"KDC" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی کے معاملات

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات پر سیاسی اور عسکری قیادت کے اندازِ فکر میں ہم آہنگی ہے۔ ستمبر2011ء سے اب تک مختلف حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کی دعوت پر متعدد کل جماعتی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں جن میں قراردادیں منظور ہوئیں۔ اصل معاملہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ 22اکتوبر2008ء کو بھی دونوں ایوانوں کے اِن کیمرہ اجلاس میں قرارداد منظور کی تھی مگر عمل درآمد کل جماعتی کانفرنس کی سفارشات پر ہوتا نظر آرہا ہے نہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر ۔ اگر موجودہ حکومت بھی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر‘ جس میں ماضی کی قراردادوں کے مقابلے میں زیادہ تجاویز شامل ہیں‘ عمل درآمد نہ کرواسکی تو قوم میں مایوسی اور بددلی پیدا ہو گی۔ اس لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کانفرنس کے فیصلوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ اس وقت ملک میں مفاد پرستانہ سیاسی نظام کو بچانے کے لئے جمہوریت کا نام لیا جارہا ہے؛ حالانکہ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہاں کون سا نظام حکومت قائم ہے۔ ترقی اور خوشحالی کا تعلق براہِ راست حکومتی کارکردگی ، عمدہ پالیسی سازی، قانون کی بالادستی اور کرپشن کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ بڑی سادہ اور قابلِ فہم ہے… جو نظام‘ مملکت کو فعال‘ نتیجہ خیز‘ دور اندیش اور دیانت دار قیادت مہیا نہ کر سکے‘ اس کی تعریف کرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں آمریت یقینی طور پرناکام رہی ہے مگر جمہوری نظام نے جن سیاستدانوں کو بھی اقتدار سپرد کیا‘ انہوں نے عوام کو مفلسی اور محتاجی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ قومی دولت بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹی گئی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ میدان میں ہاری گئی جنگ مذاکرات کی میز پر نہیں جیتی جا سکتی اور یہ کہ اگر طالبان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو وہ وقت ٹالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ دراصل پاکستان کی سیاسی صفوں میں اکثریت ان سیاستدانوں کی ہے جن کے مفادات مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک، مغربی ممالک اور بھارت سے وابستہ ہیں جبکہ حکومت کی نااہلی، بے بسی، اعتماد کے فقدان، باہمی طور پر ایک دوسرے سے نفرت ، پاکستان کی صف اول کی قیادت میں قائدانہ صلاحیت کا فقدان پاکستان کو مزید مسائل کا شکار بنا دے گا۔ پاکستان کے کمزور سیاسی ڈھانچے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ قوم نے ان کو جو مینڈیٹ دیا ہے‘ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ خود ہی اپنی کابینہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ورکنگ کمیٹی کی مشاورت سے پاکستان کے مستقبل کی کوئی واضح تصویر بنا لیتے۔ میرے خیال میں موجودہ حالات میں آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں سے ابہام بڑھے گا۔ ایم کیو ایم نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس کا تجربہ ہمیشہ اِس لئے ناکام رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بالغ نظری دیکھنے میں نہیں آتی۔ 10مارچ1969ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس وقت پاکستان کے قدآور سیاستدانوں میں چونکہ باہمی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے در پے تھے‘ لہٰذا گول میز کانفرنس ناکام ہو گئی اور اِس ناکامی کے نتیجے میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ اسی طرح پاکستان کے مرد آہن ذوالفقار علی بھٹو گول میز کانفرنس کے ہاتھوں اقتدار اور جان دونوں سے محروم ہو گئے۔ محمد خان جونیجو افغان پالیسی کے بارے میں گول میز کانفرنس منعقد کرنے پر برطرف کئے گئے۔ میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی ترقی کی منازل آگے بڑھتی گئیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کو بھی گول میز کانفرنس بلانے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے جتنی بار ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا ملک بحرانوں کی لپیٹ میں چلا گیا۔ نواز شریف کو اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد آل پاکستان کانفرنس منعقد کرانے کے بجائے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد طالبان سے مذاکرات شروع کر دینے چاہئیں تھے۔ اب آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجہ میں طالبان سے مذاکرات شروع کئے گئے تو وہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی روشنی میں پاکستان میں اسلامی طریقے کے مطابق انتخابات کروانے‘ عدلیہ کو تبدیل کرنے، اپنے قیدیوں کی رہائی اور معاوضے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ فاٹا اور وزیرستان سے پاکستان کی افواج کی واپسی اور ان علاقوں میں طالبان کی عمل داری کا مطالبہ بھی زور پکڑتا چلا جائے گا۔ اس لیے پاکستان کی فیڈریشن کے کمزور ہو جانے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ عمران خان اس اہم تاریخی موڑ پر اپنا قومی کردار سنبھالنے میں بظاہر بہت زیادہ کامیاب نظر نہیں آئے۔ پاکستان کے عوام کی نگاہیں عمران خان پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ اس موقع پر افواجِ پاکستان، حکومت اور عدلیہ کے اختیارات کے لئے مینڈیٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کرتے ۔ عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنمائوں کو وزیرستان اور فاٹا کے موجودہ حالات کی باریکیوں کا ادارک ہی نہیں ہو سکا یا پھر وہ مصلحت کا شکار ہو گئے۔ آل پارٹیز کانفرنس نے ڈرونز حملوں کے خلاف اقوامِ متحدہ جانے کی بات کر کے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس لیے کہ ڈرونز حملے رکوانے کے لئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانا ہوگا۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ ویٹو کی موجودگی میں پاکستان ڈرونز کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے بڑی گہری اور تشویش ناک بات کہی ہے کہ کشمیر کی جنگ لڑتے ہوئے آج پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے لیکن پاکستان نے کشمیر کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بھی جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کی ریاست کو کمزور کر دیا ہے۔ اب کراچی آپریشن کیا رُخ اختیار کرے گا؟ ایم کیو ایم کراچی کے آپریشن میں اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر جو قدم اُٹھائے گی اس سے آل پارٹیز کانفرنس کے مقاصد ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے ایک روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے خبردار کیا تھا کہ چند بااثر گروہ اور طاقتیں آل پارٹیز کانفرنس کی قراردادوں اور پاک فوج کی حمایت کے ساتھ مقامی جنگ جوئوں سے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے سرگرم ہو چکی ہیں۔ لیکن اب تحریک طالبان کے ترجمان کی جانب سے سانحہ دیر کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومتی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان ہے۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی امن کوششوں کو بعض حلقوں نے اسے بحیثیت قوم طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنا قرار دیا تھا۔ ان کی بات درست ثابت ہو رہی ہے۔ عمران خیبر پختونخوا میں طالبان اور پاک افواج کی کشمکش کو کرکٹ گیم کے انداز میں لے کر ملک کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن سے آئندہ ماہ سے فوجیوں کی واپسی کے اعلان اور ان کی جگہ سول انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے اعلان اور افواجِ پاکستان کے دستوں کو مالاکنڈ ڈویژن سے بغیر کسی حفاظتی اقدام کے واپس بلانا‘ ان علاقوں میں طالبان کی عمل داری کو دوبارہ برقرار رکھنے کی گہری چال نظر آرہی ہے۔ بھارت کی سترہ ریاستوں میں اس سے بدتر حالات ہیں اور علیحدگی پسندوں نے مکمل جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہاں بھارتی فوج نے ان ریاستوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ وہاں سیاستدانوں نے بھارتی افواج کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ پرویز خٹک کس کے اشارے پر ایسے احکامات جاری کر رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں