"KDC" (space) message & send to 7575

کراچی میں حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟

پوری قوم کی نظریں ان حکومتی اقدامات پر لگی ہوئی ہیں جن سے اس تاریخی آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ فی الحال یہ حکومتی اقدامات نظروں کے سامنے ہیں۔ عوام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سیاست زدہ حکمت عملی، نیم دلی اور مصالحت پسندی کے ذریعے کراچی کے آپریشن سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کو حکومتی آپریشن سے پہلے وارننگ اس طرح دی گئی کہ وہ آرام سے اندرونِ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور آزاد کشمیر کی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے گئے جہاں ان کے لیے عیش و عشرت کے سامان کا پہلے سے انتظام کیا جاچکا تھا۔ وزیراعظم نے کراچی میں کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد کیا اور شہر کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ عوام حکومت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہے ہیں کہ جن عناصر کے خلاف آہنی انداز کے حکومتی اقدامات مقصود ہیں کیا وہ خاموشی سے کسی جگہ اکٹھے ہو کر رینجرز یا پولیس کا انتظار کریں گے؟ اور ساتھ ساتھ کیا کراچی کی سٹیک ہولڈر سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور کارکن خاموشی سے سب کچھ ہونے دیں گے؟ لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی نیم دلانہ پالیسی کی وجہ سے کراچی کو جرائم سے پاک کرنے کا خواب شیشے کی طرح ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ کراچی کی صورتحال پر وفاق حیران و پریشان ہے اور عوام کو یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ آپریشن بند نہیں کیا جائے گا۔ ان سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز‘ جن کی نشاندہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے کی تھی‘ زیرِ زمین چلے گئے ہیں اور پوری طرح فعال ہیں۔ ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ فوج کو کراچی کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے مگر اب ایم کیو ایم اپنے مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے خود مطالبہ کر رہی ہے کہ کراچی کو افواجِ پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ چند روز ہوئے مجھے ملک کے ایک ممتاز نجی ٹیلی ویژن چینل کی دعوت پر کراچی جانے کا اتفاق ہواتو وہاں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں نے ملاقات کے دوران بتایا کہ عام طور پر گمان یہی کیا جاتا ہے کہ سابق صدر زرداری ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سندھ میں وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری سونپنے والے ہیں اور مسٹر آصف علی زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد کو فارغ کر دیا جائے کیونکہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے گہرے تعلقات ہیں اور کسی ایسے شخص کو گورنری دی جائے جو ایم کیو ایم کے خلاف سب میرین کی طرز پر کارروائی کرے جو دشمن کے جہاز کو اس خاموشی سے تار پیڈو سے تباہ کرتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت بھی گورنر عشرت العباد پر اعتماد نہیں کر رہی؛ تاہم وہ گورنر عشرت العباد کے مستعفی ہونے پر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ پھر ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق صدر زرداری بھی نواز شریف سے مخلص نہیں ہیں‘ وہ یہی چاہتے ہیں کہ کراچی میں رینجرز کی کارروائی ناکام ہو جائے اور کراچی کے حالات دیکھتے ہوئے سندھ میں گورنر راج کا نفاذ اسی طرح عمل میں لایا جائے جس طرح صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا تھا لیکن اس وقت ان کی تدبیریں ناکام ہو گئیں اور لانگ مارچ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا جس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز بحال ہوئے۔ اب ایک فریق کی چال یہی ہے کہ کراچی کے حالات اس قدر خراب کر دیے جائیں کہ وفاقی حکومت کو ایمرجنسی نافذ کر کے سندھ اسمبلی کو معطل کرنا پڑے۔ ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم اس کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرے گی اور ملک میں شدید سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا کیونکہ اب 1990ء، 1993ء اور 1998ء کا دور نہیں ہے جب ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ تب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کسی محاذ پر بھی سرگرم نہیں تھی اور انہوں نے پوری قوت سے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ اب افواجِ پاکستان لائن آف کنٹرول، وزیرستان ، بلوچستان، فاٹا اور افغانستان کے 1300کلو میٹر کے بارڈر پر مصروف عمل ہیں اور گزشتہ پانچ سال کے دوران بھارت کے حامی اور بین الاقوامی صحافیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے میڈیا کے ذریعے انہیں کمزور وکٹ پر کھڑا کر دیا ہے اور اِسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف کے ارد گرد معقول ویژن رکھنے والی شخصیات بھی نظر نہیں آتیں جو تدبر کے ساتھ بحران پر قابو پانے کے اہل ہوں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء بھی نوازشریف کے ساتھ مخلص نہیں اور اندرونی کیفیت یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے اِرد گرد ایسے لوگوں کا اجتماع ہے جو ابھی تک 11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ان کی توقع کے برعکس ہیں۔ جس پارٹی کے سربراہ نے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے جو ٹکٹ ایوارڈ کیے ان کی تعداد اس قدر کم تھی کہ پارٹی نے 18ویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے الیکشن کے حیرت انگیز نتائج دیکھ کر خواتین کی مخصوص نشستوں پر بعد میں خواتین کو نامزد کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو یقین ہی نہ تھا کہ ان کی پارٹی پنجاب کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں حاصل کرلے گی۔ لہٰذا انہوں نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کوٹہ سے کم خواتین کو نامزد کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آرٹیکل 224کے تحت خط بھجوائے۔ ان حالات میں ایم کیو ایم پوری قوت سے وفاقی حکومت کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر سکتی ہے اور چونکہ اِسی سال 28نومبر کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر بھی ہو جائے گا اور 12دسمبر کو پاکستان کے نئے چیف جسٹس بھی حلف اٹھا چکے ہوں گے اور اس کے بعد ملک میں ایسی فضا ہوگی کہ وفاقی حکومت کی عمل داری کراچی میں ناکام ہو جائے گی اور اس کے ملک کے دیگر حساس علاقوں پر گہرے اثرات پڑیں گے ۔ وزیرستان، فاٹا، بلوچستان کے بارے میں مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ 90فیصد علاقوں میں نہ قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور نہ کہیں پاکستان کا پرچم لہرایا جاسکتا ہے۔ ان حالات اور پس منظر میں وفاقی حکومت کو کراچی کے حالات درست سمت کی طرف لے جانے اور پاکستان میں وفاق کی عمل داری کے لیے سندھ حکومت کو تین ماہ کے لیے معطل کر دینا چاہیے اور ان سیاسی جماعتوں‘ جن کے باقاعدہ عسکری ونگز ہیں اور جن کی نشان دہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے کی تھی‘ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 17اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15اور16کے تحت کارروائی کرنی چاہیے۔ اس آئینی قدم سے فیڈریشن مضبوط ہو جائے گی اور اس عمل سے ملک کے باقی حصوں میں بھی مثبت پیغام پہنچ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں