ اب آئیے حالیہ ضمنی انتخابات کی طرف ۔ 22اگست کو منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن کے انعقاد پر قوم کے کروڑوں نہیں بلکہ کم و بیش پانچ ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔ اس میں وفاقی حکومت ، صوبائی حکومتوں، افواجِ پاکستان کی طرف سے کئے گئے اخراجات شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت میں کسی شخص کو ایک سے زائد مقامات سے جنرل الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے اسی لئے ان بڑے بڑے جمہوری ممالک میں عام انتخابات کے بعد ضمنی الیکشن کی آئینی ضرورت نہیں رہتی۔ (باقی صفحہ 13 پر) بھارت میں یہ اصول رائج ہے کہ امیدوار صرف اس حلقے سے الیکشن لڑ سکتا ہے جس حلقے میں اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہو۔ اگر کوئی امیدوار اپنے ووٹ کی رجسٹریشن والے حلقے کے علاوہ کسی اور حلقے سے الیکشن لڑنے کا خواہاں ہو تو ایسے امیدوار کو اس کے الیکشن کے جملہ اخراجات حکومت کے خزانے سے نہیں بلکہ پارٹی فنڈ سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس اصول سے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔بھارت میں ضمنی انتخابات نوے یوم یا کسی مقررہ میعاد میں ضمنی انتخابات کروانے کا کوئی آئینی آرٹیکل سرے سے موجود ہی نہیں ہے؛ بلکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا ، تمام ریاستوں سے ضمنی انتخابات کے لئے فہرست مرتب کرتا رہتا ہے اور ایک یا دو سال بعد ضمنی الیکشن کا انعقاد کرتا ہے۔ امریکہ میں ہر ریاست کے اپنے اپنے الگ انتخابی قوانین ہیں۔ مگر وہاں بھی ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے کی روایت نہیں ہے۔ پاکستان میں ضمنی الیکشن کی عیاشی ذاتی مفادات اور سیاسی اغراض و مقاصد پر مبنی ہے اور آئین میں بھی اسے تحفظ دیا گیا ہے۔ کسی بھی حکومت نے قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لئے اس تحفظ کو ختم کرنے کی جرأت نہیں کی۔ بطور وفاقی سیکرٹر ی الیکشن کمیشن آف پاکستان اور انتخابی اصلاحات کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے اپنی رپورٹ جس کی منظوری اس وقت کے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر نے دی تھی 11مارچ 2009ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو آن ریکارڈ پیش کی تھی کہ اگر کسی نے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنا ہے تو ایسا اُمیدوار دوسرے حلقے میں الیکشن کے انعقاد کے جملہ اخراجات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ادا کرے۔ 2009ء کی الیکشن کے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں یہ معاملہ مسلسل زیر غور رہا اور میں نے شق وار تین مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دی۔ بظاہر پارلیمانی کمیٹی نے اس وقت کے الیکشن کمیشن کی کاوش کی تعریف کی مگر کمیٹی میں چونکہ سیاستدان شامل تھے اس لئے انہوں نے مذکورہ سفارش پر عمل درآمد کرا کر قومی خزانے سے بے جا بوجھ ختم کرانے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ اب قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی جنہوں نے 22اگست 2013ء کو انتہائی شفاف، غیر جانبدارانہ، منصفانہ الیکشن پرامن ماحول میں کراکر ملک کی جمہوری الیکشن کی تاریخ میں اپنا نام ہی روشن نہیں کیا بلکہ الیکشن کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچایا ہے‘ ان کا قومی فریضہ ہے کہ وہ اپنی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کی مشاورت سے یہ فیصلہ کریں کہ بھارت کی طرح ایک سے زائد حلقوںسے الیکشن لڑنے والا ا میدوار اس حلقے کے انتخابات پر اٹھنے والے سارے اخراجات خود ادا کرے گا اور اس مقصد کے لئے صرف عوامی نمائندگی ایکٹ 76اور عوامی نمائندگی رولز میں تبدیلی کے لئے صدر مملکت اور وزیراعظم کی جانب سے آر ڈیننس اور بعدازاں پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے منظوری حاصل کی جاسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں