"KDC" (space) message & send to 7575

سیاست اور دفاعی صورت حال

اَپر دیر میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں افواجِ پاکستان کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے علاوہ لیفٹیننٹ کرنل اور لانس نائیک کی شہادت سے بعض حلقوں کے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ طالبان کی صفوں میں ایسے غیر ملکی ایجنٹوں کا غلبہ ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسے کمزور بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ میری دانست میں طالبان کے گروہ میں بلیک واٹر کے پختون بولنے والوں اور وسطی ایشیا کے بعض ممالک کے ایجنٹوں نے طالبان سے مذاکرات کی کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنا عملی کردار ادا کیا ہے۔ بد قسمتی سے اسی دوران طالبان اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہی بارودی سرنگ بچھائی تھی جس کے پھٹنے سے مذکورہ فوجی شہید ہوئے۔ وفاقی حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسی بھی قوم کے سامنے ہے۔ ایسے اہم معاملات پر کیبنٹ کی دفاعی کمیٹی کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ چیف آف دی آرمی سٹاف کو آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کرنے کی کوئی منطق نہیں تھی۔ اَپر دیر سانحے کے بعد اس کا نتیجہ قوم کے سامنے آگیا۔ قوم اور اس کے رہنمائوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا وزیرستان اور اس کے قرب و جوار میں فیصلہ کن جنگ کرنی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مشن اور بھارت کے مذموم عزائم کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے واقعات کے بعد مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ دراصل ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ تینوں شہید فوجیوں کے نمازِ جنازہ کے موقع پر یہ عزم سامنے آیا کہ دہشت گردوں کے سامنے جھکنا نہیں ہے بلکہ ان کا ہر حال میں مقابلہ کرنا ہے۔ فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے‘ پاکستان کی مسلح افواج پوری طرح تیار ہیں۔ طالبان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی نہیں چاہتے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آرمی افسروں کی شہادت سے پہلے حکومتی کمزوری سامنے آگئی تھی جب خیبر پختون خوا حکومت اور گورنر خیبر پختون خوا کی جانب سے گومل ڈیم سے اغوا کیے جانے والے واپڈا کے اہل کاروں کو رہا کرایا گیا اور اس کے لئے ڈھائی کروڑ روپے کی رقم حکومت کی جانب سے اغوا کاروں کو ادا کی گئی۔ طالبان نے ہر حساس مقام پر اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ کراچی، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے نوّے فیصد سے زائد علاقے میں پاکستان کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں طالبان کے سامنے شریعت کی بالادستی یا عوامی حقوق سمیت کوئی بہتر مشن ہے تو پرامن بات چیت کے ذریعے انہیں اس کے حصول کا بہتر موقع مل رہا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بہترین طریقہ کار یہی ہے کہ شرائط مذاکرات کی میز پر پیش کی جائیں اور امن کو راستہ دیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو ان عناصر کو تقویت ملے گی جو صرف فوجی کارروائی کو اس مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ ایسا حل ہوگا جو بہت سنگین خطرات کا حامل ہے۔ طالبان کو اس سے بچنا چاہیے اور اپنی صفوں میں شامل غیر ملکی ایجنٹوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران‘ جو ملک کے ممتاز دانشور ہیں اور جن کی بین الاقوامی اُمور پر گہری نظر ہے‘ درست کہہ رہے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز اسلحے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کو اس پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ بدقسمتی سے پنجاب یونیورسٹی میں استاد کم اور سیاستدان زیادہ ہیں اور پروفیسر حضرات طلبہ کو استعمال کرتے ہیں۔ 1970ء میں پہلی مرتبہ وائس چانسلر پروفیسر علاؤالدین صدیقی پر تشدد کیا گیا تھا جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے سیاستدان‘ صحافی اور دانشور موجود ہیں جو مذاکرات کی بجائے جنگ کے حامی ہیں۔ ملک میں کنفیوژن کی لہر دوڑ رہی ہے اور قوم کسی نتیجے پر اس لئے نہیں پہنچ پا رہی کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کی سوچ میں تدبر اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ پارلیمنٹ میں محض رسمی انداز سے فرینڈلی بحث ہوتی ہے۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ فوج سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن سیاسی میدان میں پالیسی ساز ادارے کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ 1979ء میں روس نے افغانستان میں پیش قدمی کی تو پاکستان کی غیر جمہوری حکومت امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے دبائو میں آکر ایک ایسی پالیسی مرتب کر بیٹھی جس سے پاکستان کو آج تک نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ سیاسی حکمرانوں نے اپنی نادانیوں کا جو سلسلہ 1980ء میں جنرل ضیاء الحق کی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں بیٹھ کر کیا تھا‘ اس میں تبدیلی اس لئے نہیں آرہی کہ ملک میں کوئی بھی قدآور شخصیت موجود نہیں ہے۔ طالبان نے حملے جاری رکھنے کے اعلان کے ساتھ حکومت پاکستان سے مذاکرات کے دروازے عملاً بند کر دیے ہیں۔ طالبان کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ پاکستان کی افواج پر حملے جاری رکھیں گے‘ عملاً پاکستانی فوج کو پیغام ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی بھی مثبت مذاکرات کے لئے فی الحال تیار نہیں ہیں۔ اسی تناظر میں اب صورتحال کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ جنگ کا راستہ اختیار کرنے سے دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہو جائے گا۔ اعلیٰ قیادت کو ان عوامل کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں