"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور تحفظات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 11مئی 2013ء کو متفقہ الیکشن کمشنر کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا اہتمام کیا اور تمام تر تحفظات کے باوجود اسی الیکشن کے نتیجہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل عمل میں آئی۔ لیکن اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ صرف کراچی کے دو حلقوں میں بالترتیب 77ہزار اور 90ہزار سے زائد ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کراچی کے حلقہ 256میں گیارہ ہزار ووٹ چند درجن شناختی کارڈز کی مدد سے ڈالے گئے تھے اور اِسی طرح کا ملتا جلتا معاملہ این اے 258میں بھی تھااور اب پی ایس114کے نتائج کی روشنی میں 80ہزار ووٹوں کے جعلی انگوٹھے لگانے کا انکشاف ہوا ہے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے موقع پر میں نے ایک نجی ٹیلی ویژن کے براہِ راست نشریاتی پروگرام میں شرکت کی تھی۔ دو دلیر اور جرأت مند اینکرز نے انتخابات میں کراچی کے انہی حلقوں میں‘ جہاں اب نادرا کی رپورٹ کی روشنی میں معاملہ زیر بحث ہے، کھلم کھلا دھاندلی کا ذکر کیا۔ انہوں نے جو چشم دید واقعات ہمیں بتائے‘ میں نے قوم کو آگاہ کر دیا تھا کہ انتخابات مکمل طور پر شفاف نہیں ہوں گے۔ میں نے اپنے خدشات کا اظہار الیکشن سے قبل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بار بار کیا اور تب جو حلقے ہمارے نقطہ نظر سے اختلاف کر رہے تھے ان کے لیے کراچی کے دو حلقوں کے بارے میں نادرا کی رپورٹ چشم کشا ہے۔ میرے جنوری 2013ء سے اکتوبر2013ء تک کے کالم گواہ ہیں کہ الیکشن کی مشینری سیاست کا شکار ہو چکی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم سے دریافت کیا تھا کہ بیلٹ پیپرز طے شدہ طریقہ کار اور فارمولے کے برعکس بڑی تعداد میں کیوں چھاپے جارہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وقت اور حالات کو مدِ نظر رکھا جارہا ہے۔ اس وقت بھی بہت زیادہ حیرت ہوئی تھی جب میاں نواز شریف نے 11مئی کی رات ساڑھے گیارہ بجے قوم سے مستقبل کے وزیراعظم کی حیثیت سے خطاب فرما دیا تھا‘ جب کہ اس وقت تک صرف چند پولنگ سٹیشنوں کے غیر سرکاری نتائج آنا شروع ہوئے تھے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے17جنوری کو ہی بہت سے خدشات ظاہر کر کے قوم کو خبردار کر دیا تھا۔ عمران خان کو اپنی بیماری کی حالت میں ان کی پارٹی کے سینئر ساتھیوں نے فریب دیا اور ان کو اِسی طرح اندھیرے میں رکھا جس طرح ایام اسیری میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں نے ان کو دھوکا دیا تھا اور بھٹو عدالت میں کہا کرتے تھے کہ اگر ان کو سزائے موت دی گئی تو کوہِ ہمالیہ سے آنسوئوں کا سمندر امڈ آئے گا۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں نے 15مئی کو کہہ دیا تھا کہ نتائج توقعات کے برعکس ہیں۔ صدر زرداری نے 9ستمبر کو ریمارکس دئیے کہ نتائج ان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے‘ لیکن پارٹی چونکہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکی ہے‘ لہٰذا انہوں نے جمہوریت کا سہارا لے کر خاموشی اختیار کر لی۔ اِسی لئے ڈاکٹر طاہر القادری‘ عمران خان اور جنرل حمید گل‘ جو اب ایکس سروسز مین سوسائٹی کے متفقہ صدر منتخب ہو گئے ہیں‘ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر کراچی کے دو حلقوں کی طرح دیگر حلقے بھی چیک ہو گئے تو دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو جائے گا کیونکہ الیکشن ٹربیونلز کا مینڈیٹ مختصر مدت کے لیے ہے ۔ ان کے ہاں چار سو کے لگ بھگ الیکشن کے کیسز زیر سماعت ہیں۔لہٰذا الیکشن ٹربیونلز کو کراچی کی طرز پر لاہور سمیت جنوبی اور وسطی پنجاب اور کوئٹہ کے حلقوں کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ ڈاکٹر طاہر القادری قوم کو آگاہ کرتے رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 213کی خلاف ورزی کر کے تشکیل دیا گیا ہے اور ایسی صورت میں غیر جانبدارانہ انتخابات نہیں کروا سکتا۔ 11مئی 2013ء کو ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ابھی گنتی شروع ہوئی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ان پر اعتماد کرنے پر قوم کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو فتح کی مبارک باد بھی دے دی۔ اس کے چند گھنٹوں کے اندر اندر پریزائڈنگ افسروں نے الیکشن ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشنوں سے نکال کر بند کمروں میں رزلٹ کی تیاری کا عمل شروع کر دیا اور عمران خان نے دس لاکھ رضاکاروں کی جو ٹیم تیار کرنے کا اعلان اور دعویٰ کیا تھا‘ کہ وہ پولنگ سٹیشنوں کے باہر انتخابی عمل کی حفاظت کریں گے‘ وہ بھی درست ثابت نہ ہوا۔ اگلے دن نتیجہ آیا جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)نے پورے پاکستان میں بھاری کامیابی حاصل کی ۔ میں نے اِسی رات نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں نواز شریف صاحب کی اس تقریر کو انتخابی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا تھا‘ افسوس کہ الیکشن کمیشن کے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ میاں صاحب کو نوٹس بھیجتے کہ انہیں کس نے خواب میں یہ نوید سنائی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت چکی ہے اور وہ بھی بھاری اکثریت سے۔ یہاں پر صدر زرداری کا بھی یہ آئینی فرض تھا کہ وہ قوم سے اس خطاب اور غیر ملکی سربراہوں کے مبارک باد کے پیغامات کا نوٹس لیتے اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دبائو ڈالتے کہ جب تک خطاب کے پسِ منظر سے آگاہی نہیں ہو جاتی الیکشن کے نتائج روک لئے جائیں اور جن غیر ملکی سربراہوں کے پیغامات نشر ہوئے ان ممالک کے سفیروں کو طلب کر کے احتجاج کیا جاتا تو یقینا یہ سفارتی نمائندے ان اعلانات سے منحرف ہو جاتے۔ ابھی الیکشن ٹربیونلز 400کے لگ بھگ انتخابی عذرداریوں کی سماعت کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عظیم تر مفاد میں، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کی جانب سے 11مئی 2013ء کے انتخابات کو چیلنج کر دینے کے عمل میں قوم کی ترجمانی کی جانی چاہیے۔ جس رفتار سے وہ کارروائی کر رہے ہیں۔ وہ چار سال سے پہلے مکمل نہیں کر پائیں گے۔ ویسے بھی وہ کنٹریکٹ پر ہیں اور بنیادی طور پر ان کی سروسز ایک سال کے لئے مستعار لی گئی تھی۔ لیکن وہ عوامی نمائندگی ایکٹ76کی دفعہ 53۔64تک اپنے فرائض چار ماہ میں مکمل نہیں کر پائیں گے۔ عمران خان دعویٰ کرنے کے بعد U-Turnلینے کے ماہر ہیں۔ وہ اپنی Credibilityاپنے چند نادان دوستوں کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو آگے بڑھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں