"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات اور درپیش مسائل

پاکستان میں جمہوری عمل مشکوک، متنازعہ، دھونس، دھاندلی اور دبائو کے ارتقائی عمل سے گزرتا رہا ہے۔ مقامی حکومت کا نظام آج سے پانچ ہزار سال قبل برصغیر میں شروع کیا گیا تھا‘ یہ نظام مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور اکبرِ اعظم کے وزیر مال ٹوڈرمل نے عوامی مزاج کے مطابق اس میں تبدیلی کی اور مغلیہ خاندان اِسی نظام کے تحت برصغیر ہند میں حکومت کرتا رہا۔ 1956ء میں دیہات سدھار کے تحت اسی نظام کو مغربی پاکستان میں کامیابی سے چلایا گیا اور سابق صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے تحت ہی ملک میں معاشی انقلاب کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیاء الحق نے 1979ء اور 1983ء میں بدنیتی کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے۔ پاکستان میں جمہوری عمل اس دن مکمل ہو گا ، جب حکومت، عدلیہ اور الیکشن کمیشن مل کر آئین کے آرٹیکل 140-Aپر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 140-Aمیں لکھا ہے کہ ہر صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گا۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 140-Aصوبوں کو خودمختاری دیتے ہوئے ہر صوبہ کو خود قانون سازی کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا ہر صوبہ کی اسمبلی کو اپنے اپنے صوبے کے لئے بلدیاتی انتخابی قوانین بناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 140-Aکی روح کو مدِ نظر رکھ کر قانون سازی کرنا ہو گی۔ سابق وفاقی حکومت اکتوبر 2009ء میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے پر آمادہ تھی اور اس مقصد کے لئے 22جولائی کو سابق صدر زرداری کی صدارت میں اہم میٹنگ بھی ہوئی تھی‘ جس میں اس وقت کے چیئرمین سینٹ فاروق نائیک ، وزیرقانون افضل سندھو، سلمان فاروقی، جسٹس علی نواز چوہان، فرحت اللہ بابر، پارلیمانی سیکرٹری غضنفر علی، پرنسپل سیکرٹری شیخ سلیم محمود اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفاقی سیکرٹری کی حیثیت سے میں نے شرکت کی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ صوبائی حکومتوں کو قانون سازی کی ہدایات جاری کی جائیں۔ پنجاب حکومت اور صوبہ خیبرپختون خوا اور سندھ میں ایم کیو ایم کے عدم تعاون کی وجہ سے ایوانِ صدر کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یہ اجلاس غیر رسمی تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 32اور 140-Aکے تحت درست احکامات جاری کئے ہیں‘ کیونکہ سابق وفاقی حکومت و صوبائی حکومتوں نے لوکل گورنمنٹ کا الیکشن نہ کرا کر آئین سے انحراف کیا۔ یہ بلدیاتی انتخابات اگست 2009ء میں ہونا چاہئیں تھے۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ستمبر2013ء میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا جو حکم دیا اس میں گونا گوں انتظامی پیچیدگیاں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے لیے تاحال صوبائی حکومتوں نے حلقہ بندیاں نہیں کرائیں۔ صورتحال یہ ہے کہ 2001ء میں بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیاں ہونا تھیں۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ وہ حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ہونی تھیں۔ اس وقت تک سرکاری طور پر پاکستان کی آبادی 12کروڑ تھی اور 6ہزار یونین کونسلیں کام کر رہی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار اور تخمینوں کے مطابق 19کروڑ سے زائد ہے اور سرکاری طور پر یونین کونسلوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2001-2000ء میں صوبائی حکومتوں نے جو حلقہ بندیاں کرائی تھیں اس وقت کے قومی تعمیرِ نو بیورو کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) تنویر حسین نقوی کی تجاویز کے مطابق کرائی گئی تھیں۔ وہ یک طرفہ حلقہ بندیاں تھیں اور اسلام آباد میں پاکستان بھر کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور ریونیو کے محکمے کے حکام کے مشورے سے بنائی گئی تھیں۔ انہوں نے حلقہ بندیوں کے قوانین کے مطابق اپنی خود ساختہ حلقہ بندیاں مشتہر بھی نہیں کی تھیں ۔ نہ ان پر اعتراضات طلب کر کے سماعت کی تھی ۔ لہٰذا ان حلقہ بندیوں کی بناء پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مناسب نہ ہو گا۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کے مطابق لوکل گورنمنٹ کے انتخابات لازمی ہونے ہیں۔ لہٰذا صوبائی حکومتیں اب نئی حلقہ بندیاں کرائیں گی تو باقاعدہ اعتراضات طلب کر کے ان کی سماعت کریں گی۔ قانون کے سارے تقاضے پورا کرنا ہوں گے۔ حلقہ بندیوں پر اعتراض کرنے والے سول کورٹس، ہائی کورٹس میں بھی جائیں گے جس کے لئے مناسب وقت درکار ہو گا۔ واضح رہے کہ جولا ئی 2005ء میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کے موقع پر جب سندھ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے یک طرفہ طور پر گھوٹکی میں بعض پٹہ داروں میں حلقہ بندیاں کرائیں تو ان کے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا اور ضلع گھوٹکی ایک سال تک بلدیاتی انتخاب سے محروم رہا۔ خوش قسمتی سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلدیاتی انتخابات کا صحیح ادارک ہے‘ کیونکہ جب وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو وہ بلوچستان الیکشن اتھارٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ انہوں نے اپنی نگرانی میں 1998ء میں بلوچستان میں آزادانہ، منصفانہ اور مثالی بلدیاتی انتخابات کرائے تھے۔ میں اس وقت بلوچستان کا الیکشن کمشنر تھا۔ ان حالات میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان ستمبر کی ڈیڈ لائن میں توسیع کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا‘ کیونکہ سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی، مفاد پرستی اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے بیوروکریسی اس عرصے کے دوران صوبائی سطح پر نہ تو قانون سازی کرا سکی اور نہ ہی حلقہ بندیوں کی طرف عملی قدم اٹھایا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے نظام کے لئے یکساں قانون سازی کی غرض سے چاروں صوبوں کو ہدایات جاری کر دی ہے۔ لیکن سوائے صوبہ خیبر پختون خوا کے کوئی بھی صوبہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق واضح پالیسی تشکیل نہیں دے سکا۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات ستمبر میں یا اس کے قریب کرانے کا حکم دیا۔ خیبر پختون خوا حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ کسی وقت بھی انتخابات کرانے کے لئے تیار ہے۔ بلوچستان کا ابھی کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ پنجاب نے بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیاں کرانی ہیں جس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہو گی‘ اس لئے 90دن کی مہلت طلب کی جا سکتی ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے بھی یہی مؤقف اختیار کیا گیا ہے اور انتخابات کرانے کیلئے مزید مہلت مانگی گئی ہے۔ اِدھر الیکشن کمیشن کا بھی کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں نوٹی فیکیشن کے اجراء کے بعد90روز کے اندر الیکشن کرانے کا پابند ہے اور ووٹر لسٹوں کو بھی یونین کونسل کی سطح پر مرتب کرانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے مزید مہلت دینے کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ بنیادی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے مقامی حکومتوں کا قیام جتنا ضروری ہے پاکستان میں ان کی تشکیل کے لئے اتنی ہی تاخیر اور لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ سابق حکومت نے اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت بلدیاتی انتخابات کرائے بغیر گزار دی ۔ حالانکہ یہ ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ 1979ء کا بلدیاتی نظام غیر جماعتی تھا۔ صوبائی حکومتیں اسے اس لئے واپس لانا چاہتی ہیں کہ اس میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات محدود تھے۔ زیادہ اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس تھے۔ اس کے برخلاف 2001ء کے لوکل گورنمنٹ سسٹم میں جو نظام نافذ کیا گیا تھا‘ اس میں صوبائی حکومتوں کے اختیارات کم کر کے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے اختیارات غیر معمولی طور پر بڑھا دئیے گئے تھے۔ یہ دونوں نظام خامیوں سے مبرّا نہیں تھے‘ لیکن دوسرا نظام بہتر تھا کیونکہ اس میں حلقہ کی سطح پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کو مقامی مسائل حل کرنے کے لئے زیادہ اختیارات اور دلائل دیئے گئے تھے جو صوبائی حکومتوں کو پسند نہیں۔ شاید اِسی لئے صوبائی حکومتیں 1979ء کا سسٹم بحال کرانا چاہتی ہیں۔ موجودہ حکومت ایک سیاسی اور جمہوری حکومت ہے۔ اسے غیر جماعتی نظام کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے بلکہ ماضی کے مقابلے میں مزید آگے بڑھ کر بلدیاتی اداروں کو زیادہ با اختیار بنانا چاہیے۔ اسی حوالے سے صوبائی حکومتوں کے نام الیکشن کمیشن کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں انہیں یکساں قانون سازی کے لئے کہا گیا ہے۔ اسی طرح ان مشکلات سے بھی بچا جا سکے گا جو ہر صوبے میں الگ نظام سے پیدا ہو سکتا ہے۔ یکساں قانون سازی کا مرحلہ جتنا جلد ممکن ہو مکمل کر لیا جائے تاکہ بلدیاتی انتخابات جلد کرائے جاسکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں