"KDC" (space) message & send to 7575

کراچی کا بحران اور حکومتی اقدامات

جرائم پیشہ گروہوں نے کراچی میں قتل و غارت کا جوبازار گرم کر رکھا ہے اسے ختم کرنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد 9ستمبر کو وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں ہو چکا ہے۔ ایک بڑے آپریشن کا معاملہ زیر غور ہے‘ جس کا کنٹرول مرد بیمار سندھ سید قائم علی شاہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ یہ بات اگر اِسی قدر آسان ہوتی جس قدر نظر آتی ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ جرائم پیشہ گروہ خواہ کس قدر ہی طاقتور کیوں نہ ہوں‘ وہ ریاست کی طاقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں یا گروہوں کو جن عناصر کی درپردہ سرپرستی اور حمایت حاصل ہے اُن کے پاس ریاستی طاقت کے استعمال کا کچھ اختیار ہے۔ دوسرے الفاظ میں کراچی کے بعض ادارے‘ جن کے ہاتھوں میں ریاستی اختیار ہے‘ ایک طرف قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں اور دوسری طرف قانون توڑنے والے افراد اور گروہوں کے درپردہ سرپرست بھی ہیں۔ کراچی میں جو جرائم بڑے پیمانے پر فروغ پا رہے ہیں‘ ان میں سر فہرست بزور طاقت بھتہ وصول کرنا، تاوان لینے کے ارادے سے اغوا کی وارداتیں کرنا اور جب بھی‘ جہاں بھی موقع ملے سرکاری، نیم سرکاری یا متنازعہ زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ ان تینوں جرائم کو تیزی سے فروغ پانے والی صنعت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس انڈسٹری سے ایک طرف بعض بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے مفادات وابستہ ہیں تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے بعض اداروں کے بااختیار اہل کاروں کی اس انڈسٹری کی پھلتی پھولتی آمدنی میں حصہ داری کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اس مسئلہ میں بد قسمتی سے نیول انٹیلی جنس کے دوچار اہل کاروں کو بھی ملوث پایا گیا اور ان میں بعض کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ اب کراچی میں ان گروہوں کے ایسے مفادات کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے جو اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہوتے ہیں۔ ان متصادم مفادات کے سرپرستوں نے اسلحہ بردار گروہ بنا رکھے ہیں جنہیں خفیہ پناہ گاہیں بھی میسر ہیں اور جنہیں بوقت ضرورت قانونی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بظاہر خوش آئند خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن وفاقی حکومت نے ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اس ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے ختم کیے جائیں گے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ سندھ میں این آر او کے ثمرات کی وجہ سے پولیس اس قابل نہیں رہی کہ کراچی میں جرائم کو کنٹرول کر سکے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ کراچی پولیس میں انتہائی متنازعہ بھرتیاں کی گئیں۔ وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ سندھ کو کراچی کو جرائم سے پاک کرنے کی طے شدہ حکمت عملی پر عمل درآمد کے لئے نگران مقرر کر دیا ہے۔ قائم علی شاہ تو گزشتہ دور میں بھی صوبہ کے وزیراعلیٰ تھے۔ جو کام وہ گزشتہ پانچ سال میں نہ کر سکے‘ اب کیا کریں گے۔ وفاق کو صوبے کے معاملے میں کس حد تک مداخلت کا حق ہے ۔ آئین اور آئین کی اٹھارویں ترمیم کے حوالے دئیے جارہے ہیں اور مینڈیٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آئین کے فراہم کردہ بنیادی حقوق میں سب سے اہم تو شہریوں کے جینے کا حق ہے‘ جسے کراچی کی حدتک چھین لیا گیا ہے۔ آئین کے تحت جن کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دیں‘ وہ اگر اپنا بنیادی فرض ادا کرنے میں ناکام ہیں اور مسلسل ناکام ہیں تو انہیں وفاق اور سندھ میں حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہونے والوں کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔ وہ جو عام افراد کو مرنے اور لٹنے کے لئے چھوڑ دیں اور خود پولیس اور رینجرز کے محافظوں کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر گھومیں انہیں حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔ اگر سندھ حکومت اب بھی کراچی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی تو وفاقی حکومت خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ مفاہمت اور اتفاق رائے کی سیاست نے گذشتہ پانچ سالوں میں اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں۔ کچھ بھی ہو قاتلوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بنانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتیں تو پھر کراچی کو آئین کے آرٹیکل 245کے تحت افواجِ پاکستان کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ میں آپ کو حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب سمیت تین صوبوں میں وزارتِ داخلہ ہی نہیں ہے۔ صرف صوبہ خیبر پختون خوا میں ہے۔ پورے ملک میں دہشت گردی جاری ہے اور ملک کو ایسے ہی چلایا جارہا ہے۔ رینجرز نے جو فہرستیں تیار کی ہیں وہ 450نہیں بلکہ چار ہزار ہیں۔ گزشتہ سال جنرل رضوان نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ کراچی کے حالات سیاسی جماعتوں کی وجہ سے خراب ہیں جس پر سینیٹر رضا ربانی ناراض ہو گئے کہ ان پر الزام لگایا جارہا ہے۔ جنرل رضوان نے کہا کہ ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ دوسری میٹنگ میں چوہدری نثار علی ڈی جی رینجرز کے ساتھ میٹنگ میں تھے۔ جب چوہدری نثار نے پوچھا کہ آپ کراچی کو کتنے دنوں میں کلیئر کر لیں گے تو ڈی جی رینجرز نے کہا کہ صرف تین دن میں‘ ہوم ورک مکمل ہے۔ لسٹیں موجود ہیں۔ لیکن ابھی تک بھرپور آپریشن شروع نہیں ہوا۔بات یہ ہے کہ کیا پولیس ایسا چاہے گی کہ اس کی عمل داری پر حرف آئے۔ پاکستان کے عوام کراچی میں بڑے آپریشن کے منتظر ہیں‘ لیکن اس قوم کے ساتھ بڑاہی بے رحمانہ مذاق کیا جا رہا ہے۔ جتنا وقت دیا جارہا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مطلوبہ لوگ بیرون ملک منتقل ہو جائیں گے اور اسلحہ محفوظ کر دیا جائے گا۔ چند دن شور مچا کر امن کا نام لیا جائے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ عرصہ بعد وہ لوگ دوبارہ آکر کارروائیاں شروع کر دیں گے۔ کوئی بھی پارٹی اپنے مفادات کے خلاف اقدامات کو غیر جانبداری کا نام دے گی۔ جن پارٹیوں میں عسکری ونگز فعال ہیں ان کے پس پردہ عزائم یہ ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ پاکستان کی معیشت تباہ کر دی جائے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کی انتہا کر دی جائے۔ بلوچستان اور کراچی کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جائے۔ پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبوں کو ہر صورت ناکام بنایا جائے۔ بھارت اور مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں اور وظیفہ خوروں کے ذریعے افواجِ پاکستان اور اہم ترین دیگر اداروں کو پروپیگنڈہ کا نشانہ بنایا جائے۔ پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کر کے اسے بنجر بنایا جائے اور دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جائے۔ قوم فیصلہ کرے کہ اس صورتحال میں آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں