"KDC" (space) message & send to 7575

بھارت : ووٹر کو تمام امیدوار مسترد کرنے کا حق

بھارت کی سپریم کورٹ نے ووٹر کو انتخابات میں تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق دے دیا ہے۔ ووٹر کو حق ہو گا کہ وہ بٹن دبا کر یہ اظہار کرے کہ کوئی امیدوار اس کے ووٹ کا اہل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا ہے کہ انتخابی مشین اور بیلٹ پیپرز پر None of the aboveیا ان امیدواروں میں سے کوئی نہیں کا خانہ مہیا کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ووٹ دینا اور امیدوار کو مسترد کرنا دونوں ووٹر کے بنیادی حق ہیں۔ اگر بڑی تعداد میں ووٹر NOکا بٹن دبائیں گے تو اس سے سیاسی جماعتوں پر دبائو پڑے گا کہ وہ بہتر امیدوار لائیں۔ منفی ووٹ انتخابات میں مرحلہ وار تبدیلی کا پیش خیمہ بنیں گے۔ بھارت نے جمہوریت کی بہتری کے لئے ایک اور قدم اٹھالیا ہے جب کہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ شروع ہی سے مذاق کا سلسلہ جاری ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے ’’ووٹ کسی کے لئے نہیں ‘‘کا حکم دے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے بھی درست سمت کا درکھول دیا ہے۔سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے 11مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل 15اپریل 2013ء کو بیلٹ پیپرز میں نئے خانے کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ ووٹ کسی کے لئے نہیں، لیکن چند روز بعد الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ کسی کے دبائو میں آکر واپس لے لیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کو عوام کی اُمنگوں کے مطابق کروانے ،1985ء سے 15مارچ2013ء تک کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کے عوام پر حاکمیت جمائے رکھنے ،19کروڑ عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی عمل سے باہر نکالنے کے لئے بیلٹ پیپر میں خالی خانہ پر مہر لگا کر دینے کا فیصلہ کیا تھاتاکہ ووٹر ناپسندیدہ امیدواروں کے خلاف بھی رائے کا اظہار کر سکیں۔مسلمہ طریق کار کے مطابق ناپسندیدہ نتائج میں 51فیصد ووٹ آنے پر متعلقہ حلقے کا الیکشن کالعدم ہونے کا امکان تھا جس پر دوبارہ انتخابات کرایا جانا لازمی تھا۔بیلٹ پیپر پر None of the aboveکا نظام لانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں لیکن الیکشن کمیشن نے نگران حکومت سے آرڈیننس جاری کروانے کے لئے سمری ارسال نہیں کی تھی۔ اگر الیکشن کمیشن کی سمری نگران حکومت منظور نہ کرتی یا صدر آصف علی زرداری اس کی منظوری نہ دیتے تو یہ بات عیاں ہو جاتی کہ وفاقی نگران حکومت کرپٹ عناصر کو الیکشن کے عمل سے باہر نکالنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور الیکشن کمیشن پر یہ حرف نہ آتا کہ وہ ملک کے انتخابی نظام میں عوام کے حقیقی نمائندے کے چنائو میں سنجیدہ نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل62 اور63 کے حوالے سے ریٹرننگ افسروں نے جو چشم پوشی کی تھی اس کا قانونی طور پر ازالہ ہو جاتا ،عوام کے ہاتھ میں ووٹ کی صحیح طاقت آجاتی اور اپنے ووٹ کی طاقت سے آلودہ کردار کے حامل امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ صحیح معنوں میں پولنگ سٹیشنوں پر ہی ہو جاتا۔ دراصل انڈیا کی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کے انتخابی نظام سے یہ قانون کشید کیا ہے۔ عوام کی رہنمائی کے لئے اور آئندہ کے انتخابی لائحہ عمل کے لئے آگاہ کرنا میرا فرض ہے۔سیاسی مفادات کے حامل سیاسی پارٹیوں کے رہنما، موروثی سیاست کا ہم خیال طبقہ اپنی حکمرانی کے لئے عوام کو فریب، دھوکہ دہی، دھونس ، زبردستی اور مکاری سے حکومت کرنا چاہتا ہے ۔ جب عوام کے ووٹوں سے ان کے احتساب کا وقت آن پہنچا تو پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)فخرالدین جی ابراہیم نے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک دی حالانکہ انہیں پوری قوم کا اعتماد حاصل تھا اور قوم ان سے غیر جانبدارانہ ، جرأت مند اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام دیکھنا چاہتی تھی ،اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان ان کی پشت پر کھڑی تھی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 218اور 219کے تحت ملک میں حقیقی انتخابات کرائیں۔انہوں نے قوم کا اعتماد مجروح کیا اور بیلٹ پیپر پر None of the aboveکا فیصلہ واپس لے لیا۔ بیلٹ پیپر پر ووٹروں کو تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے 28دسمبر2008ء کو متعارف کرایا تھا۔ مجھے بنگلہ دیش کی حکومت نے 28دسمبر2008ء کو بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لئے مدعو کیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ بنگلہ دیش کے کرپٹ پارلیمانی عناصر کو عوام کی عدالت میں پیش کرنے کیلئے بیلٹ پیپر پر تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کیلئے ایک خالی خانہ شامل کیا گیا ہے ۔ اگر ووٹر کسی بھی امیدوار کو پسند نہیں کرتا تو خالی خانہ پر مہر لگا دے گا اور جس حلقے میں 51فیصد ووٹ None of the aboveکے خانہ پر مہر لگے گی وہاں انتخابات کالعدم ہو جائے گا۔ اِسی طرح بنگلہ دیش کے ہر پولنگ سٹیشن کے باہر اور اندر بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر لگائے گئے تھے کہ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ ڈالنے جارہے ہیں، کیا وہ ایمانداراور دیانتدار ہے؟ اگر اس امیدوار نے منتخب ہونے کے بعد کرپشن کی ،عوام کے مفاد کے خلاف کام یا اپنے انتخابی منشور کے خلاف کام کرنے شروع کر دیے تو اس کے تمام تر غلط کاموں میں ووٹر بھی برابر کا شریک ہو گا۔ لہٰذا اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالئے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کی سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے پارلیمانی بورڈ زکو ہدایات جاری کرنی پڑیںکہ ایسے امیدوار کو پارٹی ٹکٹ دیے جائیں جن کی شہرت اچھی ہو اور وہ کسی کرپشن میں ملوث نہ پائے گئے ہوں۔ میرے ہمراہ بھارتی الیکشن کمشنر بھی تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کے پوسٹر کی تمام ویڈیو بنائی اور بیلٹ پیپر کے نمونے بھی حاصل کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین الیکشن کمیشن بنگلہ دیش کے طرز انتخابات کو اپنانے کیلئے قانون سازی کرائے گا اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائی جائے گی۔ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان بنگلہ دیش کے انتخابی نظام کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس قاضی محمد فاروق کو پیش کی تھی کیونکہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی منظوری سے مجھے انتخابی اصلاحات کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کر دیا تھا ۔ میں نے اور میری فعال ٹیم نے جس میں چاروں صوبوں کے الیکشن کمشنرز اور جوائنٹ سیکرٹری شامل تھے،کی معاونت سے انتخابی اصلاحات کے لئے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی جس میں بنگلہ دیش کی انتخابی اصلاحات کی کارآمد تجاویز کو اپنی رپورٹ میں شامل کیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری سے یہ جامع رپورٹ 11مارچ2009ء کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پیش کر دی گئی ۔انہوں نے یہ رپورٹ پارلیمانی کمیٹی کو جائزہ کیلئے بھجوادی۔ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان بیلٹ پیپرز پر None of the aboveکے تحت کارروائی کرتا تو ووٹر جب پولنگ سٹیشن کے پولنگ بوتھ پر کھڑا ہو کر بیلٹ پیپر پر موجود ان تمام امیدواروں کے نام دیکھتا جو پانچ سال جمہوریت کے نام پر ملک میں لوٹ مار، دھونس، غنڈہ گردی، زمینوں کی تقسیم، اربوں روپے ترقیاتی فنڈز سے وصول کرنے والوں، ملک کو پولیس سٹیٹ میں تبدیل کرنے والوں، انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دینے والوں، انڈیا میں چینی کے کارخانے لگوانے والوں اور عوام کے ساتھ فریب کرنے والوں کے چہرے دیکھتا تو وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار None of the aboveکے کالم میں مہر لگا کر ان کو مسترد کر دیتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلہ سے بیلٹ پیپر میں اعتراض کا خانہ رکھنے سے وہ خاموش اکثریت بھی پولنگ سٹیشن کا رخ اختیار کرتی جو ماضی میں تمام امیدواروں کو اپنے ووٹ کا اہل نہ سمجھتے ہوئے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتی رہی، مگر اس کے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ جمہوریت کے نظام سے عدم دلچسپی نہیں بلکہ امیدواروں سے متعلق تحفظات رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے None of the aboveکے بارے میں پاکستان کے عوام کی امیدوں کی آخری کرن سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم عوام کی توقع پر پورے نہیں اترے اور ان کی کمزوریوں نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا اور شفاف انتخابات کے تمام دعوے حقائق کے برعکس ثابت ہوئے اور قوم کو انہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو ہمیشہ سے ان کے سر پر مسلط ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی خیر خواہی کرنے کو تیار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں