"KDC" (space) message & send to 7575

مصلحت آمیز سیاست اور مقدمات

سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے قومی احتساب بیورو کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کا بطورِ صدر استثنیٰ ختم ہونے کے بعد اب شاید نیب دوبارہ مقدمہ شروع کر سکتی ہے۔ بین السطور میں سینیٹر اعتزاز احسن نے حق گوئی کرتے ہوئے وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کو آئینی طور پر پوزیشن بتا دی ہے اور این آر او کو چونکہ سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے لہٰذا اب سابق صدر سمیت دیگر اہم افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ آج سابق صدر زرداری کو ہر لمحہ یہ خطرہ لاحق ہے کہ کوئی عدالت ان کے وارنٹ گرفتاری نہ جاری کردے یا ان کا کوئی ساتھی سرکاری گواہ نہ بن جائے یا کوئی بزنس پارٹنر اربوں روپے کا فراڈ کر کے غائب نہ ہو جائے۔ چنانچہ زرداری صاحب کو اپنی عافیت اس اعلان میں ہی نظر آرہی ہے کہ ایوانِ صدر میں پوری قوم کے سامنے ٹیلی ویژن پر لائیو اعلان کریں کہ وہ سیاست پانچ سال بعد کریں گے اور آئندہ پانچ سال حکومت کی بھرپور حمایت کریں گے۔ اس اعلان پر قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کہ اب ان کا کام تو رہا ہی نہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو سابق صدر زرداری کی تعریف کرنے کی بجائے قوم کو یہ بتانا چاہیے کہ اربوں کھربوں کی لوٹ مار میں جو لوگ پانچ سال ملوث رہے ان کے خلاف حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم ہائوس میں صدرِ مملکت کے الوداعی ظہرانہ میں اپنے خطاب سے یقینا آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دورِ حکومت کو کرپشن سے پاک قرار دے دیا ہے۔ اب کم از کم آئندہ پانچ سال کے دوران آصف علی زرداری کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ کھل سکے گا اور نہ موجودہ حکومت ان کی کرپشن کو ہی زیر بحث لائے گی۔ سابق صدر آصف علی زرداری دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62اور 63کے مطابق سروس آف پاکستان کے زمرے میں آتے ہیں۔ لہٰذا وہ سبکدوشی کے بعد دو سال یعنی 8 ستمبر 2015ء تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 3تا 5 کے تحت دو سال تک وہ کسی سیاسی جماعت کے عہدیدار بننے کے بھی اہل نہیں ہوں گے۔ ماضی میں صدر فاروق خان لغاری (مرحوم) اور جنرل (ر) پرویز مشرف نے دو دو سال انتظار کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لیا۔ صدر فاروق خان لغاری نے پاکستان ملت پارٹی بنائی اور جنرل (ر) پرویز مشرف دوسال کی آئینی میعاد مکمل ہونے کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر بنے۔ اگر آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی بھی عہدہ سنبھال لیا تو یہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے ساتھ ساتھ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی خلاف ورزی ہوگی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں فیصلوں، اقدامات اور الزامات کے حوالے سے ان کی کارکردگی قابل قدر نہ تھی۔ جن سیاستدانوں نے ان سے فائدے لیے اب وہ ان سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کی مدت پوری کی۔ پورے نظام کو مفلوج کرنے کے لیے بطور صدر انہوں نے جو قیمت وصول کی اور جو رعائتیں انہوں نے دیں‘ وہ غیر معمولی تھیں۔ تقریباً پونے دو لاکھ سے زائد اپنے پیپلز گارڈز کو پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں، سرکاری اداروں اور محکموں میں بھرتی کرنا ان تمام اداروں کی تباہی کی وجہ بنا۔ وہ ملازمتیں فراہم کرنے پر فخر کرتے رہے اور انہوں نے اپنی صدارت کے آخری ہفتے میں سٹیل ملز میں اپنے مزید پانچ ہزار جان نثار ورکر بھرتی کیے۔ اربوں روپے کی کرپشن کو وقار اور منصب کی علامت بنا دیا گیا؛ چنانچہ تمام نظام تلپٹ ہوتا چلا گیا۔ زرداری صاحب کو اقتدار میں لانے کا منصوبہ صدر بش کی پاکستان میں انتخابی پالیسی کا حصہ تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف اپنے ساتھیوں کی یقین دہانیوں کے دام فریب میں آکر این آر او پر دستخط کر بیٹھے۔ چونکہ این آر او پر عمل درآمد 5 اکتوبر2007ء کو شروع ہوا اور پاکستان میں آئندہ چند مہینوں میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا لہٰذا الیکشن کمیشن کو یورپی یونین کے سفارتی نمائندوں، مغربی ممالک کے اہم سفیروں اور بالخصوص امریکی سفیر نے پوری طرح نرغے میں لیا ہوا تھا اور جب این آر او کے معاہدے کے تحت پاکستان میں انتخابی گیٹ کھول دئیے گئے تو مجھے یورپی یونین کے بعض سفارت کاروں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف عالمی سازشوں کے نرغے میں آکر غلط فیصلے کر چکے ہیں اور انہیں اپنی سنگین غلطیوں کا احساس چند ماہ میں ہو جائے گا۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ مسٹر آصف علی زرداری نے آئندہ پانچ سال سیاست میں ملوث نہ ہونے اور اپنے تحفظ کے لیے نواز شریف سے مدد طلب کرنے کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ چند سال زرداری صاحب کو اپنا ہر طرح کا دفاع کرنا ہوگا۔ اپنے خاندان اور اثاثوں کو بچانے کیلئے یہ ایک طویل جنگ کرنا ہو گی اور اس جنگ میں انہیں غنویٰ بھٹو، فاطمہ بھٹو اور جونیئر ذوالفقار علی بھٹو کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ سابق صدرآصف علی زرداری کے اعزاز میں وزیراعظم نواز شریف نے جو ظہرانہ دیا‘ اس میں مفاہمتی سیاست کے ساتھ ساتھ این آر او معاہدہ کی پاسداری بھی شامل تھی۔ دونوں نام نہاد روایتی حریف اس ظہرانے میں شیروشکر نظر آئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جس انداز کی محاذ آرائی ہوتی رہی ہے اور دونوں جماعتوں کی قیادتیں واشگاف الفاظ میں ایک دوسرے پر جس طرح سنگین نوعیت کے الزامات لگاتی رہی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ مگر 5ستمبر2013ء کو یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ ساری محاذ آرائی ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی۔ نواز شریف کی تقریر سے ان کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اگر تقاریر کی بجائے اس ضیافت میں پھولوں کے گل دستے اور تحائف کا تبادلہ ہی کیا جاتا اور بعد ازاں غیر سرکاری گپ شپ کا انتظام کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں ترقی کر کے 47ویں نمبر سے 35ویں نمبر پر آگیا۔ بدانتظامی، بدعنوانیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو 80کھرب روپے کا زبردست نقصان ہوا۔ رینٹل پاورپروجیکٹ‘ 8ارب کا این سی ایل سکینڈل، نیلم جہلم، سی ڈی اے، سوئی گیس ، واپڈا میں بدعنوانیوں کے نئے ریکارڈ دیکھنے کو ملے‘ جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ سی این جی، پیٹرول، بجلی کے نرخوں میں گرانی نے عام آدمی کو نڈھال کر دیا۔ پانچ برسوں میں 90ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری اور 872ارب کے گردشی قرضوں نے سارے دعوؤں کا پول کھول دیا۔ ان پانچ برسوں میں 823ارب روپے کی کرپشن کی روح فرسا کہانیاں اقتدار کے بڑے ایوانوں سے گلی کوچوں تک پھیلی رہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ پانچ برسوں تک بیڈ گورننس کے باوجود آصف علی زرداری کوشاہی ظہرانہ میں مدعو کر کے محبت کے پھول نچھاور کرتے۔ ایسی مصلحت آمیز سیاست کے لئے قوم نے ان کو مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں