"KDC" (space) message & send to 7575

ملالہ کی کتاب… چند حقائق

برطانوی جریدے ’اکانومسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں ہر سال 52ہزار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اب تک ایک لاکھ برطانوی شہری اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان کے قبولِ اسلام کی وجہ محض اسلامی تعلیمات کا مطالعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے بہتر سماجی رویّوں، اخلاقی اقدار اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی نسبت مساوی سلوک نے بھی ان کے قبولِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حقیقت نے بھی انہیں متاثر کیا کہ بدترین حالات میں بھی راسخ العقیدہ مسلمان خوفِ خدا اور خوفِ آخرت سے بے نیاز نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس بگرام میں دنیا کو تہذیب و شائستگی کا سبق دینے والے امریکی فوجیوں نے اکیلی عافیہ صدیقی کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا ،وہ بربریت کی عبرت ناک مثال ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سپین ، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم سٹار، سائنس دان، کھلاڑی ، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدان دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن اور خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی کے علمبردار امریکہ و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا کے باعث ہے اور اس پھیلتے ہوئے مذہب کے خوف کا مظہر بھی۔ غالباً اِسی لیے امریکہ‘ یورپی ممالک اور پاکستان کے بعض کالم نگار، اینکرز اور دانشورپاکستان کی نادان لڑکی ملالہ کو بہت زیادہ نمایاں کر رہے ہیں۔ میں نے چند ماہ پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ملالہ کا کردار انتہائی پُراسرار ہے اور اس کا سرپرست ضیاء الدین انتہائی حریص اور موقع شناس ہے۔ برطانوی ادارے نے سوات کے ضیاء الدین کے توسط سے ملالہ کو محض دولت اور مادی ترقی کے لیے مغرب کا ہتھیار بنا ڈالا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسلام ، پاکستان اور اس کی تہذیب کا مذاق اُڑانے کیلئے ملالہ کو سامنے لائے ہیں۔ ملالہ پر سازش کے تحت اُسی طرح فرینڈلی فائر کیا گیا تھا جس طرح بھارت کے ڈرامہ سی آئی ڈی میں دکھایا جاتا ہے۔ اُسے ایسے حساس مذہبی معاملات میں گھسیٹا جارہا ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی حساس نوعیت کے ہیں اور جس کی وجہ سے ملالہ انتہائی متنازعہ شخصیت کا روپ دھار چکی ہے۔ ملالہ کی آپ بیتی نما کتاب میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب کے حوالے سے آزادیٔ رائے کے حق میں بات کرنا، اللہ تعالیٰ کے قانون کے نفاذ پر اعتراض اُٹھانا، ناموسِ رسالت ﷺ کے قانون پر تحفظات کا اظہار کرنا، قادیانیوں اور مسیحی برادری پر پاکستان میں حملوں کی بات کرنا اور یہ کہنا کہ احمدی (قادیانی) اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت ان کو غیر مسلم سمجھتی ہے‘ ایسے موضوعات ہیں‘ جو مسلمانوں اور اسلام مخالف قوتوں کے درمیان تنائو کا باعث بن سکتے ہیں۔ ملالہ 25اور26مارچ2012ء کو ایوانِ قائد میں نظریۂ پاکستان کونسل (ٹرسٹ) کی جانب سے گولڈ میڈل وصول کرنے آئی تھی۔ میں نے اس کی عمر، لب ولہجے، رنگ ، شکل و صورت اور قد کا اس کے والدین سے موازنہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ملالہ کی عمر اتنی نہیں جتنی بتائی جا رہی تھی۔ وہ اس وقت بھی 16سال کی لگ رہی تھی۔ اس کے والد کا قد پونے چھ فٹ کے قریب اور والدہ کا قد تقریباً سوا پانچ فٹ تھا‘ جب کہ ملالہ کا قد کم و بیش چار فٹ 2انچ کے قریب نظر آرہا تھا ۔رنگ گہرا سانولا جب کہ اس کے والدین کا رنگ برائون نما سفید تھا جو سوات میں عام خواتین اور مردوں کا ہوتا ہے۔ سوات کے رہائشی اور سواتی نسل کے لوگوں کا رنگ گہرا سانولا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ سواتی دراصل یونانی خدوخال کے حامل لوگ ہیں۔بین الاقوامی سازش کے تحت ملالہ کے ذریعے اسلام اور پاکستان کے معاملات کے بارے میں اظہارِ خیال کروانا اور لکھوانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ سوات کے لوگ اس کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کر رہے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے مجھے بتایا وہ فی الحال لکھنا مناسب نہیں۔ اس کے والد نے اس کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سوات کے عوام ملالہ کو ایک اداکارہ سمجھتے ہیں۔ وہ گل مکئی ہے نہ ملالہ ،حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اس کتاب کا ایک ورق بھی نہیں لکھ سکتی۔ اب اِسی سے ملتا جلتا ایک تاریخی واقعہ نذر قارئین ہے۔ اپریل 1973ء میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صفدر شاہ نے صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری اعجاز اے نائیک کے نوتعمیر شدہ چیف سیکرٹری ہائوس پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی۔ جسٹس صفدر شاہ مرحوم کا مؤقف تھا ،چونکہ اعجاز اے نائیک غیر شادی شدہ ہیں اور ان کے استعمال میں جو موجودہ چیف سیکرٹری ہائوس ہے وہ ان کی ضرورت کے عین مطابق ہے، لہٰذا جو نیا چیف سیکرٹری ہائوس تعمیر کیا گیا ہے ، ان کو الاٹ کیا جائے کیونکہ ان کی فیملی بڑی ہے۔ جسٹس صفدر شاہ (مرحوم) نے ان پر دبائو بھی ڈالا۔ اعجاز اے نائیک نے چونکہ اپنی نگرانی میں نیا چیف سیکرٹری ہائوس تعمیرا کرایا تھا اس لیے وہ اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد میں اس وقت کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد کو اعتماد میں لیا۔انہوں نے پشاور کے انگریزی ہفت روزہ ’گارڈین‘ کے چیف ایڈیٹر یوسف لودھی سے رابطہ کیا اور انہیں نئے تعمیر شدہ گھر پر جسٹس صفدر شاہ کی طرف سے قبضہ کرنے کے بارے میں آکسفورڈ طرز کی انگریزی میں لکھے گئے ایک کالم کا ڈرافٹ دیا۔یوسف لودھی انگریزی نہیں جانتے تھے ،وہ تو محض کارٹونسٹ تھے،تاہم انہوں نے اپنے نام سے کالم گارڈین میں یہ کالم شائع کردیا اور ٹائٹل پر جسٹس صفدر شاہ کا کارٹون بھی بنایا جو اپنے درجن بھر بچوں کی انگلیاں پکڑے چیف سیکرٹری ہائوس کے باہر کھڑے نظر آرہے تھے۔ گارڈین میں جونہی یہ سٹوری شائع ہوئی، عدالتی حلقوں میں بھونچال آگیا۔ چیف جسٹس صفدر شاہ (مرحوم) نے از خود نوٹس لیتے ہوئے یوسف لودھی کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ انہوں نے یوسف لودھی(مرحوم) سے اس سٹوری کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سٹوری انہوں نے لکھی ہے۔ اس پر جسٹس صفدر شاہ نے کہا کہ ابھی عدالت میں اس سٹوری کا ایک پیراگراف مجھے لکھ کر دکھا دیں‘ میں توہینِ عدالت کا کیس خارج کردوں گا۔ چونکہ سٹوری Orientedاور Plantedتھی لہٰذا یوسف لودھی ایک سطر بھی نہ لکھ سکے، حالانکہ یوسف لودھی کے وکیل ایس ایم ظفر اور ان کی معاونت کیلئے پاکستان کے عظیم صحافی پروفیسر مرغوب احمد صدیقی (مرحوم) موجود تھے۔ میری ان دنوں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ایک ذیلی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے پشاور میں پوسٹنگ تھی اور سیکرٹری وزارتِ اطلاعات و نشریات نسیم احمد کی ہدایت پر میں پشاور ہائی کورٹ میں موجود تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ یوسف لودھی ایک سطر بھی نہ لکھ سکے تو پشیمانی‘ صدمے اور گھبراہٹ میں عدالت ہی میں بے ہوش ہو گئے۔ چیف جسٹس صفدر شاہ نے ان کو غالباً ایک ماہ کی سزا سنا دی اور وہ جیل بھیج دیے گئے۔ اتفاق سے ان دنوں سپریم کورٹ کا بنچ پشاور میں سماعت کے لئے موجود تھا جس کی سربراہی جسٹس انوار الحق (مرحوم) کر رہے تھے۔ دوسرے دن ایس ایم ظفر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی اور جسٹس انوار الحق (مرحوم) نے جسٹس صفدر شاہ کے احکامات کو معطل کر کے یوسف لودھی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اب اگر پاکستان کی محب وطن سول سوسائٹی عدالتِ عظمیٰ میں ملالہ کی نام نہاد کتاب کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 184کے تحت آئینی درخواست دائر کر دے اور عدالت سے استدعا کرے کہ ملالہ کو طلب کر کے اس سے کتاب کے متن کے بارے میں استفسار کر لیں تو وہ اور ان کے والد عدالت کے روبرو یوسف لودھی جیسا ہی منظر پیش کریں گے اور جب مقدمے کی سماعت شروع ہو گی تو ممکن ہے اہالیان سوات ملالہ کے بارے میں ایسے انکشافات کریں جن کے منظر عام پر آنے کے بعد ملالہ کو شہ دینے والے ممالک کے سربراہوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔ اگر ایسی کوئی پیش رفت ہو تو عدالت میں سماعت کے دوران اس پائلٹ کا بھی بیان حلفی لیا جانا چاہیے جس کے جہاز میں ملالہ نے لندن جانے کے لیے سفر کیا تھا۔ ملالہ کو بے نقاب کرنا پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے۔ ملالہ نے پیغمبرِ اسلام ﷺ کا حوالہ دیا مگر ایک مرتبہ بھی ﷺ (PBUH)نہیں لکھا۔ میں نے تو غیر مسلموں تک پیغمبرِ اسلامﷺ کے نام کے ساتھPBUHلکھتے دیکھا ہے‘ یہاں تک کہ صدر اوباما نے عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر اپنے پیغامات میں Prophetکے ساتھ PBUHکہا تھا۔ ملالہ کے نام سے جو کچھ کیا گیا وہ نہ صرف یہ کہ کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف بھی ہے۔ ملالہ نے مملکت پاکستان سے غداری کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ پاکستان ہندوستان سے تینوں جنگیں ہارا۔ ملالہ کی کتاب پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ امریکہ اور یورپ ،جنہوں نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں‘ جن میں ہزاروں معصوم بچیاں شامل تھیں‘ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے‘ وہ سوات کی اس ملالہ پر کیوں اتنے فریفتہ ہو گئے؟ اور اس کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے بھٹکے ہوئے باپ نے بیٹی کے نام سے منسوب کتاب کو اپنے مکروہ خیالات کے اظہار کا کیوں ذریعہ بنایا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں