"KDC" (space) message & send to 7575

خیبر پختونخوا حکومت کو خطرہ

گیار ہ مئی کے انتخابی عمل کے نتائج کی نفی ہوئی تو قوم کے دل میں یہ شک گہرا ہوجائے گاکہ عمران خان نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے جو الزامات اپنے ڈھائی ہزار صفحات پر مبنی وائٹ پیپر میں لگائے ہیں ان میں کافی حد تک صداقت ہے۔ دراصل یہ انتخابات عالمی حکمتِ عملی کے تحت کروائے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو اس کا ادراک نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ریاست کو بچانے کا نیا وژن دیاجسے عالمی حکمتِ عملی تیار کرنے والی فوکل سیریز نے ناکام بنا دیا۔ 5ستمبر2006ء کو وائٹ ہائوس میں پاکستان کی نہایت اہم شخصیات کو مدعوکیا گیاتھا۔ مجھے بھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دعوت نامہ ملا، لیکن میں نے ان کے ارادے کو بھانپ لیا تھا اور ان کی پیش کش قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ دوسری شخصیات کوبھی معذرت کرنی پڑی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کو یاد ہو تو وہ میرے مؤقف کی تائید کریں گے ۔ دھاندلی کے الزامات آج تک ثابت نہیں کئے جاسکے۔ دھاندلی کے الزامات کے بارے میں جوسلسلہ 1954ء کے الیکشن سے شروع ہوا تھا ، ختم نہیں ہوا۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت مکمل ہونے والے کسی بھی انتخابی عمل کو مثبت ردِ عمل نہیں مل سکا۔ اگر دھاندلی کے الزامات کی چھان بین دیانت داری کے ساتھ کر لی جائے اور ثابت کر دیا جائے کہ پندرہ سو ووٹوں والے پولنگ سٹیشن پر آٹھ ہزار ووٹ نہیں پڑے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فارمXVI‘ فارم XVIIاور فارمXIVجنہیںعوامی نمائندگی ایکٹ76اور عوامی نمائندگی رولز 76کے تحت قانونی دستاویزات شمار کیا جاتا ہے ، کے نتائج ویب سائٹ پر ظاہر کر دیے جائیں تو پاکستان میں وہ سول سوسائٹیاں جو انتخابی نظام پر گہری نظر رکھتی ہیں ان کو تحقیق کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی اور وہ انتہائی مختصر وقت میں صحیح حقائق قوم کے سامنے لے آئیں گی کیونکہ انہیں تجربہ کار ماہرین کی سہولتیں موجود ہیں۔ جن حلقوں میں 80فیصد سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں، ان کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لئے نادرا سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ انتخابی سسٹم کے حوالے سے یہ مسلمہ بین الاقوامی اصول ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں سو فیصد ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے۔ ضمنی الیکشن میں بعض نجی ٹیلی ویژن چینلز نے سوا چار بجے ووٹوں کی گنتی کا عمل دکھانا شروع کر دیا تھا۔ ان نجی چینلز کا ریکارڈ محفوظ کر لیا جائے اور باقاعدہ تحقیقات کا عمل شروع کیا جائے کہ متعلقہ پریذائیڈنگ افسران نے سوا چار بجے ووٹوں کی گنتی ختم کر کے رزلٹ میڈیا کے حوالے کر دیا۔ جو اصولی طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ76کے صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس کی باضابطہ طور پر تحقیقات کی جائے اور ان حلقوں میں حتمی رزلٹ کو روک لیا جائے ، اگر تحقیق مکمل ہونے پر یہ ثابت ہو جائے کہ متعلقہ پریذائڈنگ افسران نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ان پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابی عمل شروع کیا جائے اور ریٹرننگ افسروں کے ذریعے ان پریذائڈنگ افسران کے خلاف باضابطہ طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ 96کی دفعہ 77-78 کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ دراصل اس انتخابی نظام سے قانونی سقم دور کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی صرف اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار میں رہنے سے ہے۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ اس نظام میں حقیقی، عوامی ، اسلامی اور کسی انقلابی تبدیلی کو بروئے کار لانے میں عمران خان اپنا کردار ادا کریں گے لیکن پاکستان کے بے کس، مظلوم، لاچار اور غریب عوام کو ان کے رویے اور ان کی بے وزن پالیسی کو دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ جو سیاسی رہنما اس نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی اس نظام کی بنیادیں ہلنے نہیں دیں گے کیونکہ ان کے بنیادی مفادات کی جڑیں اِسی نظام میں ہیں۔ انقلابی تبدیلی کی خواہش تو شاید میاں نواز شریف، عمران خان، مسٹر آصف علی زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ولی خان میں بھی ہو لیکن وہ یہ بات کیسے بھول جائیں کہ ان کی بزنس ایمپائر نے اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اپنی اَنا، ذاتی مفادات اور اقتدار کی اس ایمپائر کے پھلتے پھولتے رہنے کا انحصار بھی اِسی نظام کی بقا پر ہے۔ تحریکِ انصاف کا عروج30اکتوبر2011ء کے بعد شروع ہوا اور زوال 22اگست2013ء کو شروع ہو گیا۔ 2012ء کے آغاز میں وہ مقبول ترین پارٹی تھی، پھر چار کے ٹولے کی ہمالیہ جیسی غلطیوں کا تباہ کن سلسلہ شروع ہوا۔ سونامی کی تباہی 11مئی کو ٹکٹ جاری کرنے کے بے تکے طریقہ کار کے ہنگامہ سے ہوئی۔ عمران خان کو خوشامدیوں اور ابن الوقتوں نے گھیر رکھا ہے۔ میں نے عمران خان کو مارچ 2013ء میں اسلام آباد ائرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان کو 75ہزار پولنگ سٹیشنوں پر 3لاکھ بوتھ کے لئے کم و بیش 3لاکھ تربیت یافتہ، مضبوط کردار، باحوصلہ اور پارٹی کے جانثار پولنگ ایجنٹوں کا لشکر تیار کرنا ہو گا۔ عمران خان نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بڑے تکبر سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کنور صاحب آپ 3لاکھ پولنگ ایجنٹوں کی بات کر رہے ہیں‘ میں نے دس لاکھ رضاکاروں کی ٹیم تیار کر رکھی ہے جو 75ہزار پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کرے گی۔ میں نے بے ساختہ کہاکہ دس لاکھ گارڈ ز پر صدر صدام حسین کو بھی بڑا بھروسہ تھا لیکن جونہی کارپٹ حملہ ہوا ‘ وہ ٹینکوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چنانچہ یہی ہوا‘ 11مئی کی انتخابی جنگ کے دوران 90فیصد مقامات پر پولنگ ایجنٹ موجود ہی نہیں تھے۔ یہ غلطی نہیں مجرمانہ کوتاہی تھی۔ کیا عمران خان اس کے ذمہ دار نہیں تھے؟ عمران خان نے برملا اعتراف کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹ غائب تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی‘ جس کا عمران خان کو ادراک ہی نہیں ہوا کہ ان کی سب سے بڑی حریف جماعتوں نے اپنے ورکرز ان کی صف میں بھجوا دیے اور ان کارکنوں نے عین موقع پر منافقین کا عملی ثبوت پیش کر دیا۔ پاکستان کو درپیش مشکلات کے بے شمار اسباب میں سے سب سے اہم سبب قومی اداروں کے مابین اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے اِرد گرد نہاری، حلیم اور گول گپے والوں کا ایک جمِ غفیر ہے‘ اِسی لئے طاقت کی تکون ابہام پیدا کرنے کا باعث بنتی رہی ہے۔ طاقت، اقتدار، آئین اور پارلیمنٹ کا ایک ہی بنیادی مرکز ہونا چاہیے۔ نواز شریف اداروں کے مابین اہم قومی اُمور پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے کیونکہ ان کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں ملکی اور بین الاقوامی اُمور پر دسترس حاصل نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کارکردگی دکھانا ہو گی ورنہ حکمرانی میں خلا پیدا ہو گا۔ اس خلا کو تحریکِ انصاف پُر نہیں کر پائے گی تو پھر ملک میں ایک بہت بڑی سیاسی پارٹی نمودار ہو رہی ہے جو ایک کروڑ ورکروں کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم رکھے ہوئے ہے۔ اگر وہ سیاسی و مذہبی پارٹی ناکام ہو گئی تو خدا کرے میرا اندازہ غلط ہو، ملک میں مارشل لا کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ جہاں تک ایم کیو ایم، جمعیت علمائے ِ اسلام، تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کا آئندہ پاکستان کی فیڈریشن کو بچانے کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں سکوت ہی بہتر ہے۔ وہ سب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے مطلب کے لئے رابطے میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام نے پاکستان کو ایسی تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیا ہے جو شاید اس کے دشمن بھی نہ کر سکتے۔ 1985ء سے 2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں پاکستان کے ہر شہری کی رائے وہی ہے جو کسی سیاسی دانشور کی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ عام انتخابات کا نتیجہ پہلے سے تیار کر لیا جاتا ہے۔ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی نتائج ایک ایجنڈے کے تحت بنائے جاتے ہیں اور یہ ایجنڈا بین الاقوامی حکمتِ عملی کے تحت بنایا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے نتائج بیرونی ایجنڈے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی غیر جمہوری قوتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یہ نتائج انتہائی غیر منطقی ہوتے ہیں۔ 90ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے والا انتخابی عمل سے باہر ہو جاتا ہے اور بعض حلقوں میں جیتنے والوں کے ووٹ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہوتے ہیں؛ حالانکہ یہ حقیقی ٹرن آئوٹ نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں زمین داروں اور علاقے کے بستہ الف کے بدمعاشوں کے خوف سے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ شہروں میں تو ٹرن آئوٹ کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود امیدوار لاکھوں میں ووٹ لیکر جیت جاتے ہیں۔ نتائج کے غیر منطقی ہونے کے بارے میں سب سے زیادہ ادراک ہر حلقے کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ اس غیر منطقی طریقے کے پس پردہ ریٹرننگ افسران کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ انتخابات عوام کی طرف سے احتساب کرنے اور تبدیلی لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں‘ اگر عوام کو یہ پتہ چل جائے کہ ان کا ووٹ نہ تو احتساب کر سکتا ہے اور نہ ہی تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ سیاسی عمل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت تو نواز شریف کے مرہونِ منت ہے۔ بین الاقوامی حکمت عملی اور تحریکِ انصاف کے چار کے ٹولہ کی ملی بھگت سے اس صوبہ کی باگ ڈور پرویز خٹک کو دی گئی۔ جوں جوں عمران خان پنجاب کی طرف بڑھیں گے ، توں توں صوبہ خیبر پختون خوا میں ان کی حکومت گرا دی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں