"KDC" (space) message & send to 7575

عسکری ونگز کی حامل جماعتوں کے خلاف ریفرنس بھجوائے جائیں!

وفاقی حکومت نے تو مہاجر ریپبلکن آرمی کے وجود کے حوالے سے رپورٹ واپس لے کر آئین کے آرٹیکل 17اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002ء کے آرٹیکل 15کی خلاف ورزی کی ہے؛ حالانکہ اس گروپ کے نام کی ویب سائٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ وفاقی حکومت نے 29اگست کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مہاجر ریپبلکن آرمی کراچی میں پُرتشدد کارروائیاں کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کو پہلے ان کی شناخت کرنی چاہیے اور دوسرے مرحلے میں کراچی سے مہاجر ریپبلکن آرمی سمیت جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے۔ اس رپورٹ میں عدالت عظمیٰ سے عسکری گروپس کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنے کی استدعا کی گئی تھی‘ لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے احتجاج کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 30اگست کو قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ مہاجر ریپبلکن آرمی سے متعلق رپورٹ ان کی منظوری لیے بغیر جمع کرائی گئی؛ چنانچہ ان کی وزارت سرکاری طور پر یہ رپورٹ واپس لے رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ رپورٹ درست تھی؛ تاہم یہ انتظامی اور خفیہ نوعیت کی تھی جسے وہ سپریم کورٹ میں جمع نہیں کرانا چاہتے تھے۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ مذکورہ عسکری گروپ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت کی جانب سے چلایا جارہا ہے‘ لیکن اس کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ یہ اس وقت پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں اتحادی تھی۔ امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں امن و امان کے صورتحال تشویش ناک ہو چکی ہے۔ اس رپورٹ میں سندھ کی سیاسی جماعتوں کے کردار کے بارے میں کئی ہوشربا انکشاف کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008ء سے اب تک پانچ برسوں میں کراچی میں سات ہزار افراد سیاسی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں جس کے اثرات پورے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی نے کراچی کو میدانِ جنگ بنا دیا ہے جس سے کراچی کا داخلی استحکام تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ واشنگٹن کی اس رپورٹ کے مطابق تین بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم ، پی پی پی اور اے این پی نے کراچی میں باضابطہ عسکری ونگز بنا رکھے ہیں جن کی وجہ سے کراچی میں خطرناک حد تک تشدد بڑھ گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ بھتہ خوری ہے اور یہ تینوں پارٹیاں بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ دراصل کراچی میں بنیادی طور پر تشدد کارروائیوں کا آغاز اُردو بولنے والوں اور پشتونوں کے درمیان ہوا۔ ان کے درمیان کراچی کی بالادستی اور صوبے کے اقتدار کے لئے محاذ آرائی اب بھی جاری ہے۔ صدر زرداری کے دور میں سندھ میں حکومت کی رٹ کمزور ہونے کے نتیجے میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند کالعدم تنظیموں اور انتہا پسند گروپوں نے اپنے آپ کو طاقتور بنا لیا۔ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے یہ انتہا پسند گروپ مزید طاقتور بنتے جا رہے ہیں اور انہیں بھارتی اور دوسرے پاکستان مخالف ممالک سے فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کراچی میں ریاست کے سکیورٹی اداروں تک کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ کراچی میں بدامنی اور پھیلتے ہوئے تشدد کو روکنے کیلئے صدر زرداری کی حکومت اور وفاق کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اقدامات بد دلی اور ایڈہاک بنیادوں پر کئے جاتے ہیں جس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ پولیس میں پاکستان بھر سے دو لاکھ سے زائد سیاسی بھرتیوں، کمزور سیاسی نظام اور شہری نظم و نسق کی خرابیوں نے کراچی کے حالات اور بھی بگاڑ دیے ہیں۔ پاک فوج اور سپریم کورٹ کی اعلیٰ ترین سطح پر مداخلت سے حالات وقتی طور پر تو ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہے۔ کراچی میں تین ہزار سے زائد دینی مدارس افغان طالبان کی نرسریاں بن چکے ہیں اور شدت پسندوں نے بھی ان دینی مدارس کو اپنی سرگرمیوں کے لئے منتخب کر رکھا ہے۔ انہی مقامات سے عسکری تنصیبات اور بحری اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریکِ طالبان نے کراچی میں قدم جمالیے اور کراچی کو بین الاقوامی دہشت گردی کا اَڈہ بنا لیا ہے جس میں افغان طالبان اور سنٹرل ایشیاء کے بعض ممالک کے دہشت گرد اور بھارتی ایجنٹوں کی اکثریت بھی شامل ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ امریکی بلیک واٹر قسم کے گروپوں کی سرگرمیوں کو بھی نظر اَنداز نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی سے ہر ماہ اسلحہ ، بارود، غذائی اشیا، فوجی سازوسامان سے بھرے نیٹو فورسز کے لیے تقریباً 2300 کنٹینروں کی افغانستان آمدورفت ہوتی ہے۔ کراچی میں انتہا پسند گروپوں نے نیٹو سپلائی کے لئے کئی مسائل پیدا کئے‘ جنگی سازو سامان اور دوسری اشیا سے بھرے ہزاروں کنٹینر چوری ہو گئے۔ بین الاقوامی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کراچی میں تشدد نے ایک نیا موڑ لیا ہے‘ جس کی وجہ کراچی کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی تھی جس میں سوات اور فاٹا کے پشتونوں کی بڑی تعداد کی کراچی آمد شامل ہے۔ کراچی میں اس وقت 200مسلح، منظم اور تربیت یافتہ جرائم پیشہ گینگ مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں بعض سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بھتہ خوری، ہتھیاروں کی سمگلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اہلِ کراچی کے لئے معمول بن گئی ہیں۔ بدامنی کے پھیلتے ہوئے ماحول میں مذہبی شدت پسند گروپ اپنے ایجنڈے کے ساتھ آگے آگئے ہیں جس سے کراچی مزید زخمی ہو گیا ہے۔ امریکی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کا بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلق ثابت ہو چکا ہے۔ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، ایم آئی، سی آئی ڈی رپورٹ میں بھی‘ جو ستمبر 2011ء میں مکمل ہوئی‘ کہا گیا تھا کہ 2010ء میں کراچی کے تشدد میں ملوث 26ٹارگٹ کلرز نے اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے تھا۔ قبضہ مافیا نے بھی کراچی میں تشدد کو بھڑکایا۔ رپورٹ کے مطابق شہریوں سے کراچی میں ہر روز ڈیڑھ کروڑ روپے کا بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ بھتہ کراچی کی400 مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں، ٹرانسپورٹروں اور ٹینکرز مالکان سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں ، تاجروں، حتیٰ کہ فٹ پاتھوں پر بیٹھے ٹھیلے والوں اور مزاروں کے فقیروں اور گداگروں سے بھی بھتہ لیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق جولائی سے اکتوبر2011ء کے دوران کراچی میں بھتہ خوری میں ایم کیو ایم، اے این پی اور مذہبی جماعتوں کے نام شامل ہیں۔ صدر زرداری اور صوبائی حکومت سندھ نے ان تمام سرگرمیوں پر مجرمانہ غفلت برتی۔ بھتہ کی بیشتر رقوم کراچی میں جاری مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے استعمال ہور ہی ہیں۔ کراچی کے تاجروں نے بار بار حکومت سے کہا کہ انہیں تحفظ دیا جائے لیکن تاجروں کے مطالبات پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی شاید اس لیے کہ بعض صوبائی وزرا کو ہر ماہ پانچ کروڑ روپے بھتہ سے حاصل شدہ رقوم سے نوازا جاتا رہا لیکن کسی بھی حساس ادارے کے سربراہ نے صدر زرداری کو اشارتاً بھی متنبہ نہیں کیا۔ امریکی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ تحریک طالبان نے اپنی سرگرمیوں میں اضافے کے لئے لیاری سمیت کئی جرائم پیشہ گینگز کے ساتھ رابطے استوار کر رکھے ہیں اور یہ سب مل کربھتہ جمع کر رہے ہیں ۔ کراچی میں تحریک طالبان سے منسلک منظور اور مختار گروپ بھتہ جمع کرنے پر مامور ہیں جو بڑے تاجروں اور کاروباری لوگوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو سپلائی کا کام کرنے والے ٹرانسپورٹروں سے بھی بھتہ لیا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں گرفتار 250دہشت گردوں کا تعلق مذہبی تنظیموں سے ہے۔ یہ کالعدم تنظیمیں اور گروپس کراچی میں پُرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 17اور پولیٹیکل آرڈر 20(1)کے آرٹیکل 15کے تحت وفاقی حکومت انتہائی غیر جانبداری سے مکمل تحقیقات کے بعد آئینی ذمہ داریوں کے تحت ان کے ریفرنسز سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھجوائے اور مہاجر ری پبلکن آرمی کے حوالے سے جو رپورٹ وفاقی وزیر داخلہ نے کیبنٹ میں پیش کی ہے‘ اس کے خدوخال پر غور و غوض کرنے کے بعد قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ یہ بات حیران کن ہوگی اگر مجوزہ آپریشن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جو تین بڑی سیاسی جماعتیں اس خونی کھیل میں سر سے پائوں تک ملوث ہیں‘ وہ چند ماہ قبل تک حکومت میں ایک دوسرے کی اتحادی تھیں۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی سندھ کی حکمران ہے۔ اگر اس کی سوچ اور نیت میں کوئی تبدیلی آئی ہے تو اس کا اظہار زمینی حقائق سے نہیں ہو رہا۔ سید قائم علی شاہ پہلے بھی وزیراعلیٰ تھے‘ آج بھی وزیراعلیٰ ہیں اور ان کے پس پردہ متحرک قوت پہلے بھی آصف زرداری کے بھائی تھے اور آج بھی وہی بھائی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف پر لال مسجد کے حوالے سے مقدمہ قائم ہو گیا لیکن اہم آئینی اور قانونی سوال یہ ہے کہ سابق صدر نے ملک کی رٹ برقرار رکھنے کیلئے آپریشن کا حکم دیا اور وہ ایکٹ آف دی سٹیٹ تھا لیکن ان پر مقدمہ قائم ہو گیا ہے‘ آئینی اور فوجی ماہرین یہ سوچ رہے ہیں کہ جو کراچی میں آپریشن ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا اس میں انسانی جانیں ضائع ہوں گی‘ تو کیا اس کامطلب یہ ہے کہ جو کراچی میں آپریشن کا فیصلہ کرے گا‘ کل اس کے خلاف بھی مقدمہ بنے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں